• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جس سیاستدان نے پنجاب میں بطور وزیر اعلیٰ بہترین کارکردگی دکھائی بلاشبہ اس سیاستدان کا قد ملکی سیاست میں اتنا بلند ہوجاتا ہے کہ وہ ملک کی وزارت عظمیٰ پر بھی باآسانی براجمان ہوسکتا ہے، لہٰذا کپتان اگر پنجاب میں تحریک انصاف کے اپنے ان اہل جانثاروں میں سے کسی کوبھی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر بٹھا دیتے تو کچھ عرصے بعد ہی وزارت عظمیٰ کے لئےکپتان کا نعم البدل مل جاتا، لہٰذا پنجاب میں کپتان کو ایسے وزیر اعلیٰ کی ضرورت تھی جس کا سیاسی قد کبھی اتنا بلند نہ ہوسکے کہ کوئی ا سے کپتان کا نعم البدل سمجھ سکے، لہٰذا عثمان بزدار ہی اُن کیلئے موزوں تھے ، سیاسی طور پر یہ چال تو بہت اچھی تھی لیکن اسی چال نے کپتان کو نقصان بھی بہتپہنچایا کیونکہ کپتان کے جن جاں نثاروں نے اپوزیشن کے دنوں میں کپتان کی کامیابی کے لئے تن من دھن کی قربانیاں دیں ان کی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح انھیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب حاصل ہوسکے تاکہ اپنی سرمایہ کاری اور قربانیوں کے صلے میں ملنے والی وزارت اعلیٰ کے ذریعے پنجاب کے عوام کی دل و جان سے خدمت کرسکیں اور شاید اپنی سرمایہ کاری کا ریٹرن بھی حاصل کرسکیں، لیکن جس طرح پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتوں میں صرف ایک ہی ہیرو کا کردار ہوتا ہے جس کو ملک کی قیادت سنبھالنی ہوتی ہے اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے تحریک انصاف میں بھی کپتان کے سوا کوئی دوسرا ہیرو نہیں بنایا گیا اور جس نے بننے کی کوشش کی اسے بننےنہیںدیا گیا، جن کی مثالیں قوم کے سامنے ہیں نام لینے کی ضرورت بھی نہیں، ساڑھے تین سال تک کپتان نے اپنی حکومت کا اتنا دفاع نہیں کیا ہوگا جتنا عثمان بزدار کا کیا اور وہ بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو اپنی کسی نیکی کا صلہ سمجھ کو بھرپورطریقے سے انجوائے کرنے میں مصروف رہے، دوسری جانب ملک میں ساڑھے تین سال تک پارلیمنٹ میں عددی طور پر کمزور ہونے کے باوجود کپتان نے بڑی جارحانہ حکومت کی، ریاستی اداروں نیب، ایف ائی اے کے ذریعے اپوزیشن کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی کمی نہ کی، بہت سے قوانین پارلیمنٹ سے منظور کرائے، سینیٹ میں تو عددی طور پر اقلیت میں ہونے کے باوجود وہاں سے بھی قوانین پاس کرائے جس پر ان کی حکومت پر مختلف قسم کے الزامات بھی لگائے گئے لیکن کپتان کا اعتماد بتارہا تھا کہ انہیں ملک کے مقتدر حلقوں کا اعتماد حاصل ہے،لیکن ساڑھے تین سال بعد اچانک ہی ملک کی سیاست میں رونما ہونے والی افراتفری نے بہت سےسوالات نہ صرف پیدا کردیئے ہیں بلکہ بہت سے سوالات کے جوابات بھی دے دیئے ہیں جن کا اندازہ مستقبل قریب میں عوام کو ہوجائے گا، اب حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت، بھنور میں پھنس چکی ہے اور کچھ پتہ نہیں اس بھنور سے نکل بھی سکے گی یا نہیں، یہ تو خیر وقت بتائے گا، لیکن فی الوقت کپتان کی حکومت ڈانواں ڈول ہوچکی ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ اتحادی سمیت کوئی اسے سہارا دینے کو تیار نہیں، دوسری جانب حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی اتنی پائیدار نہیں ہوسکی کہ اگر حکمراں جماعت کی قیادت پر عدم اعتماد کامیاب ہوجائے تو اسی جماعت کا کوئی دوسرا لیڈر ملک کی قیادت سنبھال سکے، پاکستان کے مقابلے میں جاپان، امریکہ اور برطانیہ میں ایک ہی حکمران جماعت میں کئی کئی لیڈر وزارت عظمیٰ یا منصبِ صدارت کے اہل سمجھے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں اب تک یہ روایت نہیں پڑی، ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے یہ روایت ڈالی کہ طاقت کا سرچشمہ پارٹی کے قائدین ہی رہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ کپتان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں ملک میں کون سا نیا سیٹ اپ آتا ہے اور جمہوریت کا مستقبل کیا ہوگا؟

تازہ ترین