• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساڑھے تین سال قبل جب عمران خان برسراقتدار آئے تو نہ جانے اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس خوش فہمی میں کیوں مبتلا ہوگئی کہ شاید اب پاکستان کے سارے مسائل ختم ہو جائیں گے اور پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے گا؟ ڈالر جو میاں نواز شریف کی حکومت ایک سو پانچ روپے پر چھوڑ گئی تھی وہ مزید کم ہوکر ستر سے اسی روپے پر آجائے گا، برآمدات 24 ارب ڈالر سے بڑھ کر 50ارب ڈالر پر پہنچ جائیں گی، یہ خوش فہمی اس لیے پیدا ہوئی تھی کہ خواب ہی ایسے دکھائے گئے تھے، پھر سابق حکومت کے دورِ اقتدار کا آغاز ہوا تو بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے زیادہ زرمبادلہ پاکستان بھجوانا شروع کیا، ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنی شاندار ملازمتیں چھوڑ کر اور کاروبار ختم کرکے پاکستان پہنچے، پاکستان میں جاری ڈیم فنڈ اور دیگر منصوبوں میں اربوں روپے چندہ بھی دیا، لیکن پھر آہستہ آہستہ حالات کی گرد بیٹھی اور گزرنے والے ساڑھے تین برسوں میں اوورسیز پاکستانیوں کی عمران حکومت کے بارے میں خوش مہمیاں غلط فہمیوں میں تبدیل ہوتی گئیں اور تمام خواب چکنا چور ہوگئے، اوورسیز پاکستانیوں کے سالانہ 32ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے بدلے میں انہیں پہلا تحفہ حکومت کی جانب سےاپنے ساتھ ذاتی استعمال کے لیے لائے جانے والے موبائل فون پرلاکھوں روپے کی ڈیوٹی عائد کرنےکی صورت میں ملا، ایئرپورٹس پر بدترین سلوک کا سامنا ان کا مقدر ٹھہرا، بعض سفارتخانوں میں سفارشوں پر نا اہل افسر تعینات کیے گئے جنہوں نے پاکستانی کمیونٹی کو اپنی رعایا سمجھا، ایسی ہی ایک شکایت پر عمران خان کو ایک ملک سے سفیر سمیت تمام اہم افسروں کو واپس بلانا پڑا، وزیر اعظم پورٹل کا یہ حال رہا کہ سرکاری افسروں کے خلاف شکایت کرنے والے شہری کی زندگی اجیرن کردی جاتی جبکہ ہمت کرکے دوبارہ اپنا حال وزیر اعظم پورٹل پر ڈالنے والے اوورسیز پاکستانیوں کی آئی ڈیز بلاک کردی جاتیں، اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے اپنے اہل خانہ کے لیے بھیجی جانی والی گاڑیوں پر ڈیوٹی میں بھاری اضافہ کردیا گیا جبکہ سرکاری سطح پر قریبی دوستوں کو ہزاروں گاڑیاں امپورٹ کرکے فروخت کرنے کی اجازت دے دی گئی جس سے اربوں ڈالر کے زرمبادلہ کا ضیاع ہوا، پھر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا، تفصیلات سامنے آئیں تو معلو م ہوا کہ اس میں بھی اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے کیونکہ جو طریقہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کےلیے رائج کیا گیا تھا اس سے تو صرف پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا ہی فائدہ تھا کیونکہ مثال کے طو ر پر گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والا امریکہ میں مقیم پاکستانی اپنے گوجرانوالہ کے حلقے میں ہی کسی بھی سیاسی جماعت کے نمائندے کو ووٹ ڈال سکے گا، اسی طرح کراچی سے تعلق رکھنے والا اوورسیز پاکستانی کراچی میں اپنی پسند کے نمائندے کو پارلیمنٹ پہنچانے میں اپنا ووٹ استعمال کرسکے گا، لیکن اس پورے عمل میں ایک کروڑ اوورسیز پاکستانیوں کے پارلیمنٹ میں پہنچنے کا کوئی ذکر نہ تھا جو افسوسناک عمل ہے، اس کے مقابلے میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور موجودہ وزیرا عظم میاں شہباز شریف نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے سیٹ مختص کرنے کی بات کی تھی اور سات نشستیں مختص کرنے کی تجویز دی گئی تھی جس کے نتیجے میں کم از کم سات بیرون ملک مقیم پاکستانی پارلیمنٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کی نمائندگی کرنے کے اہل ہوسکتے تھے یہ ایک ایسی تجویز ہے جو اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے زیادہ بہتر تھی، اس وقت عمران خان ایک سیاسی و جمہوری عمل کے ذریعے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جاچکے ہیں اور اب انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں سے چندہ جمع کرنے کی درخواست کی ہے لیکن تمام سیاستدان کہ یاد رکھیں سالانہ 32 ارب ڈالر کا زرِمبادلہ پاکستان بھجوانے والے اوورسیز پاکستانی پاکستان کی طاقت ہیں سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے اس طاقت کو سیاست سے تقسیم نہ کریں بلکہ اس طاقت کو ملک کےلیے استعمال کریں، اللہ تعالیٰ نئی حکومت کو پاکستان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وزیر اعظم میاں شہبازشریف اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل فوری طورپر حل کریں۔ آمین !

تازہ ترین