• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو پہلوانوں کے درمیان دنگل رکھا گیا، ایک پہلوان زیادہ طاقت ورنظر آ رہا تھا اور اس نے کُشتی کی تیاری بھی بھرپور کر رکھی تھی، مگر دوسرے پہلوان کا اصرار تھا کہ وہ سرپرائز دے گا اور کُشتی جیت جائے گا، پھردنگل کا دن آ گیا، دونوں پہلوان اکھاڑے میں اترے، ابھی مقابلہ شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ کم زور پہلوان نے اپنی نیکرسے پستول نکالی اور اپنے طاقت ور حریف کو گولی مار دی۔What a surprise!

کُشتی اورکرکٹ سے گِلی ڈنڈا تک ہر کھیل کےکچھ اصول ہوتے ہیں، ہار جیت کھیل کے اصولوں کے تحت ہوتی ہے، اس منطقے کے اندر رہ کر دائو پیچ لڑائے جاتے ہیں، اگر کوئی چور ورلڈ کپ کی ٹرافی چُرا کر بھاگ جائے تو کیا اسے ورلڈ چیمپئن قرار دے دیا جائے گا؟

جو بڑے چائو سے تعمیر کیے تھے اُن مکانوں میں خاک اُڑتی ہے، ماہِ ماتم ہے کہ گزرتا ہی نہیں، کہاں تک فصلِ گریہ کاٹیں،’’ میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو، سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے‘‘،75 سال بیت گئے ہم آئین کی حرمت ہی طے نہیں کر سکے، یعنی ہم نے کھیلنا کیا تھا اور جیتنا کیا تھا ہم تو آج تک کھیل کے اصول ہی نہیں بنا پائے، 1954کی اسمبلی ٹوٹنے سے یہ سلسلہ شروع ہو ا تھا جو آج کی تاریخ تک جاری ہے، اب تو ہم یہ اسکرپٹ اُلٹا بھی سنا سکتے ہیں، یہ فلم فلاپ ہو چکی ہے پھر بھی ہر کچھ سال بعد ــہدایت کار ’شرطیہ نیا پرنٹ‘ کہہ کر اسے نمائش کے لیے پیش کر دیتا ہے، اور ہر دفعہ فلم کے آخر میں ہال ـ’ڈبہ ڈبہـ‘ کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔

سیاست کی لڑائی آئین سے باہر نہیں لڑی جاتی، یہ آئینی راستہ اپنانے والوں کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے، یہ تو TTP کا راستہ ہے، کیا سیاسی اکھاڑے میں داخل ہونے والے ہر پہلوان کی نیکرمیں پستول ہونا چاہیے؟ یہ تو تباہی کا راستہ ہے، یہ سڑک جنگل کی طرف جاتی ہے، اور جنگل میں حیوان رہتے ہیں جو کسی عمرانی معاہدے کے تحت نہیں بلکہ ہر لمحہ طاقت ور کے خوف میں زندگی گزارتے ہیں۔اور اگر کچھ دوست آئین ٹوٹنے پر بغلیں بجارہے ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں،ہماری تاریخ میں آئین شکنی کی ہر واردات پر رقاصوں کی ایک ٹولی ہماری اجتماعی شکست سے بے نیازمحوِ رقص نظر آتی ہے،ہم نے کب انہیں آئین اور قانون کا سبق پڑھایا ہے، ہمارے اسکولوں کے نصاب میں ایک سطر بھی ایسی نہیں ہے جس میں آئین کی حرمت کا بیان ہو یابے دستور سرزمینوں کے باسیوں کی خستہ حالی اور ذلت آمیز زندگیوں کا تذکرہ ہو بلکہ خان صاحب تو اپنے جلسوں اور تقریروں میں ملک کے پہلے آئین شکن ایوب خان کے دورِ حکومت کو مثالی قرار دیتے ہیں (بس یہ نہیں بتاتے کہ اُس مثالی دورِ حکومت کے اختتام پر ملک ٹوٹ گیا تھا)۔

آج تک اس ملک میں کس آئین شکن کو سزا دی گئی ہے؟ اور آخرِکار جب ایک ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو آئین توڑنے کی سزا سنائی گئی تو فیصلہ سنانے والے جج کو قومی ہیرو قرار دینے کے بجائے پاگل قرار دے دیا گیا اورآئین شکن ڈکٹیٹر کو فرار کروا دیا گیا، اس سارے منظر کو دیکھنے والے اگرآئین کی حکمت نہیں سمجھتے تو ان سے کیا گلہ کیا جائے۔’مطالعہ پاکستان‘ پڑھ کر تیار ہونے والی نسل کویہ ادراک ہی نہیں ہے کہ بے دستور خطے کے لوگـ’ شہری‘ کے سنگھاسن سے اتر کے دو پائے کی سطح پر آ جاتے ہیں۔

آئیے اب سیاسی منظر نامے کو ذرا قریب سے دیکھتے ہیں۔ اس وقت صورتِ احوال یہ ہے کہ ایک برہنہ آئین شکنی کے بعد عمران خان بہ ظاہر بڑی تیزی سے الیکشن کی طرف بڑھنا چاہ رہے ہیں، اُن کا استدلال بھی یہی ہے کہ اپوزیشن الیکشن ہی تو چاہتی تھی، اب تنقید کیسی،یعنی وہ اس کوشش میں ہیں کہ آئین کی بے حرمتی کی بحث کو بھلا کر آگے بڑھا جائے۔ چلیے مان لیا، عملیت پسندی کا تقاضہ سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، مگر آگے کدھر؟ ایک اور متنازع الیکشن کی جانب؟ بلکہ متنازع الیکشن سے بھی کہیں بڑے تنازعہ کی طرف؟ خاکم بہ دہن، خانہ جنگی کی طرف؟

اس وقت عمران خان پاکستان کے تقریباً ستر فی صد عوام کے دو سو نمائندوں کو غدار قرار دے چکے ہیں، فقط کسی سیاسی تقریر میں نہیں، بلکہ اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے ذریعے، اسی الزام کے تحت اسمبلی توڑی گئی ہے۔ کون ضمانت دے گا کہ ان ـ’غداروں‘ کو الیکشن لڑنے دیا جائے گا؟ غداروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینا تو واقعی آئین سے انحراف قرار دیا جا سکتا ہے، نگران وزیرِ اعظم تو اب آئینی طریقے سے لگ ہی نہیں سکتا، اور اگر اتفاقِ رائے سے نگران وزیرِ اعظم نہیں لگ سکتا تو کیا عارف علوی عمران خان سے ہی کام جاری رکھنے کی درخواست کر سکتے ہیں؟ کیا الیکشن میں ای وی ایم مشینیں استعمال کی جائیں گی؟ سمندر پار پاکستانی ووٹ ڈالیں گے اور کس طرح، کس حلقے کے لیے ووٹ ڈالیں گے کیوں کہ یہ پہلو ابھی قانون میں طے نہیں ہے؟ اگر الیکشن کمیشن تین ماہ میں الیکشن کروانے سے معذوری کا اظہار کرے توکیا عمران خان ایک سال بھی نگران وزیرِ اعظم رہ سکتے ہیں؟ کیا ان سوالوں کا جواب کوئی صاحب نیم تیقن سے بھی دے سکتے ہیں؟ نہیں دے سکتے۔اس لیے کہ ہم آئین و قانون کے منطقے سے باہرنکل گئے ہیں، اور آئینی دائرے سے باہر بے یقینی کے اندھیرے نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

اس سارے گنجل کا ایک انتہائی سادہ حل ہے، عملیت پسندی کا حقیقی تقاضہ بھی یہی ہےکہ آئین کے دائرے میں واپس لوٹ چلیں، زندگی آسان ہو جائے گی، ورنہ پھر وہی پائوں وہی خارِ مغیلاں ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین