نسیان ایک ایسی بیماری ہے جس کا مریض سب کچھ بھول جا تا ہے ۔ اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کل رات کیاکھایا تھا، یا صبح کیا نا شتہ کیا تھا۔یہ مرض صرف کسی ایک فرد کو ہی نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی پوری قوم بھی اس مرض میں مبتلا ہو جا تی ہے ۔اب اس نسیان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ نسیان ہے جو تمام چیزوں اور تمام واقعات کے بارے میں ہو تا ہے۔لیکن نسیان کی ایک قسم وہ بھی ہے جسے” ترجیحی نسیان “ یا جسے انگریزی میں Selective Amnesiaکہا جا تا ہے ۔ یعنی ہم کچھ خاص واقعات، کچھ خاص چیزوں اور کچھ خاص لوگوں کو بھول جاتے ہیں۔ اسے آپ دیدہ دانستہ بھول جانا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ہمارے شاعر اور افسانہ نگار دوست ایرج مبارک آج کل اس دوسری قسم کا بہت ذکر کرتے ہیں ۔اور بالکل صحیح ذکر کرتے ہیں ۔ معاف کیجیے، یہاں ہم اپنے ان سینکڑوں اور ہزاروں فوجی افسروں اور جوانوں اور شہریوں کا ذکر نہیں کر رہے ہیں جنہیں یکسر بھلا کر ہم ان لوگوں سے بات چیت بلکہ مذاکرات کرنے کے لئے بہت بے چین ہیں جنہوں نے ان بے گناہ اور معصوم جانوں کو شہید کیا ہے ،بلکہ ابھی کل ہی دیر بالا میں ایک میجر جنرل، ایک لیفٹیننٹ کرنل اور ایک لانس نائیک بھی نہایت بربریت کے ساتھ شہید کر دیئے گئے ہیں۔ہم اس کا ذکر اس لئے نہیں کرتے کہ اگر بات چیت ہوہی رہی ہے تو ہونے دیجیے،دیکھ لیں گے اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟اور یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم اپنے شہیدوں کو کتنا یاد رکھتے ہیں اورکتنا بھلا دیتے ہیں ؟ ہم تو ایک ایسے انسان کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو صرف چند سال پہلے تک اردو افسانے اور اردوکی نثری نظم کے میدان میں ایک بہت بڑا کھلاڑی مانا جاتا تھا۔ جدید افسانہ ہو یا نثری نظم اس کے نام کے بغیر جدید ادب کی فہرست مکمل ہی نہیں ہوتی تھی ۔ بلکہ اس کانام تو فہرست کے ابتدائی چند ناموں میں آ تا تھا ۔ لیکن پھر کیاہوا؟ چند دن پہلے اس کا انتقال ہوا تو کم سے کم لاہور کے کسی اردو یا انگریزی اخبار میں اس کے بارے میں ایک سطر کی خبر بھی نہیں چھپی۔ احمد ہمیش اردو کے ان چند افسانہ نگاروں میں سے ایک تھا جنہوں نے اردو کو نیا یا جدید افسانہ دیا ۔ وہ جدید افسانہ جس نے اردو میں افسانوی ادب کی کایا ہی پلٹ دی۔آپ اسے علامتی افسانہ کہیے یا تجریدی افسانہ ، انور سجاد اور سریندر پرکاش کے ساتھ اگر کسی جدید افسانہ نگار کا نام آتا تھا تو وہ تھا احمد ہمیش کا۔اس کا افسانہ ”مکھی “ جدید افسانوی ادب میں کلاسیک بن چکا ہے ۔ کسی زمانے میں اس افسانے پر کیا کچھ نہیں لکھا گیا ، کتنی بحثیں نہیں ہوئیں اس افسانے پر،اور کیا کیا معنی نہیں پہنائے گئے اس افسانے کو؟ مگر یہ چند سال پہلے تک کی بات تھی۔اس کے بعد احمد ہمیش کا نام ایسا غائب ہوا کہ ادب کی تنقید میں کہیں اس کا ذکر ہی نہیں آتا تھا ۔
ایسا نہیں ہے کہ احمد ہمیش صرف ایک افسانہ لکھنے کے بعد ہی ادبی منظر نامے سے غائب ہو گیا تھا ۔ اس نے اتنے افسانے ضرور لکھے کہ اس کے افسانوں کا ایک مجموعہ شائع ہوا ۔”مکھی “ کے بعد اس نے جو افسانے لکھے وہ بھی اس کے منفرد انداز کے نمائندہ ہی تھے ۔ بعض افسانے اس کی اپنی زندگی کی ہی تمثیل تھے ۔ اس نے جھنگ کے حوالے سے جو افسانہ لکھا وہ اس کی اپنی زندگی کی کہانی ہی ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے” تشکیل “کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالا جو کافی عرصے چلتا رہا۔ لیکن دوسرے ادبی رسالوں کی طرح وہ بھی مالی مشکلات کا شکار ہو کر آخر کا ر بند ہو گیا ۔ نثری نظم میں بھی اس نے اپنا نام پیدا کیا اور اس کی نثری نظموں کا بھی ایک مجموعہ شائع ہو۔ہمیں تو وہ دن یاد ہیں جب کراچی میں نثری نظم کے دو ہی علم بر دار تھے۔ ایک قمر جمیل اور دوسرے احمد ہمیش۔ کراچی میں قمر جمیل نثری نظم کے بانی ہونے کا دعوی کرتے تھے تو لاہور میں اس کا سہرا مبارک احمد کے سر باندھا جاتا تھا ۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ نثری نظم میں پہل انہوں نے کی ہے ۔نثری نظم کے ان چند شاعروں نے ہی احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا جیسے جید شاعروں اور نقادوں کی مخالفت کے باوجود اسے ایسی مقبول صنف بنا دیا کہ آج کئی اچھی شاعرات اور شاعراپنی نثری نظموں کی وجہ سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔اور آج بلا شبہ نثری نظم میں بہت اچھی شاعری کی جا رہی ہے ۔ چلئے، مانے لیتے ہیں کہ احمد ہمیش نے خود بھی اپنے ہم عصر ادیبوں اور نقادوں کو ناراض کیا ۔ وہ اپنی ذات سے باہر کسی اور کو مانتا ہی نہیں تھا ۔ وہ شروع بھی اپنے آپ سے ہوتا تھا اور ختم بھی اپنے آپ پر ہی۔وہ جو انگریزی میں کہا جاتا ہے کہHe is full of himself تو یہ احمد ہمیش کے بارے میں ہی کہا جا سکتا ہے ۔ وہ لاہور آیا کرتا تھا۔ادیب و شاعر اور ادب سے شغف رکھنے والے اس کی آؤ بھگت بھی کرتے تھے ۔ لیکن یہ آؤ بھگت اس کی مرضی کی نہیں ہو تی تھی اس لئے اس نے لاہور آنا ہی چھوڑ دیا تھا ۔ ایک سال پہلے کراچی آرٹس کونسل کی ادبی کانفرنس میں اس سے ملاقات ہوئی اور وہاں اس کی تقریر بھی سنی ۔ بہت کمزور نظر آتا تھا ۔ مگر آواز میں وہی طمطراق تھا ۔ اس نے جو تقریر کی اس میں بھی اپنے ذکر کے سوا اور کسی کی بات نہیں کی ۔ پوری تقریر شکایات سے بھری ہوئی تھی ۔لیکن یہ بھی تو دیکھئے کہ شاعروں اور ادیبوں کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہماری ادبی تاریخ میں تو یہ شروع سے ہی ہو تا چلا آ رہا ہے۔ ادب اور شاعری کی تاریخ میں کون شاعر یا ادیب ایسا گزرا ہے جس نے تعلّی سے کام نہ لیا ہو ۔ سب ہی تو کہتے تھے ”ہم چناں دیگرے نیست “۔ مگر ہمارے نقاد اور ادب سے شغف رکھنے والے دوسرے لوگوں کو کیا ہوا تھا؟ انہوں نے اپنے انداز کے ایک منفرد لکھنے والے کو اس طرح نظر اندازکیوں کیا؟ وہ یکایک جدید ادیبوں کی فہرست سے خارج کیوں ہو گیا ؟ اب رہی میڈیا کی بات ،تو وہ آج کے اخبار ہوں یا ٹی وی چینل ادب ان کا مسئلہ نہیں ہے ۔ خبروں میں شعرو شاعری تو بہت چلتی ہے اور وہ بھی چلتے ہوئے مقبول و معروف شعروں کی، لیکن سوائے ان ادیبوں اور شاعروں کے جو پہلے ہی بہت مشہور ہوگئے تھے یا جو ٹی وی پر اپنی شکل دکھانے کی وجہ سے عام لوگوں میں بہت مقبول ہوگئے ہیں اور کسی شاعر یا ادیب سے ہمارا میڈیا واقف نہیں ہے ۔ اسی لئے احمد ہمیش جیسے منفرد افسانہ نگار اور شاعر میڈیا میں کوئی جگہ نہیں پاتے ۔ اب رہی نقادوں کی بات تو وہ بھی ہماری پوری قوم کی طرح نسیان کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ وہ صرف سامنے کی چیز ہی دیکھتے ہیں۔ادھر کوئی آنکھ سے اوجھل ہوا اور ادھر وہ طاقِ نسیاں کی زینت بن گیا۔ احمد ہمیش کا قصور یہ ہے کہ وہ مرنے سے پہلے ہی نقادوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا ۔