محمّد احمد غزالی
بہت معروف واقعہ ہے۔ امام فخر الدّین رازی پر نزع کی کیفیت طاری تھی کہ شیطان کو اپنے قریب دیکھا۔ اُس نے آپ سے پوچھا،’’پوری زندگی مناظرے کرتے رہے ہو، اچھا یہ تو بتاو،ٔ تم اللہ کو کس بنیاد پر مانتے ہو؟‘‘ آپ نے دلیل دی، تو شیطان نے دلائل سے اُسے رد کردیا۔ اُنھوں نے دوسری دلیل دی، تو اُس پر بھی شیطان نے لاجواب کردیا۔ وہ دلائل دیتے جاتے اور شیطان ایک ایک کرکے اُنھیں مسترد کرتا جاتا، یہاں تک کہ آپ بے بس نظر آنے لگے، شیطان اُن کی اِس حالت کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔ اِسی اثنا، ایک آواز گونجی،’’رازی! یوں کیوں نہیں کہہ دیتے کہ مَیں اللہ کو بلادلیل مانتا ہوں۔‘‘ یہ سُنتے ہی شیطان وہاں سے بھاگ نکلا۔ وقتِ نزع اپنے مرید کی یوں رہنمائی کرنے والے، حضرت نجم الدّین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ تھے، جو اُس وقت دُور دراز مقام پر وضو فرما رہے تھے، مگر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوّت سے شیطان کا وار ناکام بنادیا۔
ولادت، خاندان، القابات
آپؒ کا نام، احمد بن عُمر بن محمد ہے۔خیوہ یا خیوق(kHIVA)، ازبکستان کے ایک علمی گھرانے میں540 ہجری، 1145 ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی، پھر حرمین شریفین، بغداد، ہمدان، اسکندریہ، تبریز سمیت بہت سے علاقوں کا سفر کرکے علمی پیاس بُجھائی۔ اِس دَوران نام وَر علماء اور عالی سند رکھنے والوں سے اجازتِ حدیث لی۔اِسی طرح تفسیر، فقہ، علمِ کلام میں بھی بہت نام کمایا۔ آپؒ کا شافعی مکتبِ فکر سے تعلق تھا۔ زمانہ طالبِ علمی میں مناظروں کا بہت شوق تھا اور اپنی علمی قابلیت کے باعث مخالفین کو لمحوں میں زیر کرلیتے ، اِس لیے ’’ الطامۃ الکبریٰ‘‘ کے لقب سے پکارے جانے لگے، یعنی بڑی اور غالب آنے والی قوّت۔بعدازاں، یہ لفظ صرف کبریٰ تک محدود ہوگیا۔ نجم الدّین( دین کا ستارہ) سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ لقب اُنھیں بغداد کے صوفی بزرگ، شیخ ابراہیمؒ نے عطا کیا تھا۔اِسی طرح ایک خواب کی بنیاد پر آپؒ کو ’’ ابو الجناب‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ نیز، صوفیا میں ’’شیخ ولی تراش‘‘ کے لقب سے بھی معروف تھے کہ ایک خاص کیفیت میں جس پر نظر پڑ تی ، وہ روحانی بلندی حاصل کرلیتا۔
مشائخ، خرقۂ خلافت
چوں کہ آپؒ بڑے عالمِ دین تھے، اِس لیے کوئی صوفی بزرگ نظروں میں جچتا ہی نہیں تھا کہ سب کو مخصوص علمی پیمانے پر جانچتے تھے۔ایک بار خوارستان (موجودہ زاہدان، ایران) گئے، تو بیمار پڑگئے۔ کسی کو کہا،’’ کیا یہاں کوئی ایک بھی ایسا مسلمان نہیں، جو مجھ مسافر کو جگہ دے تاکہ چند روز آرام کرسکوں۔‘‘ اُس نے آپؒ کو شیخ اسماعیل قصریٰ ؒکی خانقاہ کا پتا دیا، وہاں گئے، تو رہائش کا انتظام کردیا گیا، مگر بیماری بڑھتی ہی گئی۔ فرماتے ہیں،’’ مجھے بیماری سے زیادہ سماع کی مجالس سے رنج ہوتا تھا کہ مجھے یہ پسند نہیں تھا، مگر بیماری کی وجہ سے وہاں سے کہیں اور جانے کی ہمّت بھی نہ تھی۔‘‘
