• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آنے والی دہائیاں تکنیکی ترقی سے عبارت ہوں گی۔ ہم اگر آج اس طویل اور مشکل سفر پر پیش رفت شروع کردیں تو یہ ہماری معیشت کی بحالی کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ مضمون اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش ہے کہ ہم اس موقع سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ نیز اس میں ناکام رہنے پر ہم عالمی برادری سے مزید پیچھے رہ جائیں گے۔

اب یہ تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ 21ویں صدی کی اگلی دہائیوں میں طویل المدتی پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے جدت طرازی اور انسانی سرمائے اور ہنرمند افرادی قوت کو ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ضروری ہوگا۔ تیل اور گیس کی دریافتوں یا کان کنی کے ذریعے سونے، قیمتی پتھروں، پلاٹینم وغیرہ کی تلاش عام شہریوں کے معیار زندگی میںاب کوئی واضح فرق نہیں ڈال سکتی۔ یہ دریافتیں محض ایک محدود طبقے کے لیے زبردست فائدے کا باعث بنتی ہیں۔ تاہم قدرتی وسائل سے مختصر مدت کے لیے فائدہ اٹھانے کا رجحان غالب رہے گا لیکن ممالک کو جلد یا بدیرایک نئی مسابقتی دنیا سے ہم آہنگ ہونے کے لیے درکار مہارتوں میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔

چاہے ہم اسے علم کی معیشت کہیں، چوتھے صنعتی انقلاب کا نام دیں۔ فرنٹیئر ٹیکنالوجیز کا پھیلاؤ یا تخلیقی صنعتوں کے تیز پھیلائو کے لیے موجودہ دور سے بالکل مختلف مہارتیں رکھنے والی افرادی قوت درکار ہے۔ یو ایس ڈپارٹمنٹ آف لیبر نے اندازہ لگایا ہے کہ اسکول میں زیر تعلیم 65 فیصد بچوں کو بالآخر ایسی ملازمتوں میں لگایا جائے گا جن کی ایجاد ہونا ابھی باقی ہے۔ مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ اور ڈیٹا اینالیٹکس میں پیشرفت علم کا مروجہ طریقہ تبدیل کررہی ہے۔ کم تکنیکی مہارتیں اور معمول کی خدمات کی ضرورت عالمی جاب مارکیٹ میں پہلے ہی کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ آن لائن سیلز یا ٹیکنالوجی کے فریم ورک اور ٹرانزیکشن پلیٹ فارمز کے ساتھ پلیٹ فارم کی معیشتیں یعنی ڈیجیٹل میچ میکرز یا گگ اکانومی(Gig Economy) اپنا راستہ بنا رہی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے 2020 میں کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ ڈیٹا انٹری کلرک، انتظامی اور ایگزیکٹو سیکریٹریز، انتظامی اور تنظیمی تجزیہ کار اور درمیانی سطح کےمنیجرز، سیلز ورکرز، نیوز اینڈ اسٹریٹ وینڈرز، اسمبلی اور فیکٹری ورکرز، اکاؤنٹنٹ اور آڈیٹرز، قانونی سیکریٹریزاب متروک ہوچکے ہیں یا ہونے جارہے ہیں۔ اس کی بجائے مصنوعی ذہانت اورمشین لرننگ، ڈیجیٹل تبدیلی، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور حکمتِ عملی کے ماہرین، ڈیٹا کے تجزیہ کاروں اور سائنسدانوں، بگ ڈیٹا کے ماہرین وغیرہ کی مانگ میں اضافہ ہو گا۔

فکری صلاحیتوں پر مبنی تخلیقی صنعتوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت نے روایتی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (STEM) میں آرٹس جیسے ایڈورٹائزنگ، آرکیٹیکچر، ڈیزائننگ، فیشن، ٹی وی، ویڈیوز اور فلم، موسیقی اور فوٹوگرافی کو بھی شامل کردیا ہے۔ STEM یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، آرٹس اور ریاضی نے پبلشنگ اورپرفارمنگ آرٹس کو نئے تصور سے آشنا کردیا ہے۔ اس کی مثال چین کا شاندار ریکارڈ جو ہر سال STEM مضامین میں 5 ملین گریجویٹ پیدا کرتا ہے، ان مضامین میں 50,000 پی ایچ ڈی تیار کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میںامریکہ میں 34000 پی ایچ ڈی تیار ہوتے ہیں۔امریکہ کی معروف جامعات میں سائنس اور انجینئرنگ کے اعلیٰ شعبہ جات میں سب سے زیادہ گریجویٹ طلباچین کے ہیں۔ سال 2000 تک، امریکہ STEM پی ایچ ڈی کی سالانہ پیداوار میں چین سے بہت آگے تھا۔ا سٹیم کی مکمل تکمیل کا ڈیٹا ابھی تک دستیاب نہیں حالانکہ بی ٹی ایس کورین بینڈ اور بالی ووڈ مشہور ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں 1950 اور 1960 کی دہائیوں کے ابتدائی برسوں میں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیادہ تر طلبا نے سائنس کے مضامین میں داخلہ لیا۔زیادہ تر فیکلٹی ممبران نے آئیوی لیگ کے اسکولوں یا لندن، آکسفورڈ اور کیمبرج سے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ مجھے واضح طور پر یاد ہے کہ حیدر آباد میں واقع سندھ یونیورسٹی، جو میری مادرِ علمی ہے، میں بہت سے نوجوان پرعزم فیکلٹی ممبران تھے جو فزکس، کیمسٹری، ریاضی، زولوجی، جیالوجی، باٹنی میں دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد واپس آئے تھے۔ آج پچاس سال بعد، طلباکے داخلوں کا رخ سائنس کی بجائے کامرس، بزنس اسٹڈیز، اسلامک اسٹڈیز، مقامی زبانوں وغیرہ کی طرف مڑ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قت گریجویٹ بیروزگاری کی شرح سب سے زیادہ ریکارڈ کی جارہی ہے۔ سائنسز، ریاضی اور آئی ٹی جیسے مضامین کے ماہرین مانگ سے کم ہیں۔ ہر سال صرف 25000 طلباء آئی ٹی سے متعلقہ مضامین میں فارغ التحصیل ہوتے ہیں جب کہ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے ہمیں کم از کم 100,000کی ضرورت ہے۔ ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں سائنس اور ریاضی کے اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں۔ طالب علموں کوا سٹیم مضامین کی طرف راغب کرنے کے لیے باصلاحیت طلبہ کو ڈگری اور گریجویٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لبرل اسکالرشپ دی جانی چاہیے اور خاص طور پر طالبات پر ان شعبہ جات میں آنے کے لیے زور دیا جانا چاہیے۔ ہمارے سائنس کے شعبوں میں موجود بہت کم فیکلٹی ممبران اعلیٰ غیر ملکی یونیورسٹیوں اور مقامی اداروں جیسے قائد اعظم یونیورسٹی، لمز،نسٹ یا غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ سسے فارغ التحصیل ہیں۔ یقیناًیونیورسٹیوں کا پھیلاؤ ہوا ہے اور ان کی تعداد 220 سے تجاوز کر گئی ہے جو تیسرے درجے کی تعلیم تک رسائی کے لحاظ سے قابل تعریف ہے۔ تاہم، اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنی عمارتوں یا فیکلٹی کو مالیاتی ترغیب دینے یا طاقت اور انتظامی عہدے رکھنے یا نقل شدہ مواد سے اشاعتیں بڑھانے سے مشہور نہیں ہوتے۔ کارکردگی کے اشاریے یہ نہیں ہیں کہ کتنے نئے محکمے، ادارے یا مراکز بنائے گئے ہیں۔ دیکھا یہ جانا ہے کہ ان کے کام سے ملک کو درپیش سماجی اور معاشی مسائل حل ہوئے؟ جدید علوم کی ترویج میں ان کی کیا اہمیت ہے؟ صنعت اور جامعات کے درمیان کیسا تعاون ہے؟کتنی زرعی یونیورسٹیوں نے بیج کی نئی قسمیں پیداکی ہیں؟ کاشت کاری کی تکنیک اور طریقے وضع کیے ہیں، ان کی جانچ کی ہے اور کسانوں کو ان کے متعلقہ اضلاع میں ان سے استفادہ کرنے کے قابل بنایا ہے؟ ضروری ہے ایچ ای سی، فل برائٹ اور دیگر اسکالرشپ پروگراموں کے ذریعے نوجوان فیکلٹی اور اسکالرز کو امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور جرمنی کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں، پوسٹ گریجویٹ فیلو شپس، اسٹیم کے مضامین میں اسکالر پروگراموں کی اہلیت حاصل کرنے کیلئے تیار کیا جائے۔( جاری ہے)

تازہ ترین