• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان آنے کے بعد مجھے جون 1948میں ساڑھے سولہ سال کی عمر میںسرکاری ملازمت مل گئی۔ غیرمسلموں کے چلے جانے کے بعد محکمۂ انہار میں سگنیلرز کی بہت کمی پیدا ہو گئی تھی اور میں نے برادرِ مکرم جناب گُل حسن سے ٹیلی گرافی کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ میری تعیناتی سپرنٹنڈنٹ انجینئر اپر چناب سرکل کے دفتر میں ہوئی جو گنگارام بلڈنگ مال روڈ پر واقع تھا۔ اُن دنوں سیدابوالاعلیٰ مودودی درسِ قرآن ٹیمپل روڈ پر واقع قاسمی مسجد میں دیتے تھے۔ میں اُس میں باقاعدگی سے شریک ہوتا رہا۔ ایک روز کسی صاحب نے مولانا سے سوال کیا آپ کی جہادِ کشمیر کے بارے میں کیا رائے ہے؟ مولانا نے جواب میں کہا کہ قرآن کی رو سے فقط ریاست جہاد کر سکتی ہے اور غیرریاستی جتھے اپنے طور پر ہتھیار نہیں اُٹھا سکتے، البتہ ہمارے آزاد قبائل مظلوم کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے ایک نظم کے تحت پہنچ سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ پاکستانی بھی ہر طرح کی طبی اور غذائی امداد فراہم کر سکتے ہیں۔ اگلے روز اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ مولانا مودودی نے جہادِ کشمیر کو حرام قرار دے دیا ہے۔ اِس پر مخالفت کا ایک طوفان امڈ آیا تھا۔

میں چوبرجی کوارٹرز سے گنگارام بلڈنگ بھری گرمیوں میں پیدل آتا جاتا رہا۔ راستے میں فٹ پاتھ پر نجومی ہاتھ دیکھ کر لوگوں کی قسمت کا حال بتاتے نظر آتے۔ ایک روز میری جیب میں پانچ روپے تھے۔ مجھے یہ معلوم کرنے کا شوق پیدا ہوا کہ کیا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکوں گا؟ اُس نے ہاتھ کی لکیریں کئی زاویوں سے دیکھنے کے بعد کہا کہ تمہاری تعلیم کی لکیر کٹی ہوئی ہے، اِس لیے آپ مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکو گے۔ مجھے اُس کی بات سے بڑی مایوسی ہوئی، مگر دوسرے ہی لمحے ایک عجیب سی روشنی ذہن میں لپکی اور میں نے اُسی وقت پختہ ارادہ کر لیا کہ نجومی کی پیش گوئی غلط ثابت کر کے دکھاؤں گا۔ میں بفضلِ تعالیٰ دورانِ ملازمت ایم اے پولیٹکل سائنس میں اوّل آیا۔ بعدازاں برادرِ مکرم ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی سربراہی میں کئی نسلوں کی ذہنی تربیت کرنے والا ماہنامہ ’اُردو ڈائجسٹ‘ جاری کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

اکتوبر میں میرا تبادلہ مرالہ ہیڈورکس ہو گیا۔ اُسی مہینے سید ابوالاعلیٰ مودودی سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ میں چار پانچ ماہ بعد مرالہ سے لاہور آیا، تو شہر میں مطالبہ نظامِ اسلامی کے بڑے بڑے پوسٹر لگے دیکھے۔ مطالبہ یہ تھا کہ ریاست جلد سے جلد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اِسلامی نظام کے قیام کا فی الفور اعلان کرے۔ واپس آتے ہوئے میں ایک درجن پوسٹر اپنے ساتھ لے آیا اور اُن میں سے چند ایگزیکٹو انجینئر کے دفتر کی دیواروں پر بھی چسپاں کر دیے۔ اُن دنوں شیخ محمد اسمٰعیل ہمارے ایگزیکٹو انجینئر تھے جو قدرے سخت مزاج تھے۔ دوسرے روز اُنہوں نے مجھے بلا بھیجا۔ میری حیثیت جونیئر کلرک سے بھی کم اور عمر یہی کوئی سترہ برس تھی۔ اُنہوں نے پوچھا یہ پوسٹر تم نے لگائے ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا اور مزید کہا کہ ہم سب کو اسلامی نظام قائم کرنے میں حصّہ لے کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں مرالہ ڈویژن کے سربراہ کی حیثیت میں آپ پر بھی بھاری ذمےداری عائد ہوتی ہے۔ اُنہوں نے غصیلی آواز میں کہا الطاف! تمہیں آج ہی فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا تم سرکاری ملازمت کرنا چاہتے ہو یا جماعتِ اسلامی کا کارکن بن جانے کو ترجیح دیتے ہو؟ میرا دِل چاہا کہ ملازمت پر لعنت بھیج کر لاہور واپس چلا آؤں، مگر کسی غیبی طاقت نے مجھے خاموش کر دیا اور مجھے خیال آیا کہ رزق کو ٹھکرانا میرے رب کو پسند نہیں، چنانچہ میں نے آہستگی سے کہا کہ میں آئندہ احتیاط کروں گا۔

1951کے وسط میں میرا تبادلہ محکمہ انہار سیکرٹریٹ لاہور ہو گیا۔ اُس وقت تک قراردادِ مقاصد منظور ہو چکی تھی اور یہ بحث جاری تھی کہ کس فرقے کا اسلام نافذ ہو گا؟ کراچی میں 1950کے لگ بھگ تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے 31مستند علما نے 22نکات پر اتفاق کر لیا تھا، مگر سیکولر عناصر نت نئے اعتراضات اٹھا رہے تھے۔ اُن دنوں کراچی کے ایک معروف قانون دان مسٹر اے کے بروہی نے ستمبر 1952میں روزنامہ ’ڈان‘ میں ایک سلسلۂ مضامین لکھا کہ آئین کی عوامی زندگی میں کوئی خاص اہمیت نہیں۔ وہ تو ’ساورن پاور‘ کی تقسیم کا ایک فارمولا ہے جو غربت ختم کرتا ہے نہ خوش حالی لاتا ہے اور یہ کہ قرآنِ مجید میں ایک بھی ایسی سورۃ یا آیت نہیں جو اِسلامی دستور کا ڈھانچہ تجویز کرتی ہو۔ اُنہوں نے یہ چیلنج بھی دے دیا کہ جو شخص اسلامی دستور کے حوالے سے قرآن و سنت سے کوئی حوالہ دے گا، تو میں انعام کے طور پہ اُسے پانچ ہزار رُوپے ادا کروں گا۔ اِس چیلنج کا مفصل جواب اسلامی جمعیتِ طلبہ کراچی کے ترجمان ’اسٹوڈنٹس وائس‘ (Students' Voice) نے اپنی اشاعت 7؍اکتوبر 1952میں ادارتی صفحے پر دیا۔ اُس پندرہ روزے جریدے کے ایڈیٹر خورشید احمد اور ظفر اسحٰق انصاری تھے۔ تین صفحات پر مشتمل اُس مقالے میں بروہی صاحب کے دستور کی عدم اہمیت پر اُٹھائے ہوئے تمام سوالات کے مدلل جواب دیے گئے اور قرآن و حدیث کے حوالوں سے اسلامی دستور کی بنیادی تفصیلات فراہم کی گئیں۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ ریاست کے فرائض، اختیارات اور شہریوں کے حقوق کیا ہیں اور اُنہیں کس طرح بروئےکار لانا چاہیے۔

اسٹوڈنٹس وائس کے مندرجات پڑھنے کے بعد مسٹر بروہی نے یونیورسٹی کے طالبِ علم خورشید احمد صاحب سے رابطہ قائم کیا جو بعد میں پروفیسر خورشید احمد کے نام سے معروف ہوئے۔ اُس ملاقات نے بروہی صاحب کے اندر زبردست ذہنی تبدیلی پیدا کی۔ آگے چل کر قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں وہ ایک دوسرے سے قریبی تعاون کرتے رہے۔ اِس قلبی ماہیت کے بعد بروہی صاحب نے 1956کے دستور پر "Fundamental Law of Pakistan" کے عنوان سے ایک بلند پایہ کتاب شائع کی جو دستور کی تعبیر و تشریح میں نہایت ثقہ حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس ذہنی تبدیلی کے نتیجے میں وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی اصابتِ فکر اور عظمتِ کردار کے اسیر ہوتے گئے اور اِسلام کے بڑے زبردست وکیل ثابت ہوئے۔ اُنہوں نے جماعتِ اسلامی کی آزمائش کی گھڑیوںاور خوشی کے لمحات میں بھرپور حصّہ لیا اور عظمتِ اعتراف کی ایک تاریخ رقم کی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین