• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کون نہیں جانتا کہ امریکہ کے ایک اشارے پر یورپ اور امریکہ کے لیے پاکستان کی بارہ ارب ڈالر سے زیادہ سالانہ برآمدات جو پاکستان کی مجموعی برآمدات کا لگ بھگ 40فیصد بنتی ہیں، ختم بند سکتی ہیں؟ کون نہیں جانتا کہ FATFکی تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود پاکستان تاحال گرے لسٹ میں کیوں ہے اور امریکہ کے ایک اشارے پر بلیک لسٹ میں بھی جا سکتا ہے۔ پھر کون یہ نہیں جانتا کہ امریکہ کے ایک اشارے پر IMFمستقبل قریب میں پاکستان کو دیے جانے والے اربوں ڈالر کے قرضے نہ صرف روک سکتا ہے بلکہ پرانے قرضوں کی واپسی کا تقاضا بھی کر سکتا ہے۔ پھر یقین جانیے کہ امریکہ کے ایک اشارے پر سعودی عرب پاکستان کے بینکوں میں رکھے اپنے تین ارب ڈالر منٹوں میں واپس مانگ سکتا ہے، پھر کون نہیں جانتا کہ امریکہ نے بطور دوست ملک پاکستان کو کورونا ویکسین کی کروڑوں خوراکیں بلا معاوضہ فراہم کیں۔ ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی طالب علم امریکہ کی جانب سے فراہم کی جانیوالی اسکالر شپ پر امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، مشغول ہیں، پھر کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے دفاع کی فرنٹ لائن یعنی ایف سولہ طیارے اور دیگر جدید ترین دفاعی ہتھیار امریکہ ہی پاکستان کو فراہم کرتا ہے، پھر وزیراعظم کو اچانک امریکہ سے اتنی نفرت کیوں ہو گئی؟ جس خط کو بنیاد بنا کر امریکہ مخالف بیانیہ کھڑا کیا گیا وہ تو امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کی جانب سے ایک مراسلہ تھا اور ہر ہفتے اہم ممالک میں تعینات پاکستانی سفیر اس طرح کے مراسلے ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعے پاکستان بھجوایا کرتے ہیں، تو کیا حکومت ایسے کسی مراسلے کو بنیاد بنا کر عالمی برادری کے خلاف محاذ کھڑا کرکے ملکی مفادات کو دائو پر لگا سکتی ہے؟ پھر میاں شہباز شریف نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ بھکاریوں کی شرائط نہیں ہوتیں، لیکن اپنی ڈگمگاتی حکومت کے آخری دنوں میں وزیراعظم نے نہ جانے کیوں اپنی حکومت کے خاتمے کی ذمہ داری امریکہ پر ڈالنے کا بیانیہ ترتیب دے کر ملکی مفادات کے خلاف سنگین اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا، حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران ان کی حکومت میں احتساب سے زیادہ انتقام نظر آیا کیونکہ وہ احتساب کے بیانیے کے ساتھ حکومت میں آئے تھے اور انہوں نے ملک کی تمام بڑی اور طاقت ور سیاسی جماعتوں کے خلاف سیاسی مہم چلائی تھی لیکن جب انہیں حکومت بنانے کے لیے اتحادی جماعتوں کی ضرورت پڑی تو انہوں نے اپنے بیانیے جس میں ق لیگ جسے وہ پنجاب کا ڈاکو کہا کرتے تھے، کے گناہ معاف کرکے اسے اپنا اتحادی بنالیا۔ اسی طرح انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کو بھی اپنا اتحادی بنانے کے لیے اس کے گناہ بھی معاف کردیے، اور پھر پوری طاقت سے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے خلاف احتساب کے نام پر انتقام لینا شروع کردیا۔ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان تینوں طاقت ور جماعتوں کو اگر پوری طاقت سے نہ کچلا گیا اور یہ اگر بچ گئیں تو ان کو مشکل ہوگی لہٰذا پوری طاقت کے ذریعے ان تینوں سیاسی جماعتوں کو کچلنے کی کوشش کی گئی اور پھر قوم نے دیکھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے سرکردہ لیڈر ہوں، ان کی اپنی جماعت کے علیم خان ہوں یا ایسا کوئی لیڈر جو کپتان کا کھیل خراب کرنے کی اہلیت رکھتا ہو، اس کے خلاف سخت ترین احتساب کیا گیا، لیکن بعض دفعہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پوری طرح ساتھ نہ دیا تو بعض دفعہ عدالتوں نے انصاف کا ترازو خراب نہ ہونے دیا، پاکستانی روپے کو اپنے ساڑھے تین برسوں میں 80 روپے گرانے کے بعد اسے معاشی حکمتِ عملی قرار دیا، جبکہ ماضی میں ایک روپیہ گرنے پر براہ راست وزیراعظم کو چور کہا کرتے تھے اب روپے کی قدر کو 80 روپے گرا کر بھی چاہتے ہیں کہ عوام ان کو خراج تحسین پیش کرے۔ خیال رہے کہ کپتان نے امریکہ مخالف بیانیہ تیار کر لیا ہے لیکن یاد رکھیے امریکہ مخالف بیانیہ تیار کرکے وہ پاکستان کے پسے ہوئے عوام کی ہمدردی تو حاصل کر لیں گے لیکن اس خطرناک بیانیے کی قیمت ریاست پاکستان سمیت پوری قوم کو ادا کرنا پڑ سکتی ہے، کیا ریاستِ پاکستان اورپاکستانی قوم اس خطرناک بیانیے کی قیمت ادا کرنے پر تیار ہے؟

تازہ ترین