• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
15جولائی کو شائع ہونے والے اپنے کالم ”آئی ایم ایف کے قرضے کے ملکی معیشت پر اثرات“ میں، میں نے یہ واضح کردیا تھا کہ آئی ایم ایف نیا قرضہ سخت شرائط پر دے گا اور 5 ستمبر کو آئی ایم ایف کے بورڈ نے پاکستان کے مالیاتی خسارے میں کمی اور قرضوں کی ادائیگی کے توازن کو بہتر بنانے کیلئے 6.7 بلین ڈالر کے (EFF)قرضے کی منظوری دی جو 10 سے 15 سالوں کے اندر قابل واپسی ہوگا۔ پاکستان کو نیا قرضہ دلوانے میں امریکہ کی رضامندی بھی شامل ہے کیونکہ آنے والے سال میں امریکہ افغانستان سے نکلنے کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس موقع پر پاکستان میں کوئی معاشی بحران پیدا ہو۔ پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو 7 ارب 20 کروڑ ڈالر کے قرض کی درخواست دی گئی تھی لیکن پاکستان کے آئی ایم ایف میں اپنے 435%کوٹے کے مساوی 6.7 بلین ڈالر بنتے تھے۔ نیا قرضہ پاکستان کو آئندہ 3 سالوں میں فراہم کیا جائے گا لیکن اس کی 540 ملین ڈالر کی پہلی قسط اسی ہفتے ادا کردی جائے گی۔ قرضے کی باقی قسطوں کی ادائیگی ملک میں اکنامک ریفارمز لانے سے مشروط ہے جس کا آئی ایم ایف ہر سہ ماہی جائزہ لے گی۔ اس قرضے کے حصول کیلئے حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کو معاشی و مالی پالیسیوں کے معاہدے MEFP کے تحت یقین دلایا ہے کہ وہ یکم اکتوبر 2013ء سے گھریلو صارفین کے بجلی کے نرخوں میں 30%اضافہ کردے گی جبکہ 200 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو دی جانے والی تمام سبسڈی 3 سالوں میں ختم کردی جائے گی۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی روپے کی موجودہ قیمت کو غیر حقیقی قرار دیا تھا اور جون 2014ء تک روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میں 110 روپے تک لانے کا مطالبہ کیا لیکن وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے اس مطالبے کی سختی سے تردید کی ہے۔ یاد رہے گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 100 روپے سے کم ہوکر 105 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ آئی ایم ایف نے ستمبر 2013ء تک حکومت سے 65 پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری کا مطالبہ کیا تھا جن میں سے حکومت نے 30 اداروں کی نجکاری کیلئے حکومتی حکمت عملی پیش کرنے کا یقین دلایا ہے جس میں پی آئی اے کے 26% حصص کی نجکاری بھی شامل ہے۔ ان اداروں جن میں ریلوے، اسٹیل ملز، واپڈا اور پی آئی اے بھی شامل ہیں کو چلانے کیلئے حکومت ہر سال قومی خزانے سے عوام کے تقریباً 500 ارب روپے کئی دہائیوں سے جھونک رہی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ان اداروں کی ری اسٹرکچرنگ کرکے اور انہیں منافع بخش بناکر فروخت کیا جائے لیکن اب تک کوئی حکومت ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ ان اداروں میں سیاسی بنیادوں پر ضرورت سے زیادہ بھرتی کئے گئے ہزاروں افسران اور ملازمین ادارے پر بوجھ ہیں جس سے ادارے کی مقابلاتی سکت ختم ہوگئی ہے۔ اسی سائز کے دوسرے اداروں میں ملازمین کی تعداد نصف سے بھی کم ہوتی ہے اور وہ حکومتی اداروں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھارہے ہیں۔ میں ہمیشہ سے یہ کہتا رہا ہوں کہ حکومت کا کام بزنس کرنا نہیں بلکہ بزنس کو فروغ دینے کیلئے ماحول ساز پالیسیاں مرتب کرنا ہے۔ میں نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایم سی بی، یو بی ایل، حبیب بینک اور کے ای ایس سی کی نجکاری کی مثال دی کہ نجکاری سے قبل یہ ادارے اضافی ملازمین اور ناقص کارکردگی کے باعث اربوں روپے کے خسارے میں چل رہے تھے جنہیں چلانے کیلئے حکومت اربوں روپے فراہم کررہی تھی لیکن نجکاری کے بعد ان اداروں سے غیر ضروری ملازمین کی چھانٹی اور میرٹ پر پروفیشنل لوگوں کو بھرتی کرکے آج یہ ادارے بہترین کارکردگی کی بنیاد پر بے انتہا منافع کمارہے ہیں۔ ایم سی بی کا سالانہ منافع 34 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اسی طرح یو بی ایل اور حبیب بینک کا شمار بھی پاکستان کے زیادہ منافع کمانے والے بینکوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کے ای ایس سی بھی پرائیویٹ سیکٹر میں آنے کے بعد اضافی ملازمین کی چھانٹی اور مطلوبہ تجربہ کار پروفیشنلز انتظامیہ کی بدولت منافع بخش ادارہ بن گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے معاشی ریفارمز میں بجلی اور گیس کی چوری کی روک تھام کیلئے پارلیمنٹ سے سخت قانون کی منظوری بھی شامل ہے۔ پیپکو (NTDC) کے ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن (T&D) نقصانات جولائی کے مہینے میں 28% تک پہنچ گئے ہیں۔ ایک فیصد T&D نقصان سے 11.25 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ حکومتی اقدامات کے باوجود ان نقصانات میں صرف جولائی کے مہینے میں 40.5 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح سرکولر ڈیٹ پھر دوبارہ 150 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کی رو سے حکومت دسمبر 2013ء تک گیس پر ایک نیا قومی سرچارج عائد کرے گی جو ملکی جی ڈی پی کا 0.4% ہوگا جس سے حکومت کو تقریباً 94 ارب روپے حاصل ہوں گے جبکہ بجلی کے نرخوں میں حکومتی سبسڈی ختم کرنے کیلئے یکم جولائی 2014ء سے بجلی مزید مہنگی کی جائیگی۔ آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے بعد حکومت کو اب ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے 245 ملین ڈالر،اسلامک ڈیولپمنٹ بینک سے 850 ملین ڈالر اور ورلڈ بینک سے نئے قرضے لینے کیلئے کلین چٹ مل گئی ہے اور حکومت مجموعی طور پر 12 بلین ڈالر کے قرضے کے حصول کا ارادہ رکھتی ہے جن میں آئی ایم ایف کے 6.7 بلین ڈالر کے علاوہ ورلڈ بینک کے 1.5 بلین ڈالر، ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے 1.6 بلین ڈالر، برطانیہ کے 0.5 بلین ڈالر، امریکہ کے 0.4 بلین ڈالر اور اسلامی ممالک کے 1.5 بلین ڈالر کے قرضے شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کی رو سے اسٹیٹ بینک اپنی مالیاتی پالیسی کے ذریعے ملک میں افراط زر اور بینکوں کے شرح سود کو مطلوبہ ہدف تک برقرار رکھے گا اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو کم از کم 3 ماہ کے امپورٹ بلزکے برابر تقریباً 18 بلین ڈالر کی سطح پر لائے گا۔ حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج 8.8% کے موجودہ مالی خسارے کو کم کرکے 2016-17ء تک 3.5% تک لانا ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت کو وقتاً فوقتاً SROs کے ذریعے ٹیکس چھوٹ دینے کیلئے سختی سے منع کیا ہے اور 10 ہزار ٹیکس نادہندگان کو نوٹس جاری کرنے کو کہا ہے جن پر عمل کیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ معاہدے میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت وسائل کی صوبوں کو منتقلی اور ٹیکسوں کی وصولی میں کرپشن ختم کرنے کیلئے سخت اقدامات اٹھانا شامل ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے کے معاہدے کا کراچی اسٹاک مارکیٹ انڈیکس پر مثبت اثر پڑا جس میں ایک دن میں 314 پوائنٹس کا اضافہ ہوا لیکن فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر زبیر ملک نے کہا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے اور گیس پر نیا قومی ٹیکس عائد کرنے سے ہماری صنعتوں کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا جو ایکسپورٹس میں ہماری مقابلاتی سکت کو کمزور کرے گا۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے معاہدے کے مطابق خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری کے عمل کا خیر مقدم کیا۔ آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق 2012ء میں پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 3.7% تھی جبکہ 2013-14 ء میں 3.5% اور آئندہ سال 2014-15ء میں 3.3% رہنے کی توقع ہے۔ پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کے چیف جیفری فرینک کے مطابق پاکستان آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام پر عمل کرکے معاشی ریفارمز کے ذریعے 2015-16ء تک اپنی جی ڈی پی گروتھ 5% تک لے جاسکتا ہے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کیلئے بجٹ خسارے کو ایک چیلنج قرار دیا۔ حکومت کے بینکوں سے قرضے لینے کی وجہ سے بینکوں سے نجی شعبے کے قرضوں میں کمی آئی ہے جو ملک میں نئی سرمایہ کاری کیلئے موزوں نہیں۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اسٹیٹ بینک کے بیرونی ذخائر 4.8بلین ڈالر تک آگئے ہیں جو 5 سالوں میں سب سے کم سطح ہے جس کی اہم وجہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہے۔ آئندہ 3 سالوں میں پاکستان کو 1.8 بلین ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جس کا مسلسل دباؤ پاکستانی روپے کی قدر پر پڑرہا ہے۔ دسمبر 2013ء تک پاکستانی روپے ڈالر کے مقابلے میں 108 روپے تک پہنچ جانے کی توقع ہے جس سے ملک میں مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ گزشتہ 25 سالوں میں پاکستان قرضوں کے حصول کیلئے آئی ایم ایف سے 10 معاہدے کرچکا ہے لیکن سیاسی مصلحتوں کے باعث زیادہ تر آئی ایم ایف کے پروگرامز کی شرائط پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے وہ قرضوں کے پروگرام ختم کردیئے گئے جس کے باعث مطلوبہ معاشی ریفارمز حاصل نہ کئے جاسکے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس بار وہ سنجیدگی سے معاشی ریفارمز حاصل کرکے ملکی معیشت کو مضبوط بنائے کیونکہ ان قرضوں کی وجہ سے پاکستان میں ہر جنم لینے والا بچہ جب دنیا میں قدم رکھتا ہے تو وہ 86 ہزار روپے کا مقروض ہوتا ہے۔
تازہ ترین