نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ، معروف سیاست دان ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ 25فروری 2022ء کو ملتان کی تحصیل جلال پور، پیروالا کے نزدیک موٹروے پر ٹریفک حادثے کا شکار ہوکر خالقِ حقیقی سے جاملے۔ درویش صفت سیاسی و سماجی رہنما، عبدالحئی بلوچ بولان کی تحصیل بھاگ کے دُور افتادہ علاقے، چھلگری میں یکم فروری 1945ء کو پیدا ہوئے۔ والد پیر بخش چھلگری پیشے کے اعتبار سے زمین دار تھے، اُن کے چاربیٹوں میں، عبدالحئی بلوچ چوتھے نمبر پر تھے، جنھوں نے ابتدائی تعلیم مقامی ہائی اسکول بھاگ سے حاصل کی۔
میٹرک کے بعد مستونگ کالج میں داخلہ لیا، وہاں سے ایف ایس سی کے بعد 1960ء کی دہائی میں ڈائو میڈیکل کالج، کراچی میں داخلہ لے لیا، ساتھ ہی طلبہ سیاست اور سماجی سرگرمیوں میں بھی متحرک ہوگئے۔ بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کی بنیاد رکھی گئی، تو اس کے پہلے چیئرمین بنے۔ پارلیمانی سیاست کا آغاز 1970ء کے عام انتخابات سے کیا اور نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے امیدوار کی حیثیت سے خان آف قلّات کے بیٹے، شہزادہ یحییٰ کو شکست دے کر کم عُمرترین رکنِ قومی اسمبلی بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ایک سچّے،کھرے اور بااصول سیاست دان تھے، وہ جمہوریت کی بالادستی اورمحکموم و مظلوم عوام کی توانا آواز تھے۔انہوں نے تقریباً نصف صدی پر محیط اپنی سیاسی زندگی میں ہمیشہ غریب عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ وہ تنظیم سازی کے ماہر تھے اور نظم ونسق کا ہنر بھی خوب جانتے تھے۔1988ء میں بننے والے ’’نیشنل الائنس‘‘ میں انہوں نے بطور جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ اس الائنس کے صدر، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان، نواب اکبرخان بگٹی تھے۔
بعدازاں، ’’بلوچستان نیشنل موومنٹ‘‘ تشکیل پائی، تو سردار اختر مینگل صدر اور ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ نائب صدر منتخب ہوئے۔ 1994میں سینیٹر منتخب ہوئے اور ایوانِ بالا میں بھرپور انداز میں بلوچستان کی نمائندگی کی اور بحیثیت چیئرمین، اسٹینڈنگ کمیٹی پس ماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ سیاسی میدان میں غریب، مظلوم عوام کو حقوق دلوانے اور اُن کی صدا بلند کرنے کی پاداش میں قیدِ تنہائی اور طویل اسیری کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
وہ قومی اسمبلی کے اُن بلوچ ارکان میں شامل تھے، جنہوں نے 1973ء کے آئین میں بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے تحفّظات کی بِنا پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔ جس کے بعد اُس وقت کے وزیراعظم، ذوالفقار علی بھٹو اور حزبِ اختلاف نیشنل عوامی پارٹی کے درمیان اختلافات نے شدّت اختیار کی، تو ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو کراچی سے کوئٹہ جاتے ہوئے جہاز کے اندر سے گرفتار کرکے تھانہ ائرپورٹ، کراچی منتقل کردیا گیا۔
بعدازاں، اسیری کے دوران اُنھیں ایک چھوٹے سے کمرے میں اٹھارہ ماہ قیدِ تنہائی میں گزارنے پڑے۔ اسیری کے بعد عدالت کے حکم پر رہا کیے گئے، تو کچھ عرصے بعد بلوچستان کی مچھ جیل میں پابندِ سلاسل کردیا گیا۔ جیل کی اسیری اور صعوبتوں سے رہائی ملی، تو صوبہ بلوچستان کے بڑے نام وَر سیاست دانوں کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں شریک ہوگئے، جن میں سردار عطاء اللہ مینگل‘ میر غوث بخش بزنجو، نواب اکبر خان بگٹی، نواب خیر بخش مری اور عبدالصمد خان اچکزئی شامل ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران نیشنل عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل موومنٹ سے بھی منسلک رہے، جب کہ 2018ء میں اپنی جماعت ’’نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ قائم کی۔ وہ نہ صرف بلوچ عوام بلکہ سرزمینِ بلوچستان میں آباد تمام اقوام کے مقبول ترین لیڈر تھے۔ آخر وقت تک فیڈریشن کی مضبوطی، جمہوریت کی بالادستی اور مقامی مظلوم عوام کے حقوق کی بات کرتے رہے۔ وہ جمہوریت پسند اور ایک بلند پایہ سیاست دان ہونے کے ساتھ ایک بہترین استاد بھی تھے، ہزاروں سیاسی کارکنوں کی تربیت میں اُن کا کردار فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے صوبے میں عوامی مسائل کی لاتعداد تحریکوں کی سرپرستی بھی کی۔ اُن کا شمار بلوچ قومی تحریک کے صف ِاوّل کے رہنمائوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے سیاست میں جمہوری رویّوں کے فروغ، عوامی حقوق کی پاس داری اور سیاسی شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ نیز، پونم، ایم آر ڈی اے اور اے پی ڈی ایم کی تحریکوں میں بھی ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ عدلیہ بحالی تحریک میں بھی نمایاں رہے۔
بلاشبہ، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ایک سوچ، ایک نظریے کا نام تھا۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے، راہ چلتے جانے اَن جانے لوگوںکو خلوص سے سلام کرنے والے اس عظیم سیاسی رہنما کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ ان سے ملاقات کے لیے وقت لینا نہیں پڑتا تھا، وہ خود چل کر عوام کے پاس پہنچ جاتے۔ اپنے اسی عوامی انداز اور سادگی کے باعث عوام میں بے حد مقبول تھے۔کاروانِ جمہوریت کے بہادر سپوت، باوفا اور ہردل عزیز سیاسی سماجی رہنما کو دنیا ایک دبنگ، کھرے آئین پرست اور حق گوجمہوری لیڈرکے طورپر ہمیشہ یاد رکھے گی۔