• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی اور فعال بین الاقوامی تنظیم ہے۔ اس کے 57 ممبر ممالک میں اکثرمسلم ہیں جو تقریباً 1.9 بلین آبادی پر مشتمل ہیں۔ یہ 57 ممالک بین الاقوامی سفارت کاری میں انتہائی اہم حیثیت اورعالمی سطح پر اہم وسائل رکھتے ہیں۔ اس سال پاکستان کو ، او آئی سی کے 48ویں اجلاس کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔ حکومت ِپاکستان نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ تقریب ہر حوالے سے یادگار ہو۔ بین الاقوامی اہمیت کے بہت سے امور کے حوالے سے اصولی موقف اور سفارتکاری پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے خصوصی دعوت پر، چینی وزیر خارجہ مسٹر وانگ یی، کسی بھی پہلے چینی عہدیدار کے طور پر اس اجلاس میں شریک ہوئے۔

چین مسلم دنیا کے بہت قریب آ چکا ہے۔ چین پہلے ہی 50 مسلم ممالک میں 600 مختلف منصوبوں میں مجموعی طور پر 400 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ یہ اعداد و شمار خود اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ عالمی خارجہ پالیسیاں آئندہ کن خطوط کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ چین باہمی ترقی پر یقین رکھتا ہے۔ یہ منصوبے بہت سے ایسے مسلم ممالک کے بنیادی ڈھانچے تعمیر کر رہے ہیں، جو پابندیوں، جنگ یا معاشی تنزلی سے دوچار تھے۔ مسلم دنیا ترقی کے لیے چین کی طرف دیکھ رہی ہے ، اسی لیے پاکستان نے اس سال او آئی سی خارجہ کونسل کے میزبان ہونے کے ناطے، چینی وزیر خارجہ کو سیشن میں مدعو کیا ۔ یہ ایک دانشمندانہ اور تاریخی اقدام تھا جسے رکن ممالک کے ساتھ ساتھ چین نے بھی سراہا۔

48 واں سیشن صرف رسمی باتوں یا ملاقاتوں کا نہیں تھا بلکہ اس میں سنجیدہ اور اہم معاملات کے حوالے سے فیصلے کیے گئے جن کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ اجلاس کا آغاز تجارت اور کامرس میں’’ ڈی ڈالرائزیشن‘‘ پر بحث سے ہوا۔ سعودی عرب اور چین اپنی باہمی تجارت ،بالخصوص تیل اور گیس یوآن میں کرنے کے لیے بات چیت کر رہے تھے۔ اسی طرح کی بات چیت ایران اور چین کے وزرائے خارجہ کے درمیان بھی دیکھی گئی، جہاں چین پہلے ہی انفراسٹرکچر میں 60 بلین ڈالر ز سے زائد کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ چین نے ملٹی پولر دنیا کے تصور کو فروغ دینے کے لیے او آئی سی کے اگست میں ہونے والے فورم کو استعمال کیا تھا۔ مغرب اب طویل مدت اتحادی کے طور پر قابلِ بھروسہ نہیں رہا۔ چین نے مسلم دنیا کیساتھ اپنی پوزیشن کو بھی مضبوط کیا اور وبائی امراض کے دوران مسلم ممالک کو 1.5 بلین ڈالرز کی ویکسین بھی فراہم کی ۔ اس اجلاس میںوبائی مرض سے نمٹنے اورعالمی قیمتیں خطرناک حد تک بڑھنے کے حوالے سے تعاون کے ذریعے تخفیف کی ضرورت پر زور دیاگیا۔

روس یوکرین تنازعہ او آئی سی اجلاس میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا۔ چینی وزیر خارجہ نے واضح طور پر مغربی دنیا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، ان کے اس نقطہ نظر کو ارکان نے تسلیم بھی کیا۔ یورپی یونین اور نیٹو اتحاد کے اقدامات کو بین الاقوامی تعلقات میں جمہوریت کے اصولوں کے منافی قرار دیا گیا۔ تمام ممالک نے روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ، امریکہ اور یورپی یونین کے اختیار کردہ نقطہ نظر کو باہمی طور پر مسترد کر دیا۔ انسانی بحران ،تیل، گیس اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے سمیت مختلف ممالک نے جنگ کے آفٹر شاکس سے نمٹنے کے لیے مختلف تجاویز پیش کیں۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔ پاکستان نے ایک بار پھر بھرپور انداز سے کابل کا مقدمہ لڑا۔ افغان عوام مغربی افواج کی بے دخلی کے بعد بدترین صورتحال سے دوچار ہیں۔ معیشت تباہ ہو رہی ہے اور بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ چینی حکومت نے طالبان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان نے ایک ٹرسٹ فنڈ کے قیام کی تجویز پیش کی جس میں او آئی سی کے رکن ممالک حصہ ڈال سکتے ہیں ،اس فنڈ کا استعمال افغان عوام کے غریب ترین طبقات کو امداد، خوراک اور طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے کیا جائے گا۔ او آئی سی کے ارکان نے ابھی تک طالبان کو تسلیم نہیں کیا اس کے باوجود، یہ او آئی سی کے فورم کے ذریعے ایک نئی شروعات ہے۔فلسطین اور کشمیر بھی ایجنڈے کا حصہ تھے۔ چین نے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی بھارتی اقدامات کو ہدفِ تنقید بنا کر پاکستانی عوام کی خواہشات کی واضح عکاسی کی۔ پاکستان نے آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی حالت زار کو بھی اجاگر کیا۔ چینی وزیر خارجہ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کے موقف کو برقرار رکھا۔ مہمان رکن کی حیثیت سے فلسطین کی حمایت کرنا ایک قابل ذکر کارنامہ تھا ،جو اس معاملے پر پاکستان کا بھی مؤقف ہے، یہ بات قابل ِذکر ہے کہ خلیجی ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لاچکے ہیں جو مسلمانوں کی خواہشات کے منافی ہے۔ لیکن چین نے ایسے مسلم ممالک کی موجودگی میں بھی فلسطین کاز کی بھرپور حمایت کی۔ یہ بہت سی مسلم حکومتوں کے لیے اس حوالے سے ازسرِ نو غور کرنے کی ترغیب ہے۔

پاکستان نے او آئی سی میں چینی حکومت کی شمولیت کے لیے اہم کردار ادا کیا اور مستقبل میں تعاون کی راہ ہموار کی ہے۔ چین عالمی سیاست کا چہرہ بدل رہا ہے۔ چینی توسیع باہمی ترقی اور اقتصادی بہبود کا ماڈل ہے۔ پہلے مشرق وسطیٰ اہم تھا لیکن اب تقریباً تمام مسلم ممالک چین کے ساتھ تعاون کے لیے کمر بستہ ہیں۔ مسلم دنیا چین کے ساتھ مل کر طاقت کے مرکز کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جب کہ امریکہ او آئی سی میں شامل نہیں رہا، مسلم دنیا ، خاص طور پر افغانستان میں تباہی کے بعد اسے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ مسلم دنیا جانتی ہے کہ واشنگٹن ایک ناقابل اعتماد اتحادی ثابت ہوا ہے۔ جیسا کہ نیٹو ممالک روس کے خلاف پابندیوں اور کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، او آئی سی نے بات چیت میں دونوں فریقوں کو شامل کرنے کا مطالبہ کیاہے۔ ترک وزیر خارجہ نے استنبول میں روس اور یوکرین حکومت کے درمیان مذاکرات کے سیشن کا اعلان کیا۔ یہ سب کچھ مغربی اقوام اور اقوام متحدہ کی مداخلت کے بغیر ہو رہا ہے۔

(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین