• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

نظم اور آرٹیکل

ایک نظم اور ایک عدد آرٹیکل ارسالِ خدمت کیا تھا۔ تحریروں کی نوک پلک تو آپ سنوارتے ہی ہیں۔ اگر میری تحریر کو بھی مناسب ایڈیٹنگ کے بعد میگزین میں جگہ مل جائے، تو ممنون رہوں گا۔ (ایم، آر شائق، گروٹی، کمال آباد، راول پنڈی کینٹ)

ج: تحریر قابلِ اشاعت ہو تو بغیر کہے بھی لگادی جاتی ہے۔ صرف باری آنے کا نتظار کرنا پڑتا ہے۔

ہاتھوں میں ہاتھ لیے میٹھے، مہکتے بول

اپنی دل چسپ، فکر انگیز تحریروں کی وجہ سے سنڈے میگزین نے معاشرے کی اصلاح و تربیت کا جو بیڑا اٹھایا ہوا ہے، واقعتاً قابلِ صد ستائش ہے۔ منور مرزا متحدہ عرب امارات پر حوثی باغیوں کے حملے سےمتعلق تفصیلات کےساتھ موجودتھے۔ علی احمد کُرد کی گفتگو نے تو سارا ماحول ہی گرما دیا۔ ‘‘سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ہَری بَھری رُتیں شال اوڑھے دکھائی دیں۔ اور… عرفان جاوید تو جب بھی سامنے آتے ہیں، یوں لگتاہےجیسے میٹھے، مہکتے بول ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چاہتوں کے نغمے گُنگنارہےہوں۔اُن کادل آویز طرزِ تحریر سیدھا دل میں جاگزیں ہوتا ہے۔ ’’آدمی‘‘ سلسلے کے تحت ڈاکٹر آصف اسلم فرخی پر ایک بہت ہی دل چسپ مضمون باندھا ہے انہوں نے۔ اب دیکھیں، آگے آگے ہوتا ہےکیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے دونوں مضامین بھی بھرپور معلومات لیے ہوئےتھے۔ ’’ہمارےساحل اور سونامی کے خطرات‘‘ پروفیسر سیما ناز صدیقی کا فکر انگیز مضمون تھا۔ اقصیٰ منوّر ملک کی تحریر ’’زبان سے نکلے الفاظ‘‘ پسند آئی۔ پروفیسر تقدیس افروز نے بھی چھوٹے علاقے کی بڑی شخصیت، سلیم اختر سے متعلق لکھ کر ہمارا دل جیت لیا۔ اِسی طرح محمّد انس خان نے گیارہویں جماعت کی نئی ’’گل زار ِ اردو‘‘ سے متعلق بالکل ٹھیک نشان دہی کی۔ اِسی طرح کی غلطیاں اس بورڈ کی شایع کردہ نویں اور گیارہویں کی انگریزی کی کتاب میں بھی ہیں۔ ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ میں اس بار پھر جھڈّو کا نام سربلندہوا، پہلے امامہ پھر اُن کی بہن نورالہدیٰ محمّد اسلم تختِ طائوس پر براجمان ہوئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اُردو زبان نے پورے مُلک کو محبّت کی اک ڈوری میں باندھا ہوا ہے اور یہ کریڈٹ سنڈے میگزین ہی کوجاتا ہےکہ وہ گرانی کے اس دَور میں بھی ایک سستے سے محزن کے ذریعے امن و محبّت کا پیغام عام کررہا ہے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپور خاص)

ج: جی، بلاشک و شبہ عرفان جاوید جیسے کہنہ مشق، پختہ قلم کار آج کے دَور میں عنقا ہیں۔ اور یہ اُن کی سنڈے میگزین سے دلی قُربت و اُنسیت ہی ہے کہ وہ اپنی ہر نئی تحریر کتابی صُورت میں شایع کروانے سے پہلے سنڈے میگزین میں سلسلے وار چھپوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

پوچھنا بھی چھوڑ دیا تھا

بالآخر طویل انتظار ختم ہوا اور 2021ء کا آخری شمارہ ہمارا خط آپ تک پہنچنے کی نوید لایا۔ ہم نے تقریباً تین ماہ قبل یہ خط لکھا تھا اور اس عرصے میں تمام میگزینز کا عرق ریزی سے مطالعہ کرتی رہی۔ اب تو بچّوں نے میگزین کے مطالعے کے بعد یہ پوچھنا بھی چھوڑ دیا تھا کہ ’’امّی! کراچی کتنا دُور ہے؟‘‘ خیر، بہت شکریہ۔ سالِ نو ایڈیشن، حصّہ اوّل اور دوم سامنے ہیں اور آپ کا ’’حرفِ آغاز‘‘ کا رائٹ اَپ کُھلا ہوا ہے۔ ہم تو واللہ، پہلے ہی آپ کے طرزِ تحریر کے معترف ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ؎ چند ایک سے دنیا واقف ہے، گُم نام نہ جانے کتنے ہیں۔ پہلے ہمارا خیال تھا کہ آپ کے پاس چند ایک ہی زرخیز ذہن ہیں، جو آپ کے معاون ہیں، مگر جب ’’سال نامے‘‘ کا مطالعہ کیاتو پتا چلا کہ آپ کے یہاں تو اَن گنت درّنایاب موجود ہیں کہ سال بھر کے اہم واقعات کو اِس طرح جائزوں کی صورت قلم بند کرناہرگزکوئی آسان کام نہیں۔ آپ لوگ واقعی بہت پُرخلوص بھی ہیں کہ دن رات محنت کرکے ہمیں گھر بیٹھے پوری دنیا کی سیر کرواتے، معلومات فراہم کرتےہیں۔ تب ہی تو ہم جیسے بھی مطالعے اور لکھنے لکھانے میں دل چسپی لینے لگے ہیں۔ میگزین کے تمام ہی سلسلے شان دار ہیں، خاص طور پر شفق رفیع کی تحریروں کا جواب نہیں ہوتا۔ اور ہمارے صفحے کی تو بات ہی الگ ہے، ایک چھوٹے سے صفحے نے پورے ملک کو باہم مربوط کر رکھا ہے اور ایک معذرت بھی کرنی تھی کہ آپ ذاتی نوعیت کے سوالات پسند نہیں کرتیں، لیکن پھر بھی آپ نےہمارے سوال کاجواب دےدیا، مایوس نہیں کیا۔ (والدہ محمّد خبیب، تونسہ شریف)

ج:جی، ہم مسلسل اِسی کوشش میں ہیں کہ خطوط کی وصولی اور اشاعت کا وقفہ جس حد تک کم ہوسکتا ہے، کیا جائے۔ اور آپ کا سوال کرنے کا انداز ہی ایسا تھا کہ جواب نہ دینا خاصی بد لحاظی معلوم ہوا۔

خط نہیں، مگر ذکر موجود تھا

اس مرتبہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ آپ نے غائب کردیا، جب کہ ہمیں مولانا رومیؒ کے حصّہ دوم کا بےچینی سے انتظار تھا۔ اگر آپ ’’آدمی‘‘ سلسلہ اگلے ہفتے سے شروع کردیتیں تو کوئی قیامت تو نہ آجاتی۔ خیر، علی احمد کُرد کی ’’گفتگو‘‘ بہت پسند آئی۔ پروفیسر ڈاکٹر غلام علی مندرہ والا نے پیٹ کے امراض سے متعلق بہترین معلومات فراہم کیں۔ ڈاکٹر مریم جاوید کا مضمون بھی معلوماتی تھا۔ پروفیسر سیما ناز صدیقی نے ہمارے ساحلوں پر سونامی کے خطرات سے آگاہ کیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے ذریعے اقصیٰ منوّر ملک نے زبان کو قابو رکھنے کا مشورہ دیا،تو’’متفرق‘‘ میں پروفیسرتقدیس افروز، بیگم سلیم اختر کے احوال سے آگاہ کررہی تھی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات پسند آئے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں گرچہ ہمارا خط شامل نہیں تھا، لیکن ہمارا ذکر ضرور موجود تھا ۔ اور وہ تھا نور الہدیٰ محمّد اسلم کے خط میں، پڑھ کے خوشی ہوئی اور دیکھ لیں، ہماری طرح وہ بھی خادم ملک عرف بےکار ملک کے خطوط پسند کرتی ہیں۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: آپ پسند کریں یا نور الہدیٰ، ہمیں پسند کرنے پر کوئی اعتراض نہیں، مگر کسی چیز کو پسند کرنے کی کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیے۔

سفرِ جریدہ، اصل منزل

’’مجھے آرزو تھی، جس کی وہ پیغام آگیا ہے۔‘‘ 30؍جنوری کا شمارہ اپنے جلو میں ’’اپنے پیاروں کے نام پیغامات‘‘ لیے جلوہ نُما ہوا، تو اس میں ہماری آواز بھی شامل تھی۔ وہ دُعا، جو آپ کے لیے آج تک میرے دل میں تھی، اب یقیناً اس پر قارئین کی ایک بڑی تعداد نے ’’آمین‘‘ کہا ہوگا۔ اور یہی میری دلی خواہش و آرزو تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ؎ وہ بظاہر جو کچھ نہیں لگتے… اُن سے رشتے بلا کے ہوتے ہیں۔ اس بار اپنے صفحے میں شائستہ اظہر کی اعزازی چِٹھی نے کئی دِلوں پر دستک دے کر نہ صرف آنکھیں نم کیں، بلکہ یہ اس بات کا بھی بیّن ثبوت ہےکہ مہربان ایڈیٹردلاسے کے ساتھ دُھندلے عکس نمایاں کرنا اور چمکانا بھی خُوب جانتی ہیں۔ بہرکیف، سفرِ جریدہ آغاز ہوا تو دینی تجلّیوں کی حامل پہلی منزل، مولانا جلال الدّین رومی کی سرگزشت ٹھہری۔ پھر’’صدارتی نظام‘‘ کی گُتھیاں سلجھاتی منور راجپوت کی اَن مول تحریر پر جا رُکے۔ پچھلے شمارے میں اقصیٰ منوّر ملک کے الفاظ ’’رب راضی، تو سب راضی‘‘ نے رُوح جُھنجھنائی۔ اب ناقابلِ فراموش میں ’’رب وہی دیتا ہے، جو سچّےدل سے مانگا جائے‘‘ دل پر اثر کر گیا۔ بے اختیار مالک کے آگے سربسجود ہوگئے۔ یوں تو دنیا جہاں کی سیر کروانے میں میگزین کا کوئی ثانی نہیں، لیکن آج جو بلوچستان کے قدیم شہرِ خموشاں کا نظارہ کروایا، تو قدم جم سےگئے۔ خیر، ہانپتے کانپتے، تھکےماندے،جو پیارے گھر میں جھانکا، تو وہاں پوچھا گیا تھا، ’’آپ تھک کیوں جاتے ہیں؟‘‘ سوال حسبِ حال تھا، سو، فوراً ہی کرسی پر ڈھیر ہوگئے اور حکیم راحت نے جسمانی تھکن اُتارنے کے جو دیسی نسخے و غذائیں تجویز کیں، اُن سے مستفید ہونے لگے۔ بعدازاں، آخری پڑائو ’’آپ کا صفحہ‘‘پر ڈالا کہ اصل منزل تو وہی ہے۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج: آپ کے پیغام اور نیک تمنّائوں کا بےحد شکریہ۔

کراچی سینٹرل جیل کا احوال

’’حالات و واقعات‘‘ میں منورمرزا عالمی عسکری حالات کا پس منظر بتا رہے تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ (تذکرہ اللہ والوں کا) میں مثنوی جیسی زندئہ جاوید کتاب کے مصنّف، مولانا جلال الدّین رومیؒ کا ایمان افروز تذکرہ کیا گیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شفق رفیع سینٹرل جیل کا احوال سُنا رہی تھیں اور کیا ہی خُوب تحریر تھی، پڑھ کے لُطف آگیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مصباح طیّب اور حکیم راحت نسیم سوہدروی کے مضامین، جب کہ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں مقبوضہ کشمیر کے پس منظرمیں لکھا گیا افسانہ بہت ہی پسند آئے۔ (ایم۔اے۔ ثاقب، راول پنڈی)

ج: آپ تبصرے میں مضمون ہی کے مندرجات نقل کرنے کے بجائے اپنی رائے کے اظہار پر زیادہ فوکس رکھاکریں کہ آپ کا یہ خط 90 فی صد ایڈیٹنگ کی نذر آپ کی اِسی خامی کے سبب ہوا۔

راجا کے بجائے اسماء کا راج

شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر خوش ذوق و خوش لباس احسن خان براجمان تھے۔ ویسے خوش ذوق و خوش لباس تو ہم بھی ہیں، مگر کوئی وارڈروب نہیں رکھتے، بس الماری ہی پر گزارہ ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمّد احمد غزالی، مولانا جلال الدّین رومیؒ کی سوانح حیات کی دوسری اور آخری قسط لائے۔ تحریر بہت ہی کمال انداز میں لکھی گئی۔ شفق رفیع سینٹرل جیل کے دورے کی رُوداد سُنارہی تھیں۔ واقعی، اگر ہماری جیلیں اصلاح خانے بن جائیں، تو باہر آنے کے بعد یہ علم و ہنر کے پیکر قیدی معاشرے کے لیے خاصے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مصباح طیّب نے ماں کے دودھ کی افادیت بیان کی۔ حکیم راحت نسیم سوہدروی پالک کے ہمہ گیر فوائد سے آگاہ کررہے تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عالیہ کاشف، احسن خان کےملبوسات، پسند ناپسند کابتارہی تھیں۔ ’’سنڈےاسپیشل‘‘ میں محمّد ارسلان فیاض نے بلوچستان کے دل کش سیّاحتی مقامات کی سیر کروائی۔ ’’آدمی… نیا، پرانا آدمی‘‘ کے عنوان سے عرفان جاوید علم و ادب کی معروف شخصیت ڈاکٹر آصف اسلم فرخی کے حالاتِ زندگی اور ادبی خدمات بیان کررہے تھے، اُن کے اندازِ تحریر کا کوئی ثانی ہی نہیں۔ پہلی قسط ہی نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں عالیہ کاشف ساجد شاہ کا انٹرویو لیے آئیں۔ منور مرزا کے لاجواب تجزیے کی تو کیا ہی بات ہے۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں اختر سعیدی نے منفرد انداز میں بے باک تبصرہ کیا اور اپنے صفحے پر شوخ و چنچل اسماء دمڑ اعزازی مسند پر براجمان تھیں۔ لگتا ہے، اس سال راجا کے بجائے اسماء کا راج ہوگا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)

ج: ہمیں نہیں لگتا، ایسا ہوگا۔ اسماء لااُبالی، مَن موجی سی بچّی ہے۔ مرضی سے آتی جاتی ہے، جب کہ راجا صاحب مستقل مزاج، تجربہ کار اور منجھے ہوئے قلم کار ہیں۔ اُن کے جیسا اس پوری بزم میں کوئی دوسرا نہیں۔

تین ناول لکھ چکی ہوں

ہوں تو ویسے مَیں ناول نگار، لیکن آرٹیکلز اور افسانے بھی لکھتی ہوں۔ مَیں نے دو سال پہلے ایک فیس بُک کے گروپ سے لکھنا شروع کیا اور اب تک تین ناول لکھ چکی ہوں۔ شاعری بھی کرتی ہوں اور میری تحریروں میں وہ نظر بھی آتی ہے۔ ویسے میری تحریروں میں دو باتیں نمایاں نظر آتی ہیں۔ محبّت اور اپنے مقصد کو پانے کی چاہ۔ مجھے کہانیوں میں سسپینس بہت پسند ہے، اس لیے میری کہانیوں میں وہ بھی واضح نظر آتا ہے۔ مَیں ایک ینگ مصنّفہ ہوں اور دسویں جماعت کی طالبہ ہوں۔ اگر آپ مجھے ایک موقع دیں، اپنے میگزین میں ناول لکھنے کا، تو اُمید کرتی ہوں، وہ قارئین کو بہت پسند آئے گا۔ جو ناول مَیں آپ کے میگزین کے لیے لکھنا چاہتی ہوں، اس کا نام ’’داستانِ شیخوپورہ‘‘ ہے اور اُس کی کہانی جبران نامی شخص کے گرد گھومتی ہے جو ایک پولیس آفیسر ہے اور اُس کی پوسٹنگ شیخوپورہ میں ہے۔ (ایمان حینف حنائی، شیخوپورہ)

ج: ایمان! ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ ابھی آپ اپنی تعلیم پر توجّہ دیں اور اگر فارغ وقت میں کچھ لکھنا لکھانا چاہتی ہی ہیں، تو بچّوں کے صفحات کے لیے کہانیاں لکھ لیا کریں۔ ناول نگاری کے لیے ابھی آپ کی عُمر، تعلیم، تجربہ سب ہی بہت کم ہیں اور اس کا اندازہ آپ کی تحریر کی ناپختگی سے بھی بخُوبی لگایا جاسکتا ہے۔

                                         فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اُمید کرتی ہوں، بخیر و عافیت ہوں گی۔ اس سال سوچا تھا، باقاعدگی سے تبصرہ بھیجا کروں گی، لیکن صرف سوچ ہی سکی کہ مصروفیات نے ایسا الجھایا، لکھنے کی کوئی ترتیب ہی نہ بن پائی اور تبصرہ لکھنا تو کُجا، جو آدھی اُدھوری تحریریں لکھ بھیجتی تھی، وہ بھی نہ لکھ پائی۔ خیر، تازہ شمارے میں وحید زہیر کی جوشیلے مقرر، علی احمد کُرد سے کی گئی ’’گفتگو‘‘ بہت دل چسپ تھی۔ واقعی ’’جوشیلے مقرر‘‘ کا خطاب بالکل فٹ بیٹھتا ہے اُن پر۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم کا مضمون ’’گھر ٹوٹنے نہ پائے‘‘ پسند آیا۔ چھوٹے علاقے کی بڑی شخصیت ’’سلیم اختر‘‘ سے بڑی عقیدت محسوس ہوئی کہ جنہوں نے بچّیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے زندگی وقف کر ڈالی۔ 2021ء میں رخصت ہونے والے اہلِ قلم سے متعلق اس کے سوا کیا کہیں کہ ؎ ایک ایک کر کے لوگ بچھڑتے چلے گئے… یہ کیا ہوا جو وقفۂ ماتم نہیں ملا۔ عرفان جاوید کا نیا سلسلہ ’’آدمی‘‘ شروع کرکے آپ نے گویا نئے سال کا تحفہ دے دیا اور یقین کیجیے یہ تحفہ ہمیں بےحد پسند آیا۔ہمارا مضمون بھی شاملِ اشاعت ہے، تو اُسے تو خیر ہم قارئین کے تبصرے کے لیے چھوڑتے ہیں۔ ارے… یہ کیا، ’’میں عافیہ ہوں‘‘ دو مرتبہ شایع ہوگئی۔ طیبہ علی تو بہت خوش ہوگئی ہوں گی، لیکن یقیناً بہت سے قارئین کو اعتراض بھی ہوگا۔ ہم تو یہی کہیں گے ہوجاتا ہے ایسا… غلطی انسان ہی سے ہوتی ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو میگزین کی جان ہے اور بقول عیشاء نیاز رانا ’’پڑھتے ہوئے بہت مزہ آتا ہے۔‘‘ ہماری تحریر ’’دَر توبہ کُھلا ہے‘‘ پر تبصرے بھی موجود تھے اور ہم صرف آپ کو یہ راز کی بات بتا رہے ہیں کہ ان تبصروں کو ہم بڑی محبّت سے میگزین سے کاٹ کر اپنی خاص الخاص ڈائری کی زینت بناتے ہیں، ہاہاہا… 13؍فروری کے میگزین کا مطالعہ ہم نے 21؍ فروری کو مولانا رومیؒ کے بابرکت اور مشک بار تذکرے سے شروع کیا۔ ’’عقوبت خانہ یا مرکزِ اصلاح‘‘ نےقدم قدم بلکہ سطرسطرحیران کیا، تو بلوچستان کے سیّاحتی مقامات نےدل موہ لیا۔ عادت سے مجبور ہوکر کئی بار اِن حسین و دل فریب مقامات کو غور سے دیکھا۔’’لہو رنگ آنکھیں‘‘ آنکھیں نم کرگئی۔ بلاشبہ ؎ شہیدوں کے لہو سے جو زمیں سیراب ہوتی ہے… بڑی زرخیز ہوتی ہے، بڑی شاداب ہوتی ہے۔ ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ اسماء خان دمڑ کے نام رہی۔ اور ہمیں نہ جانے کیوں اُن کا سلامِ شرافت ہی پڑھ کر ہنسی آگئی۔ بالکل یوں لگا، جیسے کوئی لا اُبالی، شرارتی سا بچّہ بلاوجہ شریف بن کر دِکھا رہا ہو، جب کہ اُس نٹ کھٹ بچّے پر شرافت بالکل سُوٹ بھی نہ کرتی ہو۔ شفق رفیع اگلے شمارے میں بھی بڑا باکمال مضمون لائیں، پڑھ کر دل خوش ہوگیا کہ آج کے اس پُرفتن دَور میں بھی ایسے سلیم الفطرت لوگ موجود ہیں، جو دوسروں کی بھلائی کےکام کررہے ہیں۔ ڈاکٹر عاقب معین کا انٹرویو بھی خُوب رہا۔ ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی…‘‘ میں حکمرانوں کو اپنی طرف متوجّہ کرتے، دہائیاں دیتے مضامین نے مختلف مسائل کی طرف توجّہ مبذول کروائی، لیکن ان ارکانِ مملکت کے کانوں پر ذرا جُوں نہیں رینگتی۔ ان پر تو ’’ایں چنیں ارکانِ دولت مُلک را ویران کنند‘‘(اس جیسے حکومت کے ارکان ہوں تو ملک تباہ ہوجاتے ہیں) ہی صادق آتا ہے۔ ’’ناقابلِ اشاعت کی فہرست‘‘ تو ہمیں ہر مرتبہ ’’کھڑک کھینچ‘‘ کی یاد دلا دیتی ہے۔ بچپن میں ہمارے بڑے چچا ہمیں ڈرایا کرتے تھے، گھر سے باہر نہ نکلنا ’’کھڑک کھینچ‘‘ ٹانگ کھینچ لے گی۔ اور ہم مارے ڈر کے کمرے ہی سے باہر نہ نکلتے، مبادا وہ کلموہی ہماری ٹانگ ہی نہ کھینچ لے۔ناقابلِ اشاعت بھی ہمیں بالکل اسی طرح دہلا دیتا ہے کہ کہیں کوئی تحریر اس کھڑک کھینچ نے نہ کھینچ لی ہو۔ الحمدللہ، ان دو سالوں میں ہماری بس دو ہی تحریریں ناقابلِ اشاعت ٹھہریں۔ اور وہ کیا ہے کہ ؎گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں۔ (اقصیٰ منور ملک، صادق آباد)

ج: اقصیٰ! ہمارے یہاں ’’مَیں عافیہ ہوں‘‘ کے عنوان سے تحریر 30؍جنوری کی ایڈیشن میں شایع ہوئی، اس سے پہلے یا بعد میں کبھی نہیں۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ آپ نے تحریر دوبار کن تاریخوں کے ایڈیشنز میں پڑھی تاکہ جو اسٹیشن اس غلطی کا ذمّےدار ہے، اس سے ذرا صحیح سے بازپُرس کی جاسکے۔

گوشہ برقی خطوط

* تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ سلسلے میں مولانا جلال الدین رومی ؒ کی دوسری قسط کیوں شایع نہیں کی گئی۔ (عباس علی قریشی، حیدر آباد)

ج: کچھ ناگزیر وجوہ کی بناء پر ایک ہفتے کا وقفہ دینا پڑا۔ بعدازاں شایع کردی گئی۔ یقیناً آپ نے ملاحظہ بھی فرمالی ہوگی۔

* مَیں صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ کےلیےافسانہ بھیجنا چاہتی ہوں۔ نیز، بچّوں کے صفحے کے لیے بھی کچھ کہانیاں بھیجنے کی خواہش ہے،کیا طریقہ کار ہوگا۔ اور ایک بات اور، آپ ای میل پر جواب کیوں نہیں دیتیں۔ (آسیہ پری وش، حیدر آباد)

ج: ای میل پر براہِ راست کسی کو بھی جواب نہیں دیا جاتا کہ یہ ’’گوشہ برقی خطوط‘‘ اسی مقصد کےلیےمختص کیا گیا ہے۔ سنڈے میگزین میں ’’ڈائجسٹ‘‘ کا صفحہ موجود ہے، اُس کے لیے آپ افسانہ ای میل آئی ڈی پر کمپوزڈ فارم میں بھیج سکتی ہیں۔ لیکن بچّوں کے صفحے کے لیے کہانیاں اِس ای میل ایڈریس پر قطعاً نہ بھیجیں۔ یہ آئی ڈی صرف سنڈے میگزین کے لیے مخصوص ہے۔بڑے رنگین صفحات کے لیے تحریریں اُن ہی پر درج ای میل ایڈریسز پر بھیجیں۔

* مَیں نے آپ کو بسنت کے حوالے سے ایک آرٹیکل بھیجا ہوا ہے۔ قابلِ اشاعت ہو تو شایع کردیں۔ اگر معیار کے مطابق نہیں، تو بھی مطلع فرمادیں۔ (روبینہ قریشی)

ج: جی، ہماری تو پریکٹس ہی یہی ہے۔ تحریر قابلِ اشاعت ہو تو باری آنے پر لازماً شایع کردی جاتی ہے، بصورتِ دیگر’’ناقابلِ اشاعت کی فہرست‘‘ میں نام و عنوان شامل کردیا جاتا ہے۔

* سنڈے میگزین میں انوار علیگی کا کوئی ناول شروع کردیں۔ اخبارِجہاں میں 2012ء یا 2013ء میں جو ناول شایع ہوا، وہی شروع کردیں۔ (آمنہ اسلم، لاہور)

ج: اس مفت مشورے کا بےحد شکریہ۔ ’’اخبارِ جہاں‘‘ ایک یک سر الگ جریدہ ہے۔ اس میں شایع شدہ ناول’’سنڈے میگزین‘‘میں کیوں کرشروع کیاجا سکتا ہے۔ سنڈے میگزین کا اپنا فارمیٹ ہے، اخبارِ جہاں کا اپنا۔

* مَیں نے سنڈے میگزین کا مطالعہ کیا، بہت پسند آیا۔ مَیں بھی اپنی ایک تحریر اِس جریدے میں شایع کروانا چاہتا ہوں۔ مہربانی فرما کرمیری تحریر شایع کی جائے۔ (وسیم چنیوٹی)

ج: اور آپ کی تحریر کیا ہم پر الہام کی صُورت نازل ہوگی۔ جو تحریر اب تک ملی ہی نہیں، اُسے ہم کیسے مہربانی فرما کر شایع کردیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk