• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سراج الحق

(امیر جماعت اسلامی، پاکستان)

رمضان المبارک ایک مرتبہ پھر ہم پر سایہ فگن ہورہاہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اس کی رضا کے لیے کامل یکسوئی اور ایمان و احتساب کے ساتھ روزے رکھیں۔ آنحضرتﷺ کا فرمان ہے!ــ’’ ہوشیار اور عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اپنا ہر عمل آخرت کی نجات و کامیابی کو سامنے رکھتے ہوئے کرے،جب کہ وہ نادان اور بے وقوف ہے جو اپنے آپ کو خواہشاتِ نفس کا تابع کردے اور بجائے احکام خداوندی کے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلے اور پھر اللہ سے اُمیدیں باندھے۔‘‘

حدیث قدسی ہے، نبی مہربان ﷺنے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے رمضان کو پایا اور اللہ کی عبادت کرکے خود کو جہنم سے آزاد ی کا مستحق نہ بناسکا، ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ یا دونوں میں سے کسی ایک کو پایا اور ان کی خدمت کرکے جنت کا مستحق نہ بن سکا ،ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے میرا نام نامی سنا اور مجھ پر درود نہیں بھیجا۔ 

اس لیے رمضان کی آمد سے قبل ہی ہمیں رمضان المبارک کے مرتبہ و مقام پرایک بار پھرغور کرتے ہوئے ان بابرکت ایام میں خود کو اللہ کی رحمتوں اوربخششوں کا مستحق بنانے کےلیے کمر بستہ ہوجانا چاہئے۔رمضان المبارک سیدالشہور(تمام مہینوں کا سردار مہینہ) ہے۔ اس لیے اس کی شان و شوکت اور عظمت کے مطابق اس کی آمد سے کما حقہ، استفادہ کرنے کے لیے ٹھوس منصوبہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ رمضان کی پہلی رات اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے آسمان دنیا پر آتے ہیں اور منادی کرتے ہیں کہ اے اللہ کی رضااور خوشنودی کے طالب، آگے بڑھ اور اللہ کو راضی کرلے ،اور اے اللہ کے نافرمان ،ماہ مبارک کی عزت و وقار کو دیکھ اور حیا کراور اپنے گناہوں سے باز آجا۔

آنحضرت ﷺکی ایک حدیث سے اشارہ ملتا ہے کہ آپ ﷺنے پندرہ شعبان کے بعد اہل ایمان کو روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ،تاکہ لوگ تازہ دم ہو کر رمضان کے روزے رکھیں، ان میں جسمانی کمزوری لاحق نہ ہو جائے اوروہ آسانی سے روزہ ، تلاوت قرآن اور نوافل وغیرہ کی ادائیگی کرسکیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب آدھا شعبان گزرجائے تو تم نفلی روزے نہ رکھو۔‘‘یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ پندرہ شعبان سے ہی رمضان کے استقبال کی تیاریاں شروع کردی جائیں،تاکہ انہیں بروقت عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ 

رمضان المبارک میں ہر کام کاا جروثواب ستّر گنا سے سات سو گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ قرآن کے مطالعے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اس مہینے قرآن مجید نازل ہوا ، جس میں مسلمانوں کو مکمل ضابطۂ حیات اور نظامِ زندگی عطا کیا گیا ہے، لہٰذا رمضان میں بڑے پیمانے پر قرآن کی تلاوت ترجمہ و تفہیم اورتراویح میں مکمل قرآن سننے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔

روزہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے ۔اسی لئے پہلی امتوں پر بھی روزے کسی نہ کسی طریقے سے فرض رہے ہیں، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا : ’’اے ایمان والو !تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں، جیسا کہ پہلی امتوںپر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔سابقہ انبیاء کی شریعتوں میں بھی روزے کی عبادت موجود تھی ۔ یہودی ،عیسائی،ہندو اور سکھ سب ہی اپنے اپنے انداز سے روزے رکھتے ہیں۔

روزے اور ایمان کا تعلق بہت گہرا ہے۔ باقی تمام عبادات کسی نہ کسی حوالے سے دوسرے انسانوں کے علم میں آجاتی ہیں، نماز ایسی عبادت ہے جو چھپائے نہیں چھپتی ،حکم ہے کہ رکوع کرو، رکوع کرنے والوں کے ساتھ ،یعنی اللہ کے آگے رکوع و سجود مل کر کرو،باجماعت نماز کو انفرادی نماز سے 27گنا افضل قراردیا گیا ہے۔ اسی طرح حج اور قربانی بھی ایسی عبادت ہے جو لاکھوں مسلمان مل کر کرتے ہیں، زکوٰۃ کا معاملہ بھی یہ ہے کہ کسی دوسرے کو نہ بھی پتا چلے جس کو زکوٰۃ دی جارہی ہے، وہ تو جانتا ہے، لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے متعلق روزے دار جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ جانتا ہے ،جو علیم بذات الصدور ہے۔ روزہ اسلام کا چوتھا ستون ہے اور یہ ہر عاقل و بالغ مسلمان مردو عورت پر فرض ہے، بشرطیکہ کوئی شرعی عذر رکاوٹ نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے روزہ انسان پر تزکیۂ نفس اور تقویٰ و طہارت حاصل کرنے کے لیے فرض کیا ہے ۔ ہمارا فرض ہے کہ اس کے جملہ مقاصد اور تقاضوں کو سامنے رکھ کرروزہ رکھیں۔

روزہ ایمان کو ایک ننھی سی کونپل سے برگ و بار لانے والے شجر سایہ دار میں تبدیل کردیتا ہے ۔ایمان کی چنگاری کو شعلہ بنا دیتا ہے ۔ایک بندہ مومن اپنے رب کے حکم سے اس کی حلال کردہ چیزوں سے بھی اپنے آپ کو روک لیتا ہے، اسے یقین محکم ہوجاتا ہے کہ اس کا خالق و مالک ہر لمحہ اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ شدید پیاس میں بھی ایک قطرہ پانی اپنے خشک حلق سے نیچے اتارنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سخت بھوک میں بھی روٹی کا ایک ٹکڑا اپنے پیٹ میں نہیں ڈالتا۔ اس کے اردگرد ہر چیز موجود ہوتی ہے ،فروٹ کی ریڑھیاں اسی طرح سجی ہوتی ہیں، ٹھنڈے اور میٹھے مشروبات ہیں مگر وہ ان تمام چیزوں سے اس لئے بچتا ہے کہ اس کے مالک کا حکم ہے کہ ان کے قریب جائو گے تو میرے ساتھ تم نے روزے کی شکل میں جو عہد باندھا ہے، وہ ٹوٹ جائے گا ۔اللہ کا وہ بندہ جوسارا دن اللہ کے حکم پر اس کی حلال کردہ چیزوں ،جنہیں وہ سارا سال بغیر کسی روک ٹوک کے کھاتا پیتا رہا ہے ،ان کا کھانا پینا ترک کردیتا ہے ،وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے قریب کیسے جاسکتا ہے؟ یہی روزے کا مقصد اور تقویٰ کا معیار ہے ۔

اسی طرح روزے اور قرآن کا تعلق بھی ہمیشہ ہمیشہ کا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میںنے قرآن کو رمضان میں نازل کیا۔یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں ہر گھر اور ہر مسجد میں قرآن کی تلاوت کی آوازیں آتی ہیں ،تراویح اور شبینہ کے روح پرور اجتماعات ہوتے ہیں اور اللہ کے بندے اپنے خالق و مالک کے در پر ہاتھ باندھے قرآن سنتے ہیں ،قرآن کی مجالس برپا ہوتی ہیں ،حفاظ کرام اور قرا ء حضرات قرآن کی منازل دہراتے ہیں ۔علمائے کرام اور خطیب حضرات اپنے خطابات میں قرآن کریم کے نزول اور اس کی عظمت و رفعت کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔

روزے کا ایک اہم ترین مقصد معاشرے میں موجود غربا و مساکین اور نادار وں کی بھوک پیاس اور ضروریات کا احساس دلانا بھی ہے جو سارا سال غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے بھوک برداشت کرتے ہیں۔ بیوائوں اور یتیموں کی کفا لت کی طرف توجہ دلانا ہے جن کی بے چارگی انہیں ہروقت مجبور و محروم رکھتی ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ کسی کا روزہ افطار کروانے والے کو ایک روزے کے مطابق اجر وثواب ملے گا،خواہ وہ ایک کھجور اور پانی کے گھونٹ سے ہی کیوں نہ افطار کروایا جائے اور افطار کرنے والے کے اجرو ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔

اس لئے اپنے ارد گرد ایسے افراد کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جوروزے تو رکھتے ہیں، مگر انہیں سارادن یہ فکر رہتی ہے کہ آج پکائیں گے کیا اور کھائیں گے کیا ؟ ان کے معصوم بچے بھی چاہتے ہیں کہ افطاری کے وقت ان کی کوئی پسندیدہ چیز کھانے کو مل جائے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بھوکے کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دلاتا اور یتیم کو دھکے دیتا ہے، وہ دین کو جھٹلاتا اور قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے۔ 

اسی طرح حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ مسلمان نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کرکھائے اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہے۔ صلحائے امت نے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے چالیس گھروں کو ہمسایہ قرار دیا ہے۔ اگر ہر فرد اپنے اردگرد کے ضرورت مندوں اورحاجت مندوں کی خبر گیری اور حاجت روائی کرے تو ہمارا معاشرہ محبت و اخوت اور ہمدردی و بھائی چارے میں اپنی مثال آپ بن سکتا ہے ۔