ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری
تاج دار ختم نبوت، سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے رفیق ِ سفر و حضر، یارِغار ومزار، خلیفۂ اول، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیاری بیٹی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کی زوجۂ محترمہ اور امہات المومنینؓ میں بلند مقام کی حامل ہیں۔ ان کا لقب صدیقہ اور حمیرا ہے ،کنیت ام عبداللہ ہے، یہ کنیت خود حضور ﷺ کی تجویز فرمائی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ عرب میں کنیت رکھنا شرافت کا معیار اور علامت سمجھی جاتی تھی، ایک دن انہوں نے نبی اکرمﷺ سے عرض کیا کہ عرب کی عورتیں کنیت سے مشہور ہیں، آپ ﷺ میری بھی کوئی کنیت تجویز فرمادیں ،اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی کنیت عبداللہ کے نام کی نسبت سے ام عبد اللہ رکھ لو۔ واضح رہے کہ حضرت عبداللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی اکرمﷺ کے اعلان نبوت کے چار سال بعد پیدا ہوئیں، اس طرح انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہ پیدائشی مسلمان تھیں۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے کہ جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اسلام کی ان برگزیدہ شخصیات کی فہرست میں داخل کردیتا ہے، جن کے کانوں نے کبھی کفروشرک کی آواز تک نہیں سُنی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا انتہائی ذہین تھیں اور انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ علمی طور پر صحابیاتؓ میں سب سے بڑی فقیہہ تھیں۔
نبی اکرم ﷺ نے نکاح سے پہلے انہیں دو مرتبہ خواب میں دیکھا کہ وہ ریشمی کپڑے میں ملبوس ہیں، کوئی شخص آپ ﷺ سے کہتا ہے کہ یہ آپﷺ کی زوجۂ محترمہ ہیں۔ آپ ﷺ دوران خواب ہی فرماتے ہیں کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ایسا ہوجائے گا۔ اسی خواب کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام بھجوایا۔ اتنا سننا تھا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خوشی سے پھولے نہ سمائے تھے کہ ان کی صاحب زادی تاجدار مدینہ حضرت محمد ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ چناںچہ فوراً راضی ہوگئے اور شوال کے مہینے میں چار سو درہم کے حق مہر پر آپ کا نکاح ہوا۔
بحیثیت زوجہ نوسال نبی اکرم ﷺ کی رفاقت میں اس طرح گزارے کہ ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی محبت کے ساتھ پیش آتے تھے، نبی اکرم ﷺ نے آپ کی بہترین تربیت بھی فرمائی اور یہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذوق و شوق تھا کہ انہوں نے علمی میدان میں بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور علوم اسلامی کے ایک بہت بڑے ذخیرے کو نہ صرف اپنے پاس محفوظ فرمایا، بلکہ ہرہر موقع پر امت مسلمہ کی رہنمائی بھی فرمائی۔
علامہ سیّد سلیمان ندویؒ رقم طراز ہیں: ’’عموماً ہر زمانے کے بچّوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچّوں کا ہے کہ کم عمری میں انہیں کسی بات کا مطلق ہوش نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن حضرت عائشہ صدیقہؓ لڑکپن کی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں۔ ان کی روایت کرتی تھیں، ان سے احکام مستنبط کرتی تھیں، لڑکپن کے کھیل کود میں کوئی آیت کانوں میں پڑ جاتی، تو اسے بھی یاد رکھتی تھیں، کم سنی اور کمر عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبویؐ کے تمام واقعات بلکہ جزوی باتیں تک انہیں یاد تھیں،ان سے بڑھ کر کسی صحابیؓ نے ہجرت کے واقعات کو ایسی تفصیل کے ساتھ نقل نہیں کیا۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہ ؓکو مندرجہ ذیل ایسی خصوصیات حاصل تھیں، جن میں امت کا کوئی فرد ان کا سہیم و شریک نہیں، چناںچہ وہ فرماتی ہیں: فرشتہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ان کی تصویر لے کر حاضر ہوا۔ وہ آپ ﷺ کو ازواج مطہرات ؓ میں سب سے زیادہ محبوب تھیں ۔ آپ کی وجہ سے امت کو تیمم کی رخصت ملی۔ جبرائیل علیہ السلام کو آپ نے دیکھا۔ آپ کی پاک دامنی اور برأت میں دس قرآنی آیات نازل ہوئیں ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی فضیلتیں حاصل تھیں ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں ہدیہ پیش کرنے کے لیے اس دن کا انتظار کرتے جس روز آپﷺ کی میرے یہاں باری ہوتی اور اس سے ان کا منشا رسول اللہﷺ کی خوش نودی حاصل کرنا تھا۔
حضرت عائشہؓ علومِ دینیہ کی ماہر اور مسائل میں فقاہت کے اس درجے پر فائز تھیں کہ جلیل القدر صحابہ کرامؓ ان سے دینی مسائل معلوم کرتے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں کو کوئی مشکل ایسی پیش نہ آئی جس کا علم حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس نہ ہو، یعنی ہر مسئلے کے متعلق انہیں سرورِکائنات ﷺ کا اسوہ حسنہ معلوم تھا۔(جامع ترمذی)
حضرت عُروہ بِن زبیرؓ کا قول ہے کہ میں نے قرآن و حدیث، فقہ و تاریخ اور علم الانساب میں اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا، احنف بِن قیسؒ اور موسیٰ بِن طلحہؒ کا قول ہے کہ حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر میں نے کسی کو فصیح الّلسان نہیں پایا۔
کتبِ سیرت میں متعدد روایات ملتی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓکو دینی علوم کے علاوہ طب، تاریخ، اور شعرو ادب میں دست گاہ حاصل تھی۔
دین کی ترویج و اشاعت اور علوم نبویؐ کے فروغ میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا کردار اسلامی تاریخ کا وہ روشن باب اور مینارۂ نور ہے، جس سے عالم اسلام تا قیامت مستفید ہوتا رہے گا۔