ایک روز شیخ اسماعیلؒ نے سماع کے دَوران آپؒ کو اپنی بغل میں لیا اور اسی کیف و مستی کی حالت میں چند چکر دے کر ایک دیوار کے سہارے بِٹھا دیا۔کچھ دیر بعد دیکھا، تو صحت مند ہو چُکے تھے۔ اِس واقعے کے بعد آپؒ اُن بزرگ کے معتقد ہوگئے اور اُن کے ہاتھ پر بیعت کرکے راہِ طریقت پر سفر شروع کردیا۔ کچھ عرصے بعد ایک رات خیال آیا کہ ’’میرا ظاہری علم اپنے مرشد سے زیادہ ہے۔‘‘ صبح ہوئی، تو شیخ اسماعیلؒ نے آپؒ کو بلوا کر کہا،’’ تمھیں شیخ عمّار یاسرؒ کی خدمت میں جانا چاہیے۔‘‘شیخ عمّار یاسرؒ کا بدلیس( تُرکی) سے تعلق تھا۔ عالمِ اسلام کی عظیم درس گاہ، مدرسہ نظامیہ میں مدرّس اور سہروردیہ سلسلے کے رہنما، حضرت ابو نجیب سہروردیؒ کے خلیفہ تھے۔
عالمِ دین ہونے کے ساتھ صاحبِ کشف و کرامات بھی تھے۔آپؒ وہاں پہنچے اور ایک مدّت تک اُن کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے، مگر وہاں بھی ایک رات پہلے جیسا خیال آیا کہ’’مَیں ظاہری علم میں شیخ عمّارؒ سے بڑھ کر ہوں۔‘‘ صبح شیخ صاحبؒ نے بلا کر کہا،’’ اٹھو اور مصر میں شیخ روز بیہانؒ کی خدمت میں جاؤ کہ وہ یہ خیال مکمل طور پر تمھارے دماغ سے نکال دیں گے۔‘‘ شیخ روز بیہان الوزان المصریؒ بھی سلسلۂ سہروردیہ کے نام وَر مشائخ میں سے تھے۔ فرماتے ہیں،’’ جب اُن کے پاس پہنچا، تو دیکھا کہ شیخ روز بیہانؒ تھوڑے سے پانی سے وضو کر رہے ہیں۔
میرے دل میں یہ بات آئی کہ شیخ یہ بھی نہیں جانتے کہ اِس قدر تھوڑے پانی سے وضو کرنا درست نہیں، تو پھر ایسا شخص روحانی بزرگ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ شیخ وضو کرکے خانقاہ آئے اور تحیّۃ الوضو کے نفل پڑھنے لگے، مَیں قریب کھڑا منتظر رہا کہ وہ نماز سے فارغ ہوں، تو سلام کروں۔ اِسی اثنا، مجھ پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی، جس کے دَوران دیکھا کہ قیامت قائم ہوگئی اور لوگوں کو پکڑ پکڑ کر آگ میں ڈالا جا رہا ہے۔ آگ کے راستے میں ایک ٹیلا ہے، جس پر ایک شخص بیٹھا ہے، جو شخص یہ کہتا ہے کہ میرا اُن سے تعلق ہے، اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے اور باقی لوگوں کو آگ میں ڈال دیتے ہیں۔
پھر مجھے پکڑ لیا گیا اور کھینچنے لگے۔ مَیں نے کہا،’’ مَیں بھی اُن سے تعلق رکھتا ہوں۔‘‘ اِس پر مجھے چھوڑ دیا گیا۔ مَیں ٹیلے پر گیا ،تو دیکھا وہ بزرگ، حضرت روز بیہانؒ ہیں، تو مَیں اُن کے قدموں میں گر پڑا، جس پر اُنھوں نے میری پیٹھ پر تھپّڑ مارتے ہوئے کہا،’’ اہلِ حق سے انکار نہ کرنا۔‘‘ جب ہوش آیا، تو دیکھا شیخ نماز کا سلام پھیر چُکے تھے۔مَیں آگے بڑھا اور اُن کے قدموں میں گر پڑا۔ شیخ نے پیٹھ پر تھپّڑ مارتے ہوئے وہی لفظ دُہرائے۔
اُس کے بعد میرے ذہن سے علمی برتری کی بیماری جاتی رہی۔‘‘بعدازاں، اُنھوں نے آپؒ کو دوبارہ شیخ عمّار یاسرؒ کی خدمت میں بھیج دیا، جہاں ایک مدّت تک سلوک کی منازل طے کرتے رہے۔آپؒ نے تبریز کے بابا فرج( یا فراج) تبریزیؒ سے بھی فیض حاصل کیا۔ اپنے مشائخ کے ضمن میں آپؒ کا قول ہے کہ’’مَیں نے علمِ طریقت روز بیہانؒ سے، عشق قاضی امامؒ سے، علم خلوت و عزلت عمّار یاسرؒ سے، خرقہ اسماعیل قصریٰ ؒسے اور نظر بابا فراج تبریزیؒ سے حاصل کی۔‘‘
اور گنج آمد
مرشد، شیخ عمّار یاسرؒ نے آپؒ کو دعوت اور اصلاحی سرگرمیوں کے لیے اورگنج جانے کی ہدایت فرمائی۔ یہ شہر اُن دنوں خوارزم حکومت کا پایۂ تخت تھا۔ ترکمانستان کے شمال مغرب میں ازبکستان کی جنوبی سرحد کے قریب واقع اس شہر کو’’ KONYE URGENCH‘‘یا’’ OLD URGANJ‘‘ کہتے ہیں۔16 ویں صدی میں آمو دریا کے رُخ بدلنے سے یہ شہر برباد ہوگیا،اِس کے کھنڈرات کو یونیسکو نے تاریخی وَرثہ قرار دیا ہے۔
اِسی سے مِلتے جُلتے نام کا ایک شہر’’ Urgench‘‘ازبکستان میں ہے، جو روسیوں نے 19 ویں صدی کے وسط میں بسایا تھا۔یہ تفصیل اِس لیے بتانا ضروری تھی تاکہ ناموں کی مماثلت سے کوئی غلط فہمی نہ ہو۔بہرحال، آپؒ نے وہاں درس وتدریس کے ساتھ ذکر وفکر کے بھی حلقے قائم کیے، جن سے ہزار وں افراد نے اپنے دِلوں کو روشن کیا۔ نیز، آپؒ کی تعلیمات نے اعلیٰ حکومتی حلقوں کو بھی متاثر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آپؒ علاقے میں ایک مرکز کی حیثیت اختیار کر گئے۔
شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن
ہر طرف سے تاتاریوں کی یلغار کی اطلاعات آ رہی تھیں اور سلطنتِ خوارزم بھی اُن کے نشانے پر تھی۔ ایک روز آپؒ نے مریدین سے فرمایا،’’ مشرق سے ایک ایسا فتنہ آ رہا ہے، جو اِس سے پہلے کبھی مسلمانوں نے نہیں دیکھا۔‘‘ مریدین نے عرض کیا،’’ آپ ؒدعا فرمائیں وہ مصیبت ٹل جائے۔‘‘ آپؒ نے جواب دیا،’’یہ قضاء مبرم (یعنی حتمی اور قطعی فیصلہ) ہے، دُعا سے نہیں ٹل سکتی۔ البتہ، تم میں سے جو محفوظ علاقوں کی طرف جانا چاہے، چلا جائے۔‘‘ مریدین نے درخواست کی،’’ اعلیٰ گھوڑے موجود ہیں، آپؒ بھی محفوظ علاقے کی طرف تشریف لے جائیں۔‘‘ فرمایا،’’ نہیں۔
ہمارے لیے بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘ جب چنگیز خان کے بیٹوں نے اورگنج کا محاصرہ کرلیا، تو اُنھیں آپؒ کے مقام و مرتبے کا بتایا گیا، جس پر اُنھوں نے پیغام بھیجا کہ آپؒ کو امان دی جاتی ہے، فوراً شہر سے نکل جائیں کہ بہت تباہی ہوگی۔‘‘ شیخ نجم الدّین کبریٰ ؒ نے نہایت دلیری سے جواب دیا ،’’اِس شہر میں میرے مریدین رہتے ہیں، اُنہیں چھوڑ کر چلا گیا، تو اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دِکھاؤں گا؟‘‘
اِس پر آپؒ کو پہلے دس، پھر ایک سو افراد کو ساتھ لے جانے کی پیش کش کی گئی، جو آپؒ نے مسترد کردی۔ چنگیز خان کے بیٹوں نے ایک ہزار افراد لے جانے کی پیش کش کی ،تو فرمایا،’’یہ کیسے ممکن ہے کہ مَیں نے جس قوم کے ساتھ سکون کے ستّر سال گزارے، مصیبت کے وقت اُنہیں چھوڑ کر چلاجاؤں۔‘‘ جب تاتاری شہر میں داخل ہوئے، تو آپؒ نے جہاد کا اعلان کرتے ہوئے اپنا خرقہ پہنا اور کفّار سے لڑتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔یہ 10جمادی الاوّل 618 ہجری، 2 جولائی 1221ء کا واقعہ ہے۔روایت ہے کہ شہادت کے وقت آپؒ کے ہاتھ میں ایک تاتاری سپاہی کے بال آگئے ، جو دس سپاہی بھی نہ چھڑوا سکے، بالآخر بال کاٹنے پڑے۔ اور گنج، ترکمانستان میں آپؒ کا مزار مرجّعِ خلائق ہے۔
تصنیفات، تعلیمات
