کہنے کو تو پاکستان کی قومی زبان اردو ہے مگر حیران کن حد تک عام پاکستانیوں کی زبان یہ نہیں ہے۔ اس ملک کے تمام تر معاہدے اور سرکاری امور انگریزی زبان میں ہی انجام پاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمسایہ ملک بھارت میں 100سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن بھارت کی قومی زبان کوئی بھی نہیں بلکہ دو سرکاری زبانیں ہندی اور انگریزی ہیں جبکہ 20دیگر زبانوں کو بھی سرکاری حیثیت حاصل ہے لیکن موقع کی مناسبت سے انگریزی اور ہندی میں ہی سرکاری امور انجام دیے جاتے ہیں۔
ترکی زبان کے لفظ اُردو کا مطلب لشکر ہے حالانکہ اس زبان کی ابتدا سے متعلق متضاد آرا پائی جاتی ہیں لیکن ان سب میں ایک بات جو مشترک ہے یہ کہ جنوبی ایشیا میں اُردو کا آغاز برصغیر میں مسلمان فاتحین کی آمد کے بعد ہوا۔ اس کی تاریخ اور افادیت سے متعلق تو دفتر لکھے جا سکتے ہیں لیکن ماضی قریب کا حوالہ یوں ہے، مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے حکم دیا کہ ایک ایسی نئی زبان متعارف کرائی جائے جو سب کی سمجھ میں آئے چنانچہ جب تمام فوجیوں کو اردو زبان کی تربیت دی گئی تو اسی مناسبت سے اردو کو لشکری زبان کہا جانے لگا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عربی، فارسی اور ترکی زبان کی آمیزش سے جدید اردو کا آغاز دہلی سے ہوا اور آج دنیا بھر میں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں اردو پہلے 20نمبروں میں آتی ہے اور کم و بیش اسے آٹھ کروڑ سے زیادہ لوگ بولتے ہیں اور اگر ہندی اور اردو کو ایک ہی سمجھ لیا جائے تو یہ دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر آتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر اردو پاکستان کے تمام صوبوں میں سرکاری حیثیت کی حامل ہے تو پھر اسے لکھنے اور بولنے میں شرمندگی کیوں؟ مجھے خود یہ مشاہدہ کئی دفعہ ہوا جب پاکستان سے برطانیہ کے دورے پر آنے والے کئی ایک وزرائے اعظم و صدور اور دیگر وزرا جو انگریزی کی تھوڑی بہت شُد بُد رکھتے ہیں، کسی ایسی تقریب میں بھی انگریزی کے کان مروڑنے شروع کر دیتے ہیں جہاں 95فیصد اور بسا اوقات 100فیصد پاکستانی موجود ہوتے ہیں، چنانچہ ایسے ماحول میں بھی بےوجہ انگریزی بولنا احساسِ کمتری کی نشانی کے سوا کچھ نہیں اور اس حقیقت کا غماز بھی کہ یہ لوگ اپنی قومی اور مادری زبانوں میں اظہار سے کس قدر شرمندگی یا نفرت محسوس کرتے ہیں۔ دنیا کی مہذب قوموں کیلئے ان کی قومی یا مادری زبانیں صرف اظہار کا ذریعہ ہی نہیں ہوتیں بلکہ ان کا فخر اور غرور بھی ہوا کرتی ہیں، آپ یورپ کے 28ملکوں میں چلے جائیں، کسی سے انگریزی میں بات کریں تو وہ انگریزی کی بجائے اپنی زبان میں ہی گفتگو کو ترجیح دیتا ہے، چاہے اسے انگریزی سے واقفیت ہی کیوں نہ ہو۔ چین، روس، جاپان، لاطینی امریکہ کے کئی ایک ممالک اور تمام یورپی ممالک بین الاقوامی سطح کے فورمز پر اپنی اپنی زبانوں میں گفتگو کو باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زبان میں تقریر کرتے ہیں اور مترجم اس کا ترجمہ وہاں بیٹھے مختلف زبانیں بولنے والے سینکڑوں افراد کیلئے کرتے ہیں، تو کیا ایسا کرنے سے ان رہنماؤں کا قد چھوٹا ہو جاتا ہے؟
درست ہے کہ بدقسمت اقوام پر چاروں طرف سے نفرین اور توہین آمیز رویے حملہ آور ہوتے ہیں جس طرح پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن ملک کے اندر بھی 98فیصد سرکاری خط و کتابت انگریزی میں ہوتی ہے۔ اسی طرح پنجابی زبان جو تاریخی طور پر انتہائی قدیم حروف تہجی کے اعتبار سے بھی انتہائی فصیح اور بولنے سمجھنے کے لحاظ سے بھی بڑی زبان ہے اور مستزاد یہ کہ دنیا میں پنجابی بولنے والے افراد پندرہ کروڑ سے زیادہ ہیں، یہ بیک وقت ہندو مت، سکھ مت، اسلام اور مسیحیت کے ماننے والے بھی سمجھتے اور بولتے ہیں اور سنیے اور سر دھنیے کہ دنیا میں اگر پنجابی بولنے والے 15کروڑ لوگ ہیں تو ان میں دس کروڑ صرف پاکستان میں ہیں لیکن وائے ری قسمت کہ پاکستانی پنجاب میںبسنے والے پنجابیوں کی کثیر تعداد اپنی زبان میں گفتگو کرنا اپنی توہین خیال کرتے ہیں۔ ایسےلوگ پنجابی پر اردو اور اردو پر انگریزی کو فوقیت دے کر خود کو ماڈرن اور پڑھا لکھا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
قارئین کی معلومات کیلئے یہ حقیقت بھی عرض ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بھی پنجابی ہے جو کہ ملک میں 55فیصد افراد کے اظہار کا ذریعہ ہے اور اگر پاکستان میں بولی جانے والی شاہ مکھی پنجابی اور بھارتی پنجاب کی گرمکھی پنجابی کو ملا لیا جائے تو پنجابی زبان کا حجم مزید بڑھ جاتا ہے۔ گرمکھی پنجابی کی قسمت اچھی ہے کہ یہ بھارتی پنجاب کی سرکاری زبان کے درجے پر فائز ہے جبکہ پاکستان پنجاب کی بدقسمت شاہ مکھی پنجابی صرف نام کی ’’شاہ‘‘ ہے حالانکہ شاہ کی حالت شاہ کے چوبداروں سے بھی حقیر تر ہے، چنانچہ سرکاری پشت پناہی نہ ہونے کی وجہ سے پنجابی زبان زوال پذیر اور کم ترین درجے پر فائز ہے، حالت یہ ہو چکی ہے کہ پنجابی بھی اپنی مادری زبان میں گفتگو کرنا اپنی توہین خیال کرتے ہیں۔ پنجاب کے عام گھروں میں بھی نئی نسل اردو یا انگریزی میں گفتگو کرتی ہے اور ایک انتہائی بےوزن سا استدلال یہ دیا جاتا ہے کہ جناب! آج کل یہی رواج ہے حالانکہ کوئی 30سال پہلے پنجاب میں اس قسم کی صورتحال نہیں تھی۔ گھروں میں والدین اور بچے اپنی مادری زبان پنجابی میں ہی گفتگو کرتے تھے۔
بھارتی پنجاب کے سکھوں نے اپنی ماں بولی کو دنیا میں قد آور کرنے اور اس کی توقیر میں اضافہ کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ لوگ ڈھول اور بھنگڑے کے ذریعے پنجابی زبان کو امارات، یورپ، امریکہ اور لاطینی امریکہ تک لے گئے ہیں، ادھر پاکستان میں پنجابیوں کی صورت کچھ یوں ہے کہ یہ لوگ بابا فرید گنج شکرؒ، سلطان باہوؒ، شاہ حسینؒ اور بابا بلھےؒ شاہ جیسےصوفی بزرگوں کو بھی بھول گئےجنہوں نے پنجابی ہوتے ہوئے پنجابی زبان کو ہی اپنےاظہار اور بے مثل کلام کا ذریعہ بنایا، المیہ یہ بھی ہے کہ پنجابی ہیر رانجھا اور سسی پنوں جیسی شہرہ آفاق تحاریر کو بھی فراموش کر چکے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ آج انگریزی زبان بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے، اس لیے اس پر عبور ہونا بھی ضروری ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنی زبان کو گونگا بنا دیا جائے؟ ہمارا حال تو یوں ہے کہ
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں