• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سے باہر پاکستان کا بہت خیال رہتا ہے۔ پاکستان میں اکثریت غائب پر یقین رکھتی ہے اور حال کو نظر انداز کرتی ہے۔ کینیڈا میں تارکینِ وطن ریاست پاکستان کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور ہمارا آزاد جہاں دیدہ میڈیا کمال کی منظر کشی کر رہا ہے۔ زبان پر سے اعتبار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد اب عملی مرحلہ میں داخل ہوتی نظر آتی رہی ہے۔ کیا یہ جمہوریت کا امتحان ہوگا؟ یا یہ جمہوریت کا انتقام ہو سکتا ہے۔

اس اہم تحریک میں صفحۂ اول کے سیاستدان اپنے نظریات، اعتقادات اور مفادات کو فراموش کرکے سرکار کو بےبس کرنے نکلے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم پاکستان اب بھی کھیل کے میدان سے باہر نہیں نکلے اور ان کو یہ میچ بہت دلچسپ لگ رہا ہے۔ ملک بھر میں جگہ جگہ جلسے ان کے کھیل کے لیے تماشائیوں کو ان کا ہم نوا بنا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ اس خطرناک سیاسی وکٹ پر سنچری بناہی لیں گے۔ مگر کرکٹ کا کھیل ہے۔ امپائر کسی بھی وقت پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ بس ان کی طرف سے ہی خطرہ ہو سکتا ہے۔

مجھے حیرانی ہے کہ اس دفعہ سابقہ کالم کے حوالہ سے غیرمعمولی طور پر کافی سے زیادہ قارئین نے رابطہ کی کوشش بھی کی اکثر کا سوال ہے کہ پاکستان میں سیاست کاروبار ہے؟ اس کا آسان جواب ہے۔ جی بالکل، ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کا باضابطہ کاروبار ہے۔ ہمارے اکثر سیاستدان اپنی آمدنی کے ذرائع بالکل نہیں بتاتے۔ بلکہ اکثریت اپنے اثاثے بتانے سے بھی منکر ہے اور کوئی ایسا موثر قانون نہیں ہے جو ان کے اثاثوں تک مکمل رسائی حاصل کر سکے جبکہ الیکشن لڑنے والوں پر لازم ہے کہ اثاثوں کی تفصیل مہیا کی جائے اور کچھ لوگ اپنے اثاثے ظاہر بھی کرتے ہیں مگر اس کی تصدیق ذرا مشکل ہے۔ کچھ سیاسی لوگ ضرور ایسے ہیں جو اپنا ٹیکس بھی بتاتے ہیں اور اثاثے بھی، ان میں نمایاں نام اس وقت پنجاب اسمبلی کے ممبر اور سابقہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا ہے۔ اس کے بعد سابقہ ممبر قومی اسمبلی جہانگیر ترین کا ہے۔ انہوں نے بھی اپنے اثاثے ظاہر کیے ہیں اور ٹیکس دینے والوں میں بھی نمایاں ہیں مگر ان کے مقابلہ پر نواز لیگ، ق لیگ، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کے قائدین کا معاملہ شفاف نہیں ہے اور یہ سب جمہوریت کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ وہ یہ استحقاق رکھتے ہیں کہ ان سے پوچھ گچھ بالکل نہ کی جائے۔

سب سے زیادہ سوال ملکی صورت حال کے تناظر میں پوچھا گیا ہے۔ وہ یہ کہ عمران خان کا وزیراعظم کی حیثیت میں کردار اور عدم اعتماد کی تحریک کے بارے میں جمہوریت کا کیا کردار ہو سکتا ہے اور عسکری انتظامیہ سے کیا مراد ہے؟ یہ دونوں سوال ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جہاں تک جمہوریت کا ذکر ہے تو ہماری عسکری انتظامیہ عرصہ دراز سے کوشش کررہی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت جیسی بھی لولی لنگڑی ہے، چلتی رہے مگر ہمارے سیاستدان بڑے ہی غیر سنجیدہ نظر آ رہے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ قومی اسمبلی اب تک مفادِ عامہ کے حوالہ سے کوئی بھی قانون سازی کرتی نظر نہیں آئی۔ میں تو ویسے ہی جمہوریت پر یقین نہیں رکھتا۔ جمہوری نظام ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہے اور کوئی ایسا ملک نظر نہیں آتا جس نے جمہوریت کی وجہ سے نیک نامی کمائی ہو۔ بھارت میں جمہوریت کا کردار، بدکرداری کی عمدہ مثال ہے۔

ہماری عسکری انتظامیہ پر عوامی حلقوں اور سیاسی جماعتوں کا شکایتی رویہ نظر آتا ہے۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ الیکشن میں در اندازی کرتے ہیں۔ جب گزشتہ برسوں میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی سرکاریں تھیں تو فوج بہت اچھی تھی۔ عسکری انتظامیہ نے کچھ معاملات میں بیرونی دوستوں کی رائے کو اہمیت بھی دی جب آصف زرداری کو صدر بنانے کا فیصلہ ہوا تو کچھ خصوصی سرکاری ادارے اس پر واضح تحفظات رکھتے تھے۔ ان کی اطلاع تھی کہ اس معاملہ میں امریکہ اور برطانیہ بھی آصف زرداری کے ساتھ ہیں۔ فوج نے جمہوریت کو چلانے کے لیے آصف زرداری کو قبول کیا اور این او سی دیا مگر ان کی مدت پوری کروائی گئی۔ دوسری طرف فوج کی وجہ سے میاں نوازشریف سابق وزیر اعظم کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ عسکری انتظامیہ پھر بھی کوشش کر رہی ہے کہ عدم اعتماد کے معاملہ میں سیاسی لوگ اصول اور قانون کو مدنظر رکھیں۔

ایک اور اہم سوال کہ روحانی معاملات کو آپ زندگی کے لیے کتنا اہم خیال کرتے ہیں۔ ہاں یہ معاملات میری ذات کے حوالہ سے اہم ضرور ہیں مگر مجھے دین اسلام میں روحانیت اور تصوف کے واضح اصول نظر نہیں آتے۔ روحانیت اور تصوف دوسرے مذاہب میں اہم نظر آتے ہیں اور لوگ ان پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ ہاں مگر ہمارے پاکستان میں بابوں کی حیثیت بہت نمایاں ہے اور اکثر فقیر، درویش اور صوفی کے تناظر میں پہچان کرواتے ہیں۔ اس وقت بھی کچھ صاحبِ نظر لوگ ان سیاسی لوگوں کی مشاورت کر رہے ہیں مگر کسی کے ہاتھ میں سرا آتا نظر نہیں آ رہا اور جہاں تک عمران خان کا معاملہ اگر وہ سرکار میں رہے تو بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے رہیں گے اور اگر میچ ہار گئے تو بھی وہ پاکستان کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت بھارت، امریکہ اور برطانیہ کے شر سے بچنا ضروری ہے، اس کے لیے صدقہ بہترین حل ہے۔

تازہ ترین