• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

"تمہیں بتاؤں میں کون ہوں "یہ وہ رعونت سے بھرپور جملہ ہے جو ہمارے ہاں ضرورت پڑنے پہ سامنے والے کو زیر کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ خاص طور جب غلطی اس شخص کی اپنی ہو تو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہوئے اور مد مقابل پہ رعب جمانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب تو ایسے دھونس جمانے والوں کی باقاعدہ ویڈیوز بنا کر وائرل کی جاتی ہیں تاکہ ان طاقتور افراد کا رعب مجموعی طور پر سب پر طاری ہوجائے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بجائے اس عمل کی نفی کی جائے اس کو فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دیکھنے والے متاثر ہوتے ہیں کہ کتنے طاقتور لوگ ہیں کیسے عام لوگوں کو ڈرا دھمکا کر رکھتے ہیں۔ یہ کلچر ہمارے معاشرے میں اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب عام لوگ بھی ان افراد کو بہت آرام سے پہچان لیتے ہیں اور ان کو ناچاہتے ہوئے بھی عزت دیتے ہیں۔ انسانیت کی یہی تعریف ہے؟ انسانی حقوق کی عملداری اسی چیز کا نام ہے؟ سب انسانوں کی برابری کا یہی پیمانہ ہے؟ ہمارا ملک تو اسلام کے نام پر بنا جس کی تعلیمات میں یہ بات شامل ہے کسی انسان کو کسی دوسرے انسان پر کوئی فوقیت نہیں اگر ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر۔ لیکن معاشرے میں کیا ہو رہا ہے ؟ تقویٰ اختیار کرنے والے کو کمتر اور حقیر سمجھا جاتا ہے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس میں برائیاں نکال کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ بھلے سے برائیاں نکالنے والے میں "پانچوں شرعی عیب" ہوں۔ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیوں انسانیت کی تذلیل ہورہی ہے؟ human rights (انسانی حقوق ) کی اتنی تنظیموں کی موجودگی کے باوجود انسانی حقوق کی عملداری نہیں۔ مسئلہ یہ ہے لوگوں نے کچھ اسٹیٹس سمبلز (status symbols) بنا لئے ہیں جن میں سے ایک "مال برداری" کے کام آنے والی گاڑیاں، ان کے "کالے کالے شیشے"،اور عجیب و غریب (ڈراؤنے) حلیے میں ان کے "گارڈز"۔جب یہ بڑے یہ لوگ سڑکوں پہ نکلتے ہیں تو "تکبر" سے لیس ہوکر نکلتے ہیں۔ بقیہ لوگوں کو صرف "کمی کمین"سمجھتے ہیں۔ ان با اثر لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جب یہ باہر نکلیں لوگ ان کو دیکھ کر ڈر جائیں، فوراً راستہ دے دیں، جس کام کے لئے یہ آئے فورا کردیا جائے اور اگر ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو فورا درگزر کردیا جائے۔ بھلے سے ان کی وجہ سے کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجائے، کسی کی نوکری چلی جائے، یا کسی کی جان چلی جائے، انہیں کچھ نہ کہاجائے کیوں کہ جواب میں یہی سننے کو ملے گا " جانتے نہیں میں کون ہوں، میری پہنچ کہاں کہاں تک ہے، میں کیا کیا کرسکتا ہوں، میرا ایک فون تمہیں کہیں سے کہیں پہنچا دے گا، ٹریفک اور قانون نافذ کرنے والوں کو یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ نوکری پہ رہنا ہے یا نہیں"، کوئی ان کا چالان یا ایف آئی آر نہیں کاٹ سکتا، بلکہ قانون توڑنے پہ ان کی مدد کی جاتی اور "مکمل فول پروف سیکیورٹی " فراہم کی جاتی ہے ۔ آخر کو یہ ملک ان ہی کی بدولت ہی تو چل رہا ہے۔ برطانیہ میں تو دکھاوے کی بادشاہت ہے۔ اصل بادشاہت تو مملکت خداداد پاکستان میں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ رعونت صرف ایک بااثر شخص ہی نہیں دکھاتا بلکہ اس کے اردگرد موجود ہر شخص میں یہ رعونت موجود ہوتی ہے۔ تم کو اندازہ نہیں ہے کہ "میں کس کی بیوی ہوں تمھارا کیا حشر کر سکتی ہوں"، "تم جانتے نہیں میں کس کا بیٹا ہوں وہ تمھارا کیا حال کریں گے"، اسی طرح دور کے رشتہ دار کبھی میرے بھائی کو تم جانتے نہیں تو کبھی میرے انکل کون ہے تم کو پتا ہوتا تو اتنی ہمت نہ کرتے"۔ یوں یہ دھمکیاں دے دے کر یہ تمام لوگ اپنی غلط کرتوتوں کو درست کروالیتے ہیں۔ لیکن کیا کسی کو اندازہ ہے کہ اس کی وجہ سے عام لوگوں ( غیر بااثر لوگوں) کی نفسیات پہ کتنا غلط اثر پڑ رہا ہے۔ کس قدر وہ frustrated ہورہے ہیں؟ اور اپنے اندر بھرے غصے کو وہ کس طرح غلط طریقے سے باہر نکالنے ہیں؟ معاشرے سے چڑ ہونا، ملک کو برا بھلا کہنا، ملک چھوڑ کے جانے کی بات کرنا۔ کیا یہ سب درست ہو رہا ہے؟ کیا ہم کو اندارہ بھی کہ ہماری نئی نسل کس قدر ذہنی دباؤ کا شکار ہے؟ صرف اور صرف اس بے اعتدالی کی وجہ سے۔ یہ نسل انسانوں کی برابری چاہتی ہے، انسانی مساوات چاہتی ہے۔ لیکن متواتر انسانی حقوق کی پامالی نے اسے مایوس اور بد دل کردیا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ نظام بدلنے کی کوشش میں اس سے پہلے وہ بھی ہمت ہار جائیں نظام کو عملاً بدلا جائے۔ قانون سب کے لئے برابر ہو۔ کوئی کسی کو اپنی پہچان سے نہ ڈرا سکے، سب کی پہچان اس وطن ہو۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین