• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: منور راجپوت 

طبِ یونانی اِن دنوں جن چند حکماء کے دَم سے زندہ ہے، اُن میں ایک بڑا نام پروفیسر حکیم مقیم مرسلین کا بھی ہے۔ لیکن حکیم مقیم مرسلین کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ اُنھوں نے امریکا سے ڈیزائننگ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ہالی وڈ سے وابستہ رہے کہ وہاں ویژول ایفیکٹس (VFX) انڈسٹری میں کام کرنے والے پہلے پاکستانی تھے۔ پھر برسوں عرب امارات، قطر اور پاکستان کی یونی ورسٹیز میں پڑھاتے رہے۔ 

آسٹریلیا سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ طبِ یونانی خاندانی وَرثہ ہے کہ والد، حکیم محمّد مرسلین کو اِس میں ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ والد سے یہ وَرثہ اُن میں منتقل ہوا، جب کہ طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی اور اب کراچی کے دو مختلف مقامات پر خدمتِ خلق میں مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں طبِ یونانی کی تاریخ، افادیت، خدمات اور مسائل سمیت کئی امور پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، جس کی تفصیل جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (عکّاسی:محمّد اسرائیل انصاری)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (عکّاسی:محمّد اسرائیل انصاری)

س: اپنے خاندان، تعلیم اور کیرئیر کے بارے میں کچھ بتائیے؟

ج: ہمارے ابّا کے نانا حکیم تھے۔ اُنھوں نے ہماری دادی سے کہا کہ’’ مرسلین کو حکیم بنانا ہے۔‘‘اور پھر اُنھوں نے ہی ابتدائی تربیت دی۔ ابّا ہم درد دوا خانہ، دہلی میں کام کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آئے، تو حکیم محمّد سعید نے اُنھیں یہاں اپنے مطب میں مہتمم دوا ساز کے طور پر رکھ لیا۔والد صاحب پہلے عطّاری( کمپاؤنڈر، یعنی نسخے بنانے والے) تھے، پھر پنسار بنے اور جب فن پر پوری طرح گرفت ہوگئی ،تو باقاعدہ حکمت کا کام شروع کیا۔دہلی میں حکیم مقیم کے نام سے ایک حکیم ہوا کرتے تھے، والد نے اُنہی کے نام پر میرا نام رکھا اور بچپن ہی سے مجھے کہتے رہے کہ’’ تمھیں بھی حکیم بننا ہے۔‘‘ پھر ابّا کو دیکھ کر شوق ہوا اور اُن کے ساتھ عطّاری کا کام کرتا رہا۔ مجھے آرٹ یعنی ڈیزائننگ کا بھی بہت شوق تھا۔ 

نویں کلاس میں تھا، جب ابّا نے کمپیوٹر دِلوایا، جو اُن دنوں نیا نیا آیا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ کمپیوٹر پر بہت خُوب صُورت گرافکس بنائے جاسکتے ہیں۔ اُسی زمانے میں گل جی کی ایک ڈاکیومینٹری کے لیے ٹائٹل گرافکس بنائے۔یوں کمپیوٹر گرافکس اور اینی میشن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ نویں کلاس میں مزارِ قائد پر پینٹنگ کے مقابلے میں کراچی انٹر اسکول جیتا،جس سے مزید حوصلہ ملا۔ اُنہی دنوں میری ایک پینٹنگ عالمی مقابلے کے لیے جنیوا گئی اور اُسے انعام سے نوازا گیا۔ میٹرک کے بعد کچھ عرصہ لاہور میں آرٹ کی تعلیم حاصل کی، بعدازاں امریکا چلا گیا۔

اوہائیو اسٹیٹ یونی ورسٹی سے انٹیریر ڈیزائننگ میں گریجویشن اور پھر وہیں سے انڈسٹریل ڈیزائننگ میں ماسٹرز کیا۔ ماسٹرز کی تکمیل سے ایک ہفتہ قبل ورلڈ ڈزنی میں اسپیشل ایفیکٹ آرٹسٹ کے طور پر کام مل گیا۔ فلم’’ جارج آف دی جنگل‘‘ میں ڈیجیٹل ہاتھی بنانا تھا۔ فلم ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ہم ہاتھی کو کتّے کی طرح تربیت نہیں دے سکتے، تو ہم نے پورا ہاتھی کمپیوٹر پر بنایا اورایسا کسی بھی فلم میں پہلی بار ہو رہا تھا۔ اُس ہاتھی کے اینی میشن میں میرا کام تھا۔ اس کے بعد مزید موشن فلمز، ڈیپ رائزنگ، فلبر، آرماگیڈن اور فائنل فینٹسی وغیرہ میں کام کیا۔ 

آخری پراجیکٹ ریاست ہوائی میں تھا، جس کے لیے ساڑھے تین سال وہاں رہا۔اِس دوران سوچا کہ کیوں نہ والدین کے قریب رہا جائے، تو پراجیکٹ مکمل ہوتے ہی امریکن یونی ورسٹی، شارجہ کے اسکول آف آرکیٹیکچر ڈیزائننگ میں پڑھانا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ چار، پانچ سال جاری رہا۔پڑھاتے ہوئے بہت مزا آیا اور پاکستان بھی آنا جانا لگا رہا، جس کے دوران والد سے سیکھنے کے مواقع بھی حاصل ہوئے۔ پھر قطر چلا گیا اور ورجینا کامن ویلتھ یونی ورسٹی میں کئی سال پڑھاتا رہا۔ بعدازاں، نارتھ ویسٹرن یونی ورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر پڑھایا۔ ایک روز خیال آیا کہ نبض شناسی والد صاحب کی علمی و طبّی میراث ہے، تو کیوں نہ پی ایچ ڈی کے لیے کوئی ایسا موضوع تلاش کروں، جس میں یہ فن بھی شامل ہوسکے۔ 

خوش قسمتی سے چارلس اسٹرٹ یونی ورسٹی، سڈنی(آسٹریلیا) میں داخلہ ہوگیا، یوں کورس ورک کے لیے ایک سال وہاں رہا۔ اسی دوران ابّا نے کہا’’مقیما( وہ اِسی طرح پکارتے تھے)! اب تم واپس آجاؤ۔‘‘ یوں مستقل طور پر پاکستان آکر ابّا کے ساتھ مطب میں بیٹھنا شروع کردیا، مگر نسخہ نہیں لکھا کرتا تھا۔ میرا کام صرف نبض دیکھنا ہوتا تھا۔ جب حکومتِ پاکستان کے ساتھ بطور طبیب رجسڑ ہوا، تو پھر نسخے بھی لکھنے شروع کردیے۔ اِس دَوران کراچی کی ایک معروف نجی یونی ورسٹی میں بھی چھے سال پڑھاتا رہا، مگر پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی کام اور مطب کی مصروفیات کے سبب تدریس کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ 

آج جب آپ سے گفتگو کر رہا ہوں، تو کچھ ہی دیر قبل سڈنی یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ مکمل ہونے کی ای میل موصول ہوئی ہے۔ اب کراچی کے دومقامات، لیاقت آباد اور ڈی ایچ اے میں مطب کرتا ہوں۔اور بھی کئی طرح کے شوق ہیں اور سب ہی دل لگا کر کرتا ہوں۔طب کے بعد دوسرا شوق کمپیوٹر گرافک کا ہے، ہالی وڈ موشن پکچر انڈسٹری میں اِس حوالے سے کافی کام کیا، اُس زمانے میں لوگ مجھے مقیم خان کے نام سے جانتے تھے۔ جب بھی پاکستان آنا ہوتا، اِس موضوع پر ورکشاپ سے خطاب کرتا۔بہت سے پروڈکشن ہاؤسز میرا نام اور کام جانتے ہیں۔

س: پی ایچ ڈی کا مقالہ کس موضوع پر تھا اور اس میں نبض شناسی کو کیسے کور کیا؟

ج: دیکھیں، ڈیزائننگ کی بہت سی اقسام ہیں، جیسے انٹیرئیر ڈیزائننگ، آرکیٹیکچر ڈیزائننگ، کمیونی کیشن ڈیزائننگ، گرافک ڈیزائننگ وغیرہ۔ جب آپ اس کی فلاسفی پر جاتے ہیں، تو اس کی دوسری manifestations ہیں، جیسے کو ڈیزائننگ یا کریٹیکل ڈیزائننگ۔ اسپیکیولیٹیو ڈیزائننگ بھی اس کا مظہر ہے، جس میں آپ ایک ڈیزائن کے طور پر مستقبل سے متعلق سوچتے ہیں اور پھر اس کو حقیقت سے قریب تر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ اسپیکیولیٹیو ڈیزائننگ پورا ایک ڈسپلن ہے اور دوسرا ڈسپلن، intangible heritage ( غیر مادّی ورثہ) ہے۔ 

مثال کے طور پر ہمارا ایک وَرثہ تو میوزیم میں نظر آتا ہے، مگر ایک دوسرا وَرثہ بھی ہے، جو پہاڑوں یا دریاؤں وغیرہ کی شکل میں ہے، جب کہ ایک تیسرا وَرثہ بھی ہے اور وہ ہے انسان کی سوچ، جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ یہ نظر نہ آنے والا غیر مادّی وَرثہ کہلاتا ہے۔جب ہم اسے ڈیجیٹل شکل میں دیکھتے ہیں، تو اسے digital intangible heritage ( عددی غیر مادّی ورثہ)کہا جاتا ہے۔ میری ایک فیلڈ تو یہی ہے اور دوسری قیاس آرائی پر مبنی ڈیزائننگ ہے۔ indigenous methodology میں وہ میتھڈز آتے ہیں، جن کا کسی قدیم علم سے تعلق ہو، جیسے طبِ یونانی میں نبض شناسی(پَلس ریڈنگ) ہے۔یہ ایک قدیم علم ہے، جس پر چینی پانچ ہزار سال اور یونانی ڈھائی، تین ہزار سال سے کر رہے ہیں، مگر اِس شعبے میں