برطانیہ کے بیرونِ ملک کام کرنے والے خفیہ ادارے، ایم آئی سِکس کے سربراہ، رچرڈ مور نے چینی قرضوں کو ’قرضوں کا جال‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین کا مقصد اِن ممالک کو اپنے قابو میں رکھنا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ یہ ممالک جب چین کو قرض لوٹا نہیں پاتے تو وہ اپنے اہم قومی اثاثوں کا کنٹرول چین کے ہاتھ میں دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بیجنگ ایک عرصہ سے اس الزام سے انکار کرتا آیا ہے۔ اس حوالے سے چین کے ناقدین سری لنکا کی مثال دیتے ہیں جس نے برسوں پہلے چینی سرمایہ کاری سے بندرگاہ بنانے کا ایک بہت بڑا منصوبہ شروع کیا تھا لیکن کچھ ہی عرصے بعد اربوں ڈالر کا یہ منصوبہ تنازعات کا شکار ہو گیا اور سری لنکا کی معاشی ترقی کا ذریعہ بننے کی بجائے اس نے سری لنکا پر بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ لاد دیا اور آخر کار سری لنکا چین کی جانب سے مزید سرمایہ کاری کے عوض بندرگاہ کے 70 فیصد مالکانہ حقوق نوے کی دہائی میں چین کی سرکاری کمپنی ’چائنا مرچنٹ‘ کو دینے پر مجبور ہو گیا۔ سری لنکا کی بندرگاہ کے اس منصوبے کے حوالے سے برطانیہ کے ایک تھِنک ٹینک ’چیٹم ہاؤس‘ نے بھی اپنے ایک تجزیے میں سوال اٹھایا ہے کہ آیا اس معاملے کو ’قرضوں کے جال‘ میں پھنسانے کا معاملہ قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں کیونکہ اس منصوبے میں سری لنکا کی اپنی سیاسی ترجیحات پیش پیش تھیں اور چین نے کبھی بندرگاہ کا کنٹرول باقاعدہ طور پر اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔
پاکستان کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان نے موجودہ مالی سال میں صرف چین سے 6ارب 50کروڑ ڈالر قرضے وصول کیے جبکہ گزشتہ 10ماہ میں پاکستان نے مجموعی طور پر 8ارب 60کروڑ ڈالر کے قرضے حاصل کیے۔غیرملکی رپورٹس سے قطع نظر، تین حرفی لفظ قرض بظاہر تو بہت ہی مختصر ہے لیکن اس نے زمانہ قدیم سے دور حاضر تک جو تباہی پھیلائی ہے، اسے سُن کر ہر ذی شعور انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک میں مالی امداد اور کاروباری مقاصد کے لیے دیے گئے قرض ہمیشہ سے خارجہ پالیسی کا حصہ رہے ہیں لیکن جب چین کی بات ہوتی ہے تو لفظ ’’ڈیبٹ ڈپلومیسی‘‘ یعنی قرض کی سفارتکاری کا ذکر ہوتا ہے۔ برطانوی اداروں نے 1949سے 2017کے درمیان چین کی طرف سے دیے جانے والے 5000قرضوں کا تجزیہ کیا ہے۔ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی جانچ جیسے صبر آزما کام کو انجام دے کر یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا کے مالیاتی نظام میں واقعتاً چین کیا کردار ادا کر رہا ہے اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ ان ترقی پذیر ممالک میں چین نے اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں اور یہ کام سرکاری اور نجی شعبے کو دیے جانے والے لاکھوں، کروڑوں ڈالر کے قرض کے ذریعے کیا گیا ہے۔ یہ پوشیدہ قرضے ایسے قرض ہیں جو مختلف چینی یونٹوں نے دیے ہیں اور ان کی تہہ تک جانا آسان کام نہیں ہے۔ انھیں پوشیدہ قرض یا ہیڈن کریڈٹ کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ انھیں کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں درج نہیں کیا گیا۔ چین سے اگرسب سے زیادہ قرض لینے والے 50ممالک کے بارے میں بات کریں تو تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ان ممالک میں اوسط قرض وہاں کے مجموعی جی ڈی پی کے 15فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے اور ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، اس معاملے میں صرف 2016تک کے اعداد و شمار دستیاب ہیں۔ براہِ راست قرضوں کا زیادہ تر حصہ چینی حکومت کے زیر کنٹرول دو اداروں کے ذریعے فراہم کیا گیا ہے۔ یہ ادارے چائنا ڈویلپمنٹ بینک اور ایکزم بینک آف چائنا ہیں۔ لیکن ایسے بہت سے بالواسطہ انتظامات بھی ہیں جن کے ذریعے چین دوسرے ممالک کو قرض کی رقم مہیا کرتا ہے۔
اُدھر چند روز پہلے امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کی موجودہ اقتصادی حالت کی ذمہ داری ایک حوالے سے چین سے لیے ہوئے قرضوں کی وجہ سے بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں پاکستان جس صورتحال میں ہے، اس کی ایک وجہ چین سے لیا ہوا قرضہ ہے اور اس قرضے کے حوالے سے پاکستانی حکومتوں کا خیال ہو گا کہ اس سے نکلنا اتنا مشکل نہیں ہو گا لیکن یہ مشکل ہو چکا ہے‘‘۔ آئی ایم ایف میں 25فیصد شیئر امریکہ کا ہے، اس لیے ہر کام میں ان کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ یقیناً اس میں پاکستان کا بھی حصہ دو اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔ اس لیے ایسی کوئی بات نہیں کہ یہ کوئی امریکی ادارہ ہے اور وہ جو چاہے کرے۔ یہ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ آئی ایم ایف کی سود کی شرح یا ریٹ آف انٹرسٹ بہت کم ہوتا ہے، تقریباً ایک فیصد۔ وہ قرضوں کی واپسی میں زیادہ سے زیادہ چار سال تک کی چھوٹ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ حالات دیکھتے ہوئے ان کا قرضوں کی واپسی کا عرصہ بھی بہت طویل ہوتا ہے جو کہ دس سے بیس سال تک ہوتا ہے۔ اس کے برعکس چینی قرضے ساڑھے چار فیصد سے آٹھ فیصد شرح سود تک جاتے ہیں۔ ان میں صرف ایک سال کی چھوٹ ہوتی ہے اور قرضوں کی ادائیگی کا عرصہ بہت کم ہوتا ہے۔ اسی لیے چینی قرضہ بہت مہنگا پڑتا ہے۔
یوں لگتا ہےکہ امریکہ کی آئی ایم ایف کے میجر شیئر ہولڈر کے طور پر سوچ بالکل درست ہے کہ وہ قرضہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر دیں گے۔ پاکستان میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعدا د کا خیال ہے کہ سیاستدانوں نے جان بوجھ کر اپنی ’کک بیکس‘ کے لیے خراب قرضے لیے۔ اگر ہماری برآمدات بڑھتی رہیں اور ہماری منڈیوں میں مقابلے کی صلاحیت بہتر ہو جائے تو ہم اس قرض کو ’مینج‘ کر سکتے ہیں۔ پاکستان اس پوزیشن میں آ سکتا ہے کہ وہ قرضے واپس کر سکے۔ تاہم منصوبہ بندی کے سابق وزیر احسن اقبال نے امریکہ کی اس بات کو رَد کیا ہے کہ پاکستان کے حالیہ اقتصادی مسائل کا ذمہ دار چین کا قرضوں کا جال ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ہمارے IMFکے پاس جانے کی وجہ سی پیک یا چینی قرضے نہیں ہیں چونکہ ان کی ادائیگی 2022کے بعد زیادہ سے زیادہ 2ارب ڈالر سالانہ ہو گی۔ ہماری مشکل کی وجہ توانائی کے منصوبوں اور معیشت میں ترقی کی بدولت درآمدات میں اضافہ، بیرونی سرمایہ کاری میں سیاسی بحران کی وجہ سے کمی اور ناتجربہ کار حکومت ہے۔