وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے اندر موجود سندھ ہاؤس پر حملے کے معاملے پر آئی جی اسلام آباد سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتا، اصل معاملہ ارکان اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے۔
آئی جی اسلام آباد سے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ رپورٹ کے مطابق 35 سے 40 مظاہرین سندھ ہاؤس پہنچے، آئی جی صاحب کیا دفعہ 144 لگ گئی ہے؟
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی دفعہ 144 نافذ ہے، ریڈ زون کے اطراف تک دفعہ 144 کا دائرہ بڑھا دیا ہے، مظاہرین جتھے کی صورت میں نہیں آئے تھے، 2 ارکان اسمبلی سمیت 15 افراد کو گرفتار کیا، جے یو آئی نے بھی سندھ ہاؤس جانے کی کوشش کی، پولیس نے بلوچستان ہاؤس کے قریب انہیں روکا، سندھ ہاؤس واقعہ پر شرمندہ ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتا، اصل معاملہ ارکان اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ ہاؤس پر حملے کا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا، وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا ہے، وزیر اعظم نے کہا پر تشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، سندھ ہاؤس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، کسی سیاسی جماعت کی وکالت نہیں کروں گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیس سننے کا مقصد سب کو آئین کے مطابق کام کرنے کا کہنا تھا، پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ہے، رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی ایکشن لے گی، توقع ہے حکومت بھی سندھ ہاؤس واقعہ کی مذمت کرےگی۔