• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

ہر سال جب فروری کا مہینہ آتا ہے، تو میرا دل یک بارگی غم و اندوہ میں ڈوب جاتا ہے کہ میرے دیرینہ دوست، ہم دم ڈاکٹر عارف جنجوعہ کا چہرہ جو نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس کا خلوص، ایثار و محبّت، ایثار اور اُس کے ساتھ بیتے لمحات کا سوچ کر بے چین و بے قرار سا ہوجاتا ہوں۔ میرے اس پُرخلوص دوست کا تعلق گمبٹ، ضلع خیرپور، سندھ سے تھا۔ وہ میرا کالج فیلو، بہترین دوست اور یاروں کا یار تھا۔ وہ ایم بی بی ایس اور میں بی ڈی ایس کررہا تھا۔ 

ہماری روز ہی ملاقات ہوتی، کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ ہم نہ ملتے۔ اس کے بڑے بھائی حاجی امان اللہ زرعی یونی ورسٹی، ٹنڈوجام میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، جب کہ اُن سے چھوٹے ڈاکٹر احسان اللہ، مجھ سے دوسال سینئر تھے۔ ان دونوں سے بھی میری اچھی دوستی تھی۔ حیدرآباد میں نور محمد ہائی اسکول بلڈنگ میں مہران بُک ڈپو کے نام سے ایک دکان تھی، جہاں ہم سب اکٹھے ہوکر گھنٹوں دنیا جہان کی باتیں کیا کرتے۔ دکان کے مالک، چوہدری مشتاق ہمارے مشترکہ دوست تھے۔ 

حصولِ تعلیم کے بعد روزگار سے منسلک ہوجانے کے باوجود ہم نے وہاں کی بیٹھک ترک نہیں کی۔ ہمارا معمول تھا کہ روزانہ شام ڈیوٹی سے واپسی پر لازماً وہاں کچھ دیر قیام کرتے اوردل چسپی کے مختلف امور، حالات و واقعات پر سیرحاصل گفتگو کے بعد گھر رخصت ہوتے۔ ڈاکٹر عارف جنجوعہ سے میری پہلی ملاقات اسی جگہ ہوئی تھی اور پہلی ملاقات ہی میں، مَیں اُس کی سنجیدگی، بُردباری اور عالمانہ گفتگو سے متاثر ہوگیا تھا۔ پھر ہماری دوستی رفتہ رفتہ پختہ سے پختہ تر ہوتی چلی گئی۔

ڈاکٹر عارف میری شادی میں بوجوہ شرکت نہ کرسکا، جس کا مجھے بے حد رنج تھا، مگر اس نے مجھے خصوصی طور پر مبارک باد کا تحریری پیغام بھیجا۔ اسی طرح شب و روز گزرتے رہے اور اتفاقاً کافی روز تک ہماری ملاقات نہ ہو سکی، نہ ہی اُس کے دونوں بھائی ملے۔ ایک روز ڈیوٹی سے واپسی پر اس دکان پر رکا، تو وہاں عجیب ہی عالم پایا، کوئی ویرانی سی ویرانی، اداسی کا ڈیرہ تھا۔ اچانک بھائی مشتاق نے یہ اندوہ ناک خبر سنائی کہ ڈاکٹر عارف جنجوعہ کا انتقال ہوگیا ہے، مَیں تو یہ سن کر ششدر و بھونچکا رہ گیا، مجھےاپنی سماعت پر یقین ہی نہیں آرہا تھا، لیکن بالآخر اس حقیقت کو ماننا پڑا۔ 

دراصل ہوا یہ کہ عارف جنجوعہ ہفتے میں دو بار ٹنڈوالہ یار کے ایک فلاحی اسپتال میں سرجیکل آپریشنز کے لیےجایا کرتا تھا، اس روز بھی وہ آپریشن سے فارغ ہونے کے بعد ویگن میں واپس حیدرآباد آرہا تھا اور دروازے کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا کہ اس کی وین کا سامنے سے آنے والی گاڑی سے تصادم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی مصلحت کہ میرے دوست عارف جنجوعہ کے سوا ویگن کے تمام مسافر محفوظ رہے۔ 

عارف جنجوعہ تصادم کے دوران دو سیٹوں کے درمیان بُری طرح کچل کر موقعے ہی پر جاں بحق ہوگیا۔ اس کی اس طرح اچانک حادثاتی موت پر ہم سب پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ مَیں نہ جانے کتنے روز دنیا و مافیہا سے بے خبر گھر میں پڑا، اُس کی یادوں میں گُم رہا۔ جہاں جاتا اس کی یاد ستاتی، کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اس طرح اچانک داغِ مفارقت دے جائے گا۔ مَیں سوچتا ہوں کہ جب میری یہ حالت ہوئی، تو اس کے بہن بھائیوں اور والدین کا کیا حال ہوا ہوگا؟ 

اے کاش! یہ سب نہ ہوتا، مگر ہونی کو بھلا کون ٹال سکا ہے۔ اس کے جانے کے بعد ہماری تو محفل ہی اُجڑ گئی۔ جب بھی فروری کا مہینہ آتا ہے، تو اداسیوں کے سائے اور گہرے ہوجاتے ہیں۔ خدائے ذوالجلال ڈاکٹر عارف جنجوعہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور اس کے لواحقین، اِعزّا و اقارب کو صبرِ جمیل عطا کرے، آمین، ثم آمین۔ (ڈاکٹر رانا محمد اطہر رضا، طارق آباد، فیصل آباد)