• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دروغ پبلشرز کی جنرل گائیڈز سے منتخب کردہ مزید کچھ سوالات کے جوابات حاضر ہیں ۔
سوال:وفاقی اور صوبائی حکومتو ں کو ڈینگی وائرس اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے کون کون سے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ؟ تجاویز دیں۔
جواب: سب سے پہلے وفاقی حکومت کو ان مسائل پر ایک عدد اے پی سی بلانی ہو گی تاکہ قومی اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جا سکے کہ ان مسائل سے نمٹنا ہے بھی یا نہیں ؟ کچھ عجب نہیں کہ کچھ جماعتوں کو اس سلسلے میں عوام کو ریلیف دینے پر تحفظات ہوں۔ اگر اے پی سی کے مشترکہ اعلامیے میں اتفاقاً یہ مسائل حل کرنے پر اتفاقِ رائے پایا جائے تو پھر اکابرین قومی و صوبائی حکومت کو ”مروجہ طریقہ کار“ اپنانا ہو گا۔ انہیں سیلاب زدہ علاقوں کے اندھا دھند فضائی جائزوں اور ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کے اسپتالوں پر دوروں کے تابڑ توڑ حملے کرنے چاہئیں ۔ کبھی کبھار سیلابی پانی میں جوتوں سمیت گھس جانا یا متاثرین ڈینگی کی عیادت کے وقت مگر مچھ کے آنسو بہانا اضافی موثراقدامات ہیں ۔
حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے حسن خطابت کی توپوں کا رخ ڈینگی مچھر کی طرف موڑ کر اس کی کمر توڑ دیں اور ڈینگی ایسے دشمن کو اسی طرح کیفر کردار تک پہنچا دیں ، جیسے وہ مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کو پہنچا چکے ہیں ۔ سیلاب کے متاثرین کی بحالی کے لئے بھی انہیں صبح دوپہر شام اپنے عزم دہرانے کی ضرورت ہے ۔ تاہم زعمائے حکومت کا پختہ ایمان ہونا چاہیے کہ اس نوع کی ارضی وسماوی آفات بھوکے اور ننگے عوام کی بد اعمالیوں اور گناہوں کا شاخسانہ ہوتی ہیں ۔ لہذا معاملہ اس گناہگار قوم اور مالک ارض و سما کے درمیان ہے اور وہی ان کی حقیقی مدد کو آئے گا۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتیں ان قدرتی آفات کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات کر کے قانون قدرت میں دخل اندازی نہ کریں اور ڈینگی مچھر کے قتل عام، آبی گزرگاہوں کے کناروں اور پشتوں کو مضبوط بنانے اور متاثرین سیلاب کی بحالی و آباد کاری جیسے اقدامات سے بازو ممنوع رہیں ۔ حکمرانوں کو ڈرانا مقصود نہیں لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ”بحالی“ کبھی بھی ان کے حق میں نیک ثابت نہیں ہوئی ۔ نیز خدشہ ہے کہ متاثرین سیلاب کی بحالی سے عوام کو بحالیوں کا چسکا پڑ جائے گااور وہ بنیادی حقوق ، اصلی جمہوریت ، امن و امان اور عزت نفس کی بحالی جیسے مطالبات کر سکتے ہیں ، جس سے ملک عدم استحکام کا شکار بھی ہو سکتا ہے ۔ یاد رہے کہ ایسے مسائل پانی کے بلبلے کی طرح ہوتے ہیں اور پلک جھپکتے ہی غائب ہو جاتے ہیں ۔ اگر حکمران جذباتی نہ ہوں اور صبر اور ایمان کا دامن نہ چھوڑیں تو انشاء اللہ بہت جلد سیلابی پانی بھی گزر جائے گا اور ڈینگی مچھر بھی اڑن چھو ہو جائے گا۔
سوال: کسی مشاعرے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کریں۔
جواب: میں ایک شریف آدمی ہوں ، لہذا مشاعروں اور اس طرح کی دیگر خرافات سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ میٹرک کے دوران میں ہمیشہ دیوانِ غالب کو ”دیوانے غالب“ لکھ دیتا ، جس پر اردو کے استاد صاحب سے مجھے اکثر مار پڑتی ، حالانکہ دیوانہ تو دیوانہ ہوتا ہے چاہے اسے جس طرح بھی لکھ دیا جائے ، بالکل اسی طرح جیسے ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا نقلی ۔ بہرحال مشاعرے کی روداد یہ ہے کہ بدقسمتی سے میرے واحد دوست ولی خان کو ایک سال قبل سڑک کے حادثے میں سر پر شدید چوٹ آئی ۔وہ ٹھیک تو ہو گیا لیکن اس چوٹ کی پاداش میں شاعر ہو گیا اور اس کو شاعری سے ویسی ہی رغبت ہو گئی جیسے گھوڑے کو گھاس سے ہوتی ہے ۔ ولی خان نے اپنے لیے ”نروس“ تخلص پسند کیا کیونکہ وہ عورتوں سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ نروس ہو جاتا ہے ۔ اب مجھے اکثر اپنی دکان پر اس کی شاعری سننا بلکہ برداشت کرنا پڑتی ہے ۔پچھلے ہفتے کی رات ولی خان نروس #ضد کر کے مجھے اپنے ساتھ ایک مشاعرے میں لے گیا ۔ میں دل بڑا کر کے ہال میں بچھی اس چاندنی پر بیٹھ گیا ،جہاں پہلے ہی کافی تعداد میں مردوزن براجمان تھے۔اسٹیج پر شعرا ء بے چینی سے اپنی اپنی باری کے منتظر تھے ۔ جوں جوں مشاعرہ آگے بڑھتا گیا، میرے چودہ طبق روشن ہوتے گئے ۔ ان تین چار گھنٹوں میں ، میں نے اتنا جھوٹ سنا کہ مجھے ڈر ہے کہ چالیس روز تک ایمان میرے نزدیک نہیں آئے گا ۔ جو شاعر جتنا بڑا ہوائی قلعہ تعمیر کرتا سامعین اتنے ہی جوش و خروش سے اسے داد دیتے ۔ ہزار لیپا پوتی کے باوجود اکثر شعرا ء کا خبث باطن ان کے کلام سے عیاں تھا ۔ ان کے افکار کا سرچشمہ عورت ذات تھی اور ان کا ٹھرکی چال چلن عشقیہ اوصاف سے مزین اشعار کی صورت میں نمایاں تھا ۔ کئی شاعروں کی طرف سے شرفاء کے محلوں کی گلیوں کے پھیرے لگانے جیسی نیچ حرکتوں کے کھلم کھلا اعتراف سے ان کی بیمار ذہنیت بھی جھلکتی تھی ۔ مشاعرے میں ، میں نے ایسے ایسے قابل دست انداز ی پولیس عامیانہ خیالات اور وارداتیں سنیں کہ بے ساختہ میری زبان پر توبہ استغفار کا ورد جاری ہوگیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شرمانے کی بجائے ایسے اشعار کو بار بار دہرایا گیا ۔ کئی شعرا کا بور کلام سن کر ایسے لگتا کہ جیسے وہ شاعری یا حاضرین سے کوئی پرانا انتقام لے رہے ہوں ۔ میزبان نے ایک ادھیڑ عمر شاعر کا تعارف مزاحمتی شاعر کے طور پر کرایا ۔ اس کے کلام میں تو کوئی خاص مزاحمت وغیرہ نہ تھی ، البتہ آٹھ عدد نظمیں اور غزلیں سنانے کے بعد جب اسے مائیک چھوڑنے کے لیے کہا گیا تو اس نے شدید مزاحمت کی اور اس ”قطع کلامی“ کے رد عمل میں گھٹیا کلامی پر اتر آیا۔ اس موقع پر مشاعرے میں بد نظمی بھی پید اہو گئی ۔خواتین شاعرات کی شاعری میں چھپے ”عزائم“ ان کے ماں باپ سن لیں تو ان کا گھر سے نکلنا بند کر دیں اور راتوں رات انہیں کسی بڈھے سے بیاہ کر اپنی عزت بچا لیں ۔ مشاعرے کے دوران میں نے اخلاقی اقدار کی پامالی کے کئی اور نظارے بھی کیے ۔ خد اجھوٹ نہ بلوائے ، ایک شاعر کے کوٹ کی سائیڈ والی جیب میں منہ منہ تک بھری ہوئی بوتل خود میں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھی ۔ آخر میں اسٹیج سیکرٹری نے ایک ضعیف و نحیف شاعر کا مبالغہ آمیز توصیفی تذکرہ کرنے کے بعد اسے زحمت کلام دی تو دو آدمی اسے سہارا دے کر مائیک تک لائے ۔ بزرگوار نے بیٹھتے ہی موٹے شیشوں والی عینک سے آنکھیں پھڑکا پھڑکا کر خواتین کا تحقیقی جائزہ لیا اور پھر اپنی عمر کا لحاظ کیے بغیر ایسے ایسے عشقیہ اشعار سنائے کہ میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور اٹھ کر گھر آ گیا۔
سوال: کسی ایسے سیاستدان ،مولوی ، جنرل یا جج کی حیات و خدمات پر نوٹ لکھیں ، جس کا ماضی داغدار نہ ہو۔
جواب: بصد معذرت! اگرچہ دروغ پبلشرز کی جنرل گائیڈز اور ٹیسٹ پیپرز میں ہر طرح کی دروغ گوئی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے مگر انہیں مکمل کھنگالنے کے باوجود اس سوال کا جواب دستیاب نہیں ہوسکا۔ اب خدا معلوم کہ ان لوگوں میں خوف خدا کی کوئی رمق باقی تھی یا وہ سہواً اس سوال کو اپنی کتب میں شامل کرنا بھول گئے۔ بہرحال امیدواروں کے لیے مشورہ ہے کہ وہ خود ہی اپنی پسندیدہ شخصیت کی مدح میں ایک مضمون گھڑ لیں اور اس کے ماضی کو بے داغ قرار دے ڈالیں۔ ویسے بھی یہاں کون سا کسی کو کسی کا ماضی یاد رہتا ہے؟
تازہ ترین