اسلام کی علمی و تہذیبی تاریخ کو عالمی تاریخ میں جو امتیازات حاصل ہیں، ان میں تاریخ نویسی کے ساتھ ساتھ علم ِرجال ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں کوئی بھی قوم مسلمانوں کی ہم سری کرتی نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں کو حدیث نبویؐ کی جمع و ترتیب اور ان کی تلاش وتحقیق کے دوران اس علم سے نہ صرف رغبت حاصل ہوئی، بلکہ انہوں نے اس پر عبور بھی حاصل کیا، چوں کہ احادیث کی جمع آوری جیسا عمل کسی اور قوم میں مسلمانوں کی طرح پختہ، منظّم و مستقل نہیں رہا، اسی لیے کوئی بھی قوم علمِ رجال میں مسلمانوں کی مانند معیار، نظم و ضبط اور پختگی و وسعت حاصل نہ کرسکی۔
یہ مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب کا ایک ایسا مسلمہ اعزازہے، جس میں کوئی قوم ان کی برابری نہیں کر سکتی۔ اس وصف کے ساتھ مسلمانوں نے اپنی تاریخ، اپنے معاشروں اور ہر ہر عہد میں موجود ہر شعبۂ زندگی میں سرگرم نمایاں اور اہم افرادکے احوال و آثارکو جمع وترتیب دینے کا ایک باقاعدہ و منظّم نظام قائم کیا اور اس نظام کے تحت انفرادی سوانح نگاری اور اجتماعی سوانحی قاموسوں کو مرتّب و شایع کرنے کی ایک مستقل روایت تشکیل دی، جو دن بدن مستحکم ہوتی اور فروغ پاتی رہی۔
یہ روایت ہرتعلیم و ترقّی یافتہ مسلم معاشرے میں فروغ پائی اور مشاہیر، سیاست دانوں، مدبّرین و دانش وروں، علما، مصنّفین و شعرا کے سوانحی کوائف پر مشتمل قاموسیں مرتّب کی جانے لگیں۔ جو ہمارا ایک بڑا علمی خزانہ تصوّر ہوئیں اور مطالعات و تحقیقات کے لیے ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت سے موجود ہیں۔
اسی مسلمہ روایت کے تحت ہمارے عہد کے ایک ممتاز صاحب ِ قلم اور وسیع المطالعہ مصنّف و دانش وَر، حاجی فقیر محمّد سومرو نے جن کی تصانیف ’’روح پرور سفر‘‘ اور ’’سومرن جو شجرو‘‘ سے ان کے ذوق و شوق اور موضوعاتِ دل چسپی کا خوب اندازہ ہوتا ہے، ایک بڑا منصوبہ تشکیل دے کر جنّت البقیع میں مدفون صحابہ اور مشائخ و صوفیہ اور علما و مجتہدین، غرض جن جن کے نام اور حالات و اذکار ملتے ہیں، ان کا ایک جامع تذکرہ لکھنے کا عزم و ارادہ کیا اور بڑی حد تک کام یابی حاصل کی۔
بیک نظر ہی دیکھا جاسکتا ہے کہ مصنّف نے جہاں اپنے انتہا درجے کی وسعتِ مطالعہ کا ثبوت دیاہے، وہیں نہایت سلیقے اور محنت و جستجو سے صاحبِ تذکرہ شخصیات کے بارے میں دست یاب معلومات اور تفصیلات کو جمع کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے، جس میں وہ پوری طرح کام یاب رہے ہیں۔ گر چہ جنّت البقیع میں آسودۂ خاک اکابر کے بارے میں متعدد ماخذ اور سوانحی قاموس موجود ہیں، جو زیادہ تر عربی زبان میں لکھی گئی ہیں، لیکن اردو زبان میں ایسے ماخذ انتہائی کم تعداد میں ہیں۔
اس صورتِ حال میں مصنّف نے یہ ایک بے حد قابلِ ستائش کارنامہ انجام دیاہے کہ جہاں جنّت البقیع میں تمام ہی آسودۂ خاک بزرگوں کا تذکرہ حتی المقدور شامل کرنے کی ایک قابلِ قدر کوشش کی، وہیں ہمارے نقطۂ نظر سے ان بزرگوں کے حالات کو بالخصوص جمع کرنے کی کوشش کی ہے، جن کا تعلق جنوبی ایشیا سے رہا ہے اور یہ بھی محض علاقائی نسبتوں سے نہیں، بلکہ مسالک و حلقوں اورمکاتب و مدرسوں اور سلسلوں جیسے مشائخِ نقش بند، علمائے اہلِ سنّت، علمائے دیوبند کا تذکرہ، اس تصنیف کا اہم ترین حصّہ ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے گمان ہوتا ہے کہ یہ ایک علمی و تاریخی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے اور اس اعتبار سے اس کی اشاعت اور اس کا ہم تک پہنچنا ایک خوش آئند امر ہے، جو مصنّف کی جستجو، تحقیق و محنت کے طفیل ممکن ہوسکا۔ ان کی محنت و جستجو کا ایک امتیازی ومنفرد وصف یہ بھی ہے کہ معاصرین، جن کا تعلق بالخصوص سندھ سے ہے ان کے حالات و تعارف کے لیے یہیں کی تازہ تصانیف کو انھوں نے اپنا ماخذ بنایاہے ،جس سے یہ تصنیف مزید استناد کی حامل ہوگئی ہے۔