حضرت نجم الدین کبریٰؒ عالمِ دین اور صاحبِ کمال صوفی بزرگ ہونے کے ساتھ ،بلند پایہ مصنّف بھی تھے۔ آپؒ کی بہت سی کتب آج بھی شائقینِ علم اور راہِ حق کے طالبین کو رہنمائی فراہم کر رہی ہیں۔ بالخصوص’’ رسالۃ فی الطریق الی اللہ‘‘ کو، جو’’الاصول العشرۃ‘‘ کے نام سے بھی معروف ہے، تصوّف کے بنیادی ماخذ کا درجہ حاصل ہے۔ دیگر کتب میں منازل السائرين، فواتح الجمال، منہاج السالکين، ديوان شعر، الخائف الھائم عن لومۃ اللائم، طوالع التنوير، ہدايۃ الطالبين، سر الحدس، عين الحياۃ فی تفسير القرآن نمایاں ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کے اردو تراجم بھی شایع ہو چُکے ہیں۔
آپؒ نے اپنے مختصر سے رسالے میں جامعیت کے ساتھ سالکینِ طریقت کے لیے10 رہنما اصول بیان فرمائے، جنھیں آپؒ کا نظریۂ تصوّف بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔(1) توبہ: سالک سب سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرے اور یہ عہد کرے کہ باقی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق بسر کرے گا۔(2) زہد: پھر خواہشاتِ نفسانی سے کنارہ کشی کرتے ہوئے دنیاوی کاموں میں صرف اتنی مشغولیت رکھے، جو اُس کے روز مرّہ امور کی انجام دہی کے لیے کافی ہو۔(3) توکّل: ہر کام میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا رکھے۔(4) قناعت: اپنی خواہشات اور ضروریات کو ایک حد میں رکھے تاکہ اُن کی تکمیل کے لیے زیادہ معاشی جدوجہد نہ کرنی پڑے۔(5) عزلت نشینی: عوام سے بہت زیادہ گُھل مِل کر نہ رہا جائے کہ وقت ضایع ہو۔(6) مسلسل ذکر: اپنے دن رات کا بیش تر حصّہ یادِ الہٰی میں گزارا جائے۔(7) توجّہ الی اللہ: تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ کی طرف دھیان اور توجّہ رکھی جائے کہ کہیں اُس کے کسی حکم کی نافرمانی تو نہیں ہو رہی۔(8) صبر: نفس کی مخالفت کے نتیجے میں یا مختلف معاملات پر کوئی تکلیف پہنچے، تو اُس پر صبر کرنا چاہیے۔(9) مراقبہ: اپنے خیال اور قلب کی نگرانی کرتے ہوئے مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجّہ رہا جائے۔(10) رضا: ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے۔
سلسلۂ کبرویہ
گو کہ شیخ نجم الدین کبریٰؒ نے سہروردی سلسلے کے مشائخ سے فیض حاصل کیا اور وہی آپؒ کے پیرِ خرقہ بھی ہیں، تاہم آپؒ کی قدآور شخصیت سے ایک نئے سلسلے’’ سلسلہ کبرویہ‘‘ کا آغاز ہوا۔ایک زمانے میں اس نے بہت ترقّی کی، مگر بعدازاں یہ دیگر سلاسل میں ضم ہوتا چلا گیا اور اب بہت کم ایسے مشائخ ہیں، جو کبرویہ سلسلے کی نمایندگی کرتے ہوں۔ شیخ مجد الدّین بغدادیؒ، شیخ سعد الدین حمویؒ،شیخ بہاء الدّین ولدؒ( مولانا جلال الدّین رومیؒ کے والد) وغیرہ آپؒ کے خلفاء میں شامل تھے، جب کہ شیخ صدر الدّین قونویؒ اور خواجہ معین الدّین چشتی ؒ بھی آپؒ کی صحبت میں رہے۔
حضرت مجدّد الف ثانیؒ کو بھی اِس سلسلے کی نسبت حاصل تھی۔ یہاں برّصغیر میں سیّد علی ہمدانیؒ، شیخ شرف الدّین یحییٰ منیریؒ اور سیّد اشرف جہانگیر سِمنانیؒ کے ذریعے سلسلہ کبرویہ کو خاصا فروغ حاصل ہوا، تاہم، اِس کی کئی ذیلی شاخیں بہت سے تنازعات کا بھی شکار رہیں اور اب بھی سنجیدہ اعتراضات کی زد میں ہیں۔