• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

معلومات وتفریح کا پیکیج

’’سنڈے میگزین‘‘ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ ہر ہفتے قارئین کے لیےمعلومات وتفریح کا پورا پیکیج لیے آتا ہے۔ کئی صفحات، سلسلے انتہائی شان دار ہیں، جنہیں پڑھ کرہم بہت لُطف اندوزہوتے ہیں۔ خصوصاً پیارا گھر، کہی اَن کہی، آپ کا صفحہ، ایک پیغام، پیاروں کے نام، ڈائجسٹ اور ناقابلِ فراموش تو میرے مَن پسند سلسلے ہیں۔ ( شری مرلی چندجی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

تڑاخ، تڑاخ کی آوازیں

کچھ عرصہ قبل آپ نے بجھارت ڈالی تھی کہ ’’دَھن پربھانیاں نےجیہڑیاں سرھانے رکھ کے سوندیاں نیں‘‘ مَیں نے درست جواب دیا، لیکن انعام میں موٹر سائیکل نہ جیت سکا۔ خیر، آپ کی تعریف و توصیف بھی کسی قیمتی انعام سے کم نہیں۔ وہ شمارہ بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ ویسے مَیں آپ کے اخبار کا مستقل قاری ہوں۔ ذاتی مصروفیات کے باعث خیالات وجذبات کے اظہار سے قاصر رہتا ہوں۔ کئی دفعہ سوچتا بھی ہوں کہ اِس دفعہ تو ضرور لکھوں گا، لیکن پھر نہیں لکھ پاتا۔ آج جو شمارہ سامنے ہے، اُس کی ماڈل پر نظر پڑتے ہی چونک سا گیا اور سوچنے لگا کہ یہ مُلک جہاں اور ہزارہا نعمتوں سے مالا مال ہے، وہاں حُسن کی بھی کوئی کمی نہیں۔ آپ کےحُسنِ انتخاب کی بھی داد دیتا ہوں۔ ماہرِمعاشیات محمّد منیر احمد کا انٹرویو بہت معلوماتی تھا۔ منور مرزا کا تجزیہ تو غلط ثابت ہوگیا کہ یوکرین سے جنگ کے سائے چھٹنے کے بجائے وہاں توباقاعدہ جنگ کا آغاز ہوگیا۔ ہندکو زبان سے متعلق مضمون بہت اچھے انداز میں تحریر کیا گیا۔ عرفان جاوید کا سلسلہ ’’آدمی‘‘ سابقہ سلسلہ جات کی طرح اپنی مثال آپ ہے۔ موصوف جب آتے ہیں، یک سر نئے ہی انداز سے آتے ہیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سلطنتِ عمّان کی سیر بھی اچھی لگی۔ ہاں، ایک تجویز ہے کہ منور راجپوت کو نئی کتابوں پر تبصرے کی ذمّے داری مستقل سونپ دیں، تو اچھا ہے، کیوں کہ ماشاء اللہ وہ تبصرہ نگاری پر خُوب دسترس رکھتے ہیں۔ آپ کے صفحے کے تو کیا ہی کہنے۔ بس، جوابات پڑھتے پتا نہیں ’’تڑاخ، تڑاخ‘‘ کی آوازیں کہاں سے آتی ہیں۔ (ملک نور محمّد سرفرازایڈوکیٹ، لاہور)

ج: وکلاءگردی‘‘ تو اب باقاعدہ اصطلاح کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ آپ کو سمجھ نہیں آئی کہ ’’تڑاخ، تڑاخ‘‘ کی آوازیں کہاں سے آتی ہیں، حیرت ہے۔ منور راجپوت کی جریدے کی تیاری کے سلسلے میں اور بہت ذمّے داریاں ہیں، اُنہیں صرف تبصرہ نگاری کے لیے مخصوص کردیں گے، تو ہر ہفتے آپ تک شمارہ پہنچنا ہی ناممکن ہوجائے گا۔

دل چسپ اندازِ نگارش

رواں ہفتے کا شمارہ بہت دل کش ٹائٹل کے ساتھ ظہور پذیر ہوا۔ جریدے کی تیاری میں اپنا اپنا حصّہ ڈالنے والے تمام تر لکھاریوں کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں۔ آپ نے میرا مراسلہ اور غزل شایع کرکے تو میری خوشی دوبالاکردی۔ مَیں روزنامہ جنگ کا بچپن ہی سے شیدائی ہوں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ ایک بہترین سلسلہ ہے۔ کتابوں سے بہت محبت، گہرا لگائو ہے۔ کوئی اچھی کتاب ہو تو خرید کر پڑھتا بھی ہوں۔’’عالمی افق‘‘ پر منور مرزا کی بڑی گہری بلکہ وسیع نظر ہے۔ انہوں نے ’’فرانس میں صدارتی انتخابات کی بساط‘‘ کے عنوان سے لاجواب تجزیہ پیش کیا۔ ’’انٹرویو‘‘ کے صفحات پر منور راجپوت کا ڈاکٹر عاقب معین کی عمدہ صلاحیتوں سے متعارف کروانا بھی لائقِ تحسین ٹھہرا۔ شفق رفیع نے’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں سی ایس ایس کارنر کے چراغوں سے خُوب چراغاں کیا۔ عرفان جاوید میرے پسندیدہ ترین لکھاری ہیں۔ ’’آدمی‘‘ کے صفحے پر ڈاکٹر آصف اسلم فرخّی سے متعلق اُن کے دل چسپ اندازِ نگارش کے کیا ہی کہنے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس بھی خُوب جارہا ہے۔ محمّد ہمایوں ظفر ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ اچھے انداز سے مرتّب کرتے ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘،’’ناقابلِ فراموش‘‘ سلسلوں کا بھی جواب نہیں۔ (صدیق فن کار، کلمہ چوک، عسکری اسٹریٹ، جھاورہ، راول پنڈی)

ج:آپ کے اندازِ نگارش سے ہمیں ایک ہی شکایت ہے کہ آپ حاشیہ، سطر، چھوڑنے کی زحمت نہیں کرتے۔ سو، خط کی ایڈیٹنگ اِک معرکہ سَر کرنے کے مترادف ہوجاتی ہے۔

ذرا سی زحمت

اُمید ہے، بخیریت ہوں گی۔ دیکھیے، نیا سال شروع ہوتے ہی وقت نے کیسے فرّاٹے بھرنے شروع کردئیے ہیں۔ ابھی کل جنوری میں قدم رکھا تھا کہ آج مارچ آن ٹپکا اور مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہر طرف مارچ ہی مارچ شروع ہوگیا۔ سیاست دانوں کی خرمستیوں کا مارچ اور غریب عوام کا بھوک مارچ۔ خدا کرے کہ مہینہ خیریت سے گزر جائے اور آنے والا وقت بھی۔ بس ہر ہفتے اخبار اور میگزین کا شدّت سے انتظار رہتا ہے کہ جو درست حالات سے آگاہی دے۔ یوں تو یہ فرض سوشل میڈیا بھی انجام دےرہا ہے، مگر اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک تحریر ’’پارس اور فارس‘‘ کے عنوان سے بھیج رہا ہوں۔ تین چار ماہ قبل سنڈے میگزین کے ’’گوشہ برقی خطوط‘‘ میں کسی قاری نے پارسیوں اور زرتشتوں کےبارے میں جاننے کی فرمائش کی تھی۔ میرے پاس اُن سے متعلق کچھ مواد اورمعلومات موجود تھیں، لکھ کر آپ کی نذر کررہا ہوں، آگے آپ کی مرضی۔ سنڈے میگزین اچھاجارہا ہے، تمام مستقل لکھاری پوری تن دہی سے اپنا اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ مجھے کرن عباس کرن کا ناول دُھندلے عکس‘‘ بہت پسند آیا، بڑی منفرد قسم کی تحریر تھی، لیکن اس کا انجام وہی روایتی سا رہا کہ ’’سب مل جُل کر ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘۔ منور راجپوت ویسے تو ہر موضوع پر بہت عمدہ قلم آرائی کرتے ہیں، مگر کتابوں پر تبصرہ تو کیا ہی کمال ہوتا ہے کہ کتاب سے متعلق اتنی معلومات حاصل ہوجاتی ہیں، پھر کتاب کی عدم دست یابی کے باعث پڑھ نہ پانے کا افسوس بھی نہیں رہتا۔ آپ سے اپنے ہر خط میں مصنّفین، ناشرین وغیرہ سے رابطے کےلیے اُن کے فون نمبرز لکھنے کی درخواست کرتا ہوں، مگر آپ ہربار نظرانداز کردیتی ہیں۔ حالاں کہ اس ذرا سی زحمت سےکتاب کی فروخت میں خاصا اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایک اور بات پوچھنی تھی، کافی عرصےسےمحمود میاں کی کوئی تحریر دیکھنے میں نہیں آرہی۔ خدا کرے، خیریت سے ہوں۔ اور ہاں، ایک معروف نعت ’’یامحمدﷺ نورِ مجسّم یا حبیبی یا مولائی۔‘‘ کی عرصے سے تلاش ہے۔ مہربانی فرماکر میگزین میں شایع کردیں۔ (ایم۔ بی۔ تبسّم، طارق روڈ، کراچی)

ج: محمود میاں غالباً اپنی کتاب کی تیاری کے سلسلے میں مصروف تھے۔ جب بھی کچھ لکھ کے بھیجیں گے، شایع کردیا جائے گا۔ جریدے میں کسی کے بھی فون نمبر کی اشاعت ادارے کی پالیسی کے خلاف ہے، خواہ وہ کوئی باقاعدہ مصنّف ہو، عام لکھاری یا نامہ نگار۔ اسی لیے آپ کی درخواست پر بھی غور نہیں کیاجاتا کہ جو معاملات ہمارے اختیار میں ہوتے ہیں، ہم صرف اُن ہی سے متعلق کسی پیش رفت کا وعدہ کرتے ہیں۔ رہا آپ کا مضمون، تو آپ نے بہت عُمدگی سے قلم بند کیا۔ اِن شاء اللہ جلد شایع ہوجائے گا۔ جس نعت کی اشاعت کی آپ نے درخواست کی، اُس کے شاعر ادیب رائے پوری ہیں۔ نعت انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ آپ پہلا مصرع ٹائپ کریں، پوری نعت سامنے آجائے گی۔ بہرحال ہم یہاں4 اشعار تحریرکررہےہیں ؎ یامحمّدﷺ نورِ مجسم یاحبیبی یامولائی…تصویرِ کمالِ محبّت، تنویرِ جمالِ خدائی…تیرا وصف بیاں ہو کس سے، تیری کون کرے گا بڑائی…اس گردِ سفر میں گُم ہے، جبریلِ ؑ امیں کی رسائی…تیری ایک نظر کے طالب، تیرے ایک سخن پہ قرباں…یہ سب تیرے دیوانے، یہ سب تیرے شیدائی… یہ رنگِ بہارِ گلشن یہ گُل اور گُل کا جوبن…تیرے نورِ قدم کا دھوون، اس دھوون کی رعنائی۔

جداگانہ اندازِ تبصرہ نگاری

آپ کی خدمت میں دو کتابیں تبصرے کے لیے بھیج رہا ہوں۔ جلد تبصرہ شایع فرمادیں گی، تو ممنون رہوں گا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ کا صفحہ پڑھتے اکثر شفیع عقیل صاحب کی یاد آجاتی ہے۔ مرحوم کی تبصرہ نگاری کا انداز ہی جداگانہ تھا۔ (خالد چوہدری، اُردو بازار، لاہور)

ج: جی بےشک، ایسا ہی تھا۔ آپ کی بھیجی گئی کتابوں پر تبصرہ کردیا گیا ہے، جلد شایع ہوجائے گا۔

’’سرپرائز ڈے‘‘ سے5دن کی دُوری

ڈئیر ایڈیٹر صاحبہ! 20؍فروری کا میگزین ہاتھ میں ہےاورسامنے’’آپ کا صفحہ‘‘ ہے۔ پاکستان کے مانچسٹر سے اس بار بھی وکٹری اسٹینڈ (چِٹھی اسٹینڈ) پر محمّد سلیم راجا کا نام جگمگا رہا ہے۔ خادم ملک کیوں غیرحاضر ہیں، خیریت؟ ویسے خادم ملک کے خطوط ہم اُس وقت سے پڑھ رہے ہیں، جب میگزین میں ہم صرف رنگ برنگے مارکرز سے ماڈلز کا میک اپ کیا کرتے تھے۔ اسماء نے کسی کے نام پیغام اس لیے نہیں بھیجا کہ کوئی اُن کے نام تو بھیجتا نہیں ہے (ہم نے بھی اِسی وجہ سے کسی کے نام پیغام نہیں بھیجا تھا…ہاہاہا) ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں شائرین اسلم کی تحریر ’’پیاری ننّا‘‘ بہترین تھی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی ماڈلنگ بھی بہتر تھی۔ خلائی سائنس دان کا انٹرویو سائنسی معلومات سے بھرپور اور دل چسپ تھا، خاص طور پر اُن کی یہ بات پڑھ کر تو دل خوش ہوگیا کہ اگلے چند برسوں میں لوگ خلا میں گھوما پھرا کریں گے، لیکن اُڑن طشتریوں کا معمّا حل نہ ہوسکا۔ ہم تو اُڑن طشتریوں سے متعلق متجسّس ہیں۔ عرفان جاوید کے قلم سے جاری نیا سلسلہ ’’آدمی‘‘ زبردست ہے۔ ویسے اُن کا ہر سلسلہ ہی میگزین کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ کیا اعلیٰ لکھتے ہیں، لاجواب، ہر لفظ تحریر میں نگینے کی طرح فٹ نظر آتا ہے۔ عالمی افق میں جہاں تک بات ہے فرانس کے صدارتی انتخابات کی، تو ہمارا خیال ہے، میکرون دوبارہ اِن ہوسکتے ہیں (ویسے بھاڑ میں جائے فرانس ہماری طرف سے) ارے ہاں، ناول تو ختم ہوگیا اور ہمہیں پتا بھی نہ چلا، لیکن اچھا ہوا،شاید جس اتوار ناول کی آخری قسط آئی، اُس دن ہمارے گھر میگزین ہی نہیں آیا تھا۔ شُکر ادا کیا کہ ایک قسط پڑھنے سے بچ گئے۔ (لیکن ہمیں یہ تھوڑا ہی پتا تھا کہ جو قسط مِس ہوئی ہے، وہی آخری تھی… ہاہاہا)۔ ’’سرپرائز ڈے‘‘ سے محض پانچ دن کی دُوری پر لکھا جانے والا یہ خط اب خدا جانے کب شایع ہوگا۔ (نور الہدیٰ محمّد اسلم، جھڈو، وادئ مہران)

ج: دوسرے ’’سرپرائز ڈے‘‘ کے کچھ روز بعد۔ خیر سے ہم ایک ایسی شان دار مملکت کا حصّہ ہیں کہ جہاں سرپرائزز ملنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

تحریروں کا انتظار رہتا ہے

20؍فروری کے سنڈے میگزین میں اس ہفتے کی منتخب چِٹھی کے تحت محمّد سلیم راجہ نے گزشتہ سال کی مختلف اشاعتوں کا بھرپور تجزیہ پیش کیا، جس میں بلوچستان کے نام وَر لکھاری، نور خان محمّد حسنی سے متعلق کچھ اس طرح ریمارکس دئیے کہ ’’اکتوبر میں وکیلِ بلوچستان، نور خان محمّد حسنی بلوچی روایتی کھانوں کی عجب مہک سے گجب ڈھاگئے‘‘ جو ہمیں بہت پسند آئے۔ نور خان بلوچستان کی تہذیب و ثقافت سے بہترین واقفیت رکھنے والے لکھاری ہیں، اُن کی تحریروں سےبلوچستان کی حقیقی تصویر دکھائی دیتی ہے، مگر کچھ عرصے سے اُن کی تحریریں کم نظر آرہی ہیں، حالاں کہ لوگ اُن کی تحریروں کا اسی طرح انتظار کرتے ہیں، جیسے ہم کسی زمانے میں پی ٹی وی کے سنہرے دَور کے ڈراموں کی اگلی قسط کا انتظار کرتے تھے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اُن کی زیادہ سے زیادہ تحریریں شاملِ اشاعت کیا کریں۔ (شگفتہ سمالانی، پنج گور)

ج: ایڈیٹر جنگ، کوئٹہ کے توسّط سے کوئٹہ اسٹیشن سے جن لکھاریوں کی بھی تحریریں موصول ہوتی ہیں، ترجیحاً شایع کردی جاتی ہیں۔ خود ہمیں کوئی اسائنمنٹ دینا ہو، تو اُس کے لیے بھی کسی مخصوص نام پر اصرار نہیں کیا جاتا، صرف کام بتایا جاتا ہے۔ یہ مقامی ایڈیٹر ہی جانتا ہے کہ وہ کس سے کیا کام بہتر طور پر لے سکتا ہے۔ پتا نہیں، آپ کا خط پڑھ کے کیوں گمان ہوا کہ شاید آپ حسنی صاحب کی پی آر او ہیں۔

معیار بلند کریں

یہ کیا بات ہوئی، اسٹائل کے صفحات پر احسن خان کیوں موجود تھے۔ احسن خان کی وارڈروب تو ایک بار پہلے بھی’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر جگہ پاچُکی ہے، تو دوبارہ یہ مہربانی کیوں۔ کیا آپ لوگوں کو احسن خان کے علاوہ کوئی اور اداکار نہیں ملتا ہے۔ کیا سنڈے میگزین احسن خان نے خرید لیا ہے۔ ارے بھئی، کچھ محنت کیا کریں، نئے لوگوں سے رابطہ کریں۔ احسن خان کے علاوہ بھی پاکستان میں بہت فن کار ہیں، اُن کو بھی سنڈے میگزین میں جگہ دیں اور براہِ مہربانی سنڈے میگزین کا معیار تھوڑا بلند کریں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: تھوڑا سا معیار تو آج آپ کے خط کی اشاعت کے بعد بلند ہو ہی گیا ہوگا۔ نہیں…؟؟ احسن خان ورسٹائل اور بےحد مقبول فن کار ہیں۔ اُن کو اب پبلسٹی کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں اور اُن کی وارڈروب ہم نے اپنی ضرورت اور جسٹ فار چینج شایع کی، نہ کہ اُن کی تشہیر کے لیے۔

                          فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

6مارچ کا شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق کی ماڈل شاید شعبان کا چاند دیکھ رہی تھی۔ ’’فیچر‘‘ میں رئوف ظفر ویڈیو گیمز کے ہوش رُبا نقصانات سے آگاہ کررہے تھے، اگرچہ کچھ فوائد بھی ہیں، مگر جوش میں اندھے نوجوانوں کو وہ کم ہی نظر آتے ہیں۔ اساتذہ اور والدین کو اس طرف خاص توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں شفق رفیع معروف سوشل ورکر، کلثوم فرمان سے بات چیت کر رہی تھیں، جو گلگت بلتستان جیسے پس ماندہ علاقے میں تعلیم کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے یوکرین پر حملے کے بعد روس پر مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کے نقصانات کا تجزیہ پیش کیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں روبینہ فرید عورت کی عظمت کا تذکرہ لائیں۔ واقعی، مغرب نے تو عورت کو شمعِ محفل بنا کر رکھ دیا ہے۔ آزادئ نسواں کے چکّر میں بس گھن چکّر بن کے رہ گئی ہے۔ بوالہوسوں نے آزادی کا فریب دے کر اس سے عزت جیسی قیمتی متاع بھی چھین لی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں تو عالیہ کاشف شاخِ سرسبز کی کلیوں کا گُل دستہ بنا رہی تھیں۔ خیر، مختلف پیراہن اچھے انداز سے متعارف کروائے گئے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ’’سنگل مدرز‘‘ کے عنوان پرہم بھی چونکے، مگر پھر سعدیہ عبید خان نے واضح کیا کہ یہ مطلقہ، بیوہ، مرد کی سرپرستی سے محروم خواتین جب سنگل رہ کر بچّوں کی تعلیم و تربیت کرتی ہیں، تو کن کن مصائب و آلام سے گزرتی ہیں۔ ’’آدمی‘‘ میں عرفان جاوید، آصف اسلم فرخی کے علمی و ادبی کارناموں سے آگاہ کررہےہیں۔ متنوّع موضوعات پر اتنا اچھالکھنا واقعی حیران کُن امر ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے ذریعے ڈاکٹر روبی عدنان نے گُردوں کے امراض کی وجوہ اور علاج و احتیاط سے آگاہ کیا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں افشاں مراد، محمّد یامین عالم اور حکیم حارث نسیم کی تحریریں دل چُھو لینے والی تھیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کنول بہزاد نے عالمی یومِ خواتین کی مناسبت سے ایک نصیحت آموز افسانہ پیش کیا۔ کنول بہزاد کی خصوصیت ہے کہ سارے غم و الم بیان کرنے کے بعد اختتام خُوش کُن کرتی ہیں، تو قاری کا ذہن بھی پُرسکون ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر نثار احمد نثار، بشریٰ فرخ کی نظمیں متاثرکُن تھیں۔ اختر سعیدی نے نئی کتابوں پر مخصوص انداز میں ماہرانہ تبصرہ پیش کیا۔ اور اپنے صفحے پر ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کا اعزاز فرخ جامی کے حصّے آیا۔ جب کہ محمّد سلیم راجہ ہمیں سیمی فائنل میں پہنچا کر فائنل کی ٹرافی رونق افروز برقی کے حوالے کرگئے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میر پور خاص)

ج: چلیں، ہم نے آپ کو اعزازی چِٹھی کے چوکھٹے میں پہنچا دیا۔

گوشہ برقی خطوط

*  ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا سلسلہ ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ بےمثال ہے، پڑھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ اختر الاسلام صدیقی نے ’’یادگاری ڈاک ٹکٹس‘‘ پر حسبِ روایت عُمدہ مضمون قلم بند کیا۔ ’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل بہت ہی پیاری لگی۔ رضوان الحق بنکاک کا بہت دل چسپ سفر نامہ لائے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم کا مضمون حسبِ معمول شان دار تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ ’’آزمائش‘‘ خصوصاً خواتین کےلیےبہت سبق آموز تھا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات بھی اچھا درس دے رہے تھے۔ اور آپ نے میری پچھلی پوری ای میل ہی ایڈٹ کردی۔ (قرأت نقوی، ٹیکساس، یو ایس اے)

ج:قرأت! بات یہ ہے کہ ای میلز کا گوشہ بہت ہی مختصر سا ہے۔ لوگوں کو خطوط کی اشاعت سے بھی زیادہ ای میلز کی اشاعت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم پوری پوری ای میلز شایع کرنے لگیں، تو اتنی کم جگہ پر صرف ایک آدھ ای میل ہی شایع ہو پائے گی۔ سو، یہ ایڈیٹنگ ہماری مجبوری ہے۔

* مَیں آپ کو اپنی کتاب کے کچھ صفحات بھیجنا چاہتا ہوں۔ اِس کتاب کا کچھ حصّہ اُردو اور کچھ حصّہ انگریزی میں ہے۔ یہ بتایئے کہ یہ صفحات آپ کو کیسے بھیجے جائیں۔ (سیّد فضل عباس رضوی)

ج: آپ یہ صفحات بھیجنا ہی کیوں چاہتے ہیں۔ اگر اشاعت مقصد ہے، تو عرض ہے کہ ہمارے یہاں کسی شایع شدہ تحریر کی دوبارہ اشاعت ممکن نہیں۔ اگر آپ اپنی کتاب پر تبصرہ چاہتے ہیں، تو اُس کی شرائط کچھ اور ہیں۔ آپ کو اپنی کتاب کی(اگر وہ 2021ء یا 2022ء میں شایع ہوئی ہے)دو جِلدیں بھیجنی ہوں گی کہ کسی بھی کتاب پر تبصرہ، ہمارا اپنا تبصرہ نگار کرتا ہے، نہ کہ خود مصنّف یا پبلشر۔

* مَیں جنگ، سنڈے میگزین کے لیے ماڈلنگ کرنا چاہتا ہوں، پلیز، پلیز… (ناہیہ خان)

ج: چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں.....؟ہمیں تو آپ کا نام ہی سمجھ نہیں آیا۔ دوم، یہ کہ ہمارے جریدے کے لیے ماڈلنگ صرف دو شہروں سے ہوتی ہے، کراچی اور لاہور۔ تیسری بات یہ کہ آپ کا پورٹ فولیو دیکھے بغیر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔

* میری ای میل شایع کرنے کا بےحد شکریہ۔ مَیں سنڈے میگزین بہت ہی ذوق و شوق سے پڑھتی ہوں۔ (صبا سلیم)

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk