زیادہ پرانی بات نہیں گزشتہ برس فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کے خلاف تحریک لبیک والوں کا دھرنا جاری تھا،اہم مطالبہ صرف یہی تھا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے، حقیقت میں دیکھا جائے تو پاکستان کے بائیس کروڑ مسلمان حرمت رسول ﷺ کے لیےکسی بھی حد تک جانے کے لیےتیار رہتے ہیں اگر اس وقت شان رسول ﷺ کے لیے فرانس کے سفیر کو عوامی دبائو پر ملک بدر کر بھی دیا جاتا تو شاید اس عمل پر حکومت کوپوری قوم کیحمایت حاصل ہوجاتی، اور شاید اس عمل سے عالمی سطح پر پاکستان کو نقصان بھی اٹھانا پڑتا لیکن اس وقت عوام کی خواہشات پر مبنی فیصلے کے ثمرات آج عمران خان کو عوامی حمایت کی صورت میں حاصل ہو جاتے، لیکن اس وقت انہوں نے قوم سے خطاب کیا اور عوام کو بتایا کہ آج اگرہم نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کردیا تو فرانس کو اس فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن پاکستان سے یورپی یونین کے تعلقات شدید خراب ہوجائیں گے، جس کے نتیجے میں پاکستان جس کی آدھی ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹس جن کا حجم اربوں ڈالر میں ہے وہ یورپی یونین کو جاتی ہیں وہ ختم ہوجائیں گی، جس سے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا، پاکستان کی آدھی ٹیکسٹائل فیکٹریاں بند ہوجائیں گی، بڑی تعداد میں عوام بے روزگار ہوجائیں گے، پاکستان عالمی سطح پرتنہا رہ جائے گا، لہٰذا حکومت ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرے گی جس سے پاکستان کو سیاسی و معاشی سطح پر نقصان اٹھانا پڑے اور پاکستان عالمی برادری میں تنہا رہ جائے، ان کی اس تقریر کے بعد ملک بھر میں تحریک لبیک کے دھرنو ں پر حکومتی ایکشن ہوا، ریاستی طاقت استعمال کی گئی، کئی پولیس اہلکار اور شہری ہلاک اور زخمی ہوئے اور کئی ماہ تک تحریک لبیک کے رہنمائوں اور کارکنوں کو گرفتار رکھا گیا، یہ ایک حکومتی فیصلہ تھا پاکستانی عوام نے اس فیصلے کو قبول کیا، وقت آگے بڑھا اور 2022 کا سال شروع ہوا، اپوزیشن جو اس حکومت کو پہلے دن سے ہی تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی اور ان پر سلیکٹڈ ہونے اور
دھاندلی کے ذریعے حکومت میں آنے کے الزامات لگاتی رہی اسے جب احساس ہوا کہ ریاست اب ملکی سیاست میں نیوٹرل ہوچکی ہے لہٰذا تحریک انصاف کی حکومت جو عام انتخابات میں دوتہائی اکثریت کی بدولت نہیں بلکہ اتحادی جماعتوں کی مدد سے حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی تھی، گزشتہ ساڑھے تین سال میں مہنگائی، بیڈ گورننس کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے لہٰذا پارلیمنٹ میں تحریک ِعدم اعتماد کے سیاسی عمل کے ذریعے اس حکومت کو رخصت کیا جائے، پھر جیسے ہی پارلیمنٹ میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی، عوام نے دیکھا کہ انہوں نے عوامی جلسوں میں خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ تو چاہتے ہی یہ تھے کہ اپوزیشن ایسا کوئی عمل کرے اور وہ اسے شکست فاش دیں لہٰذا اب اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنے ہی جال میں پھنس چکی ہے لیکن پھر جیسے جیسے حکومت کے اپنے اراکین اور اتحادی حکومت سے الگ ہونا شروع ہوئے، وزیر اعظم کی پریشانی میں اضافہ ہونے لگا، پھر عمران خان عوامی جلسوں اور ٹی وی کے ذریعے عوام سے براہ راست خطاب کرنے لگے، وہ خطاب تو عوام سے کررہے ہوتے تھے لیکن مددکسی اور سے طلب کررہے ہوتے تھے اور جب وہ ہر جگہ سے مایوس ہوگئے تو انھوں نے اچانک ایک نیا اور خطرناک بیانیہ تشکیل دے کر قوم اور ریاست کو حیران کردیا، انھوں نے ایک کاغذ دکھا کر عوام کو بتایا کہ امریکہ ان کی حکومت ختم کرنا چاہتا ہے جس کے لیےاپوزیشن کو اپنے ساتھ ملا کر تحریک عدم اعتماد کا کھیل کھیلا گیا ہے، لیکن ان کے اس بیانیے کی حقیقت کو نہ امریکہ، نہ ریاست اور نہ ہی اپوزیشن جماعتیں تسلیم کرنے کو تیار ہیں، لیکن دوسری جانب جو وزیر اعظم ناموس رسالت ﷺ کے لیےملکی مفادات کے نام پر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کو تیار نہ تھا، آج اپنی حکومت کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے امریکہ کی سازش کے غیر حقیقی بیانیے کو جس طرح پھیلا رہے ہیں وہ ریاست اور عوام کےلیے بہت خطرناک ہے، کیونکہ امریکہ مخالف بیانیے سے امریکہ کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن پاکستان جو معاشی اور دفاعی طور پر امریکہ سے بہت زیادہ جڑا ہوا ہے اسے اس بیانیے سے غیر معمولی نقصان ہوسکتا ہے، لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ ریاست اور قوم کی قیمت پر سیاست سے گریز کریں تو بہتر ہوگا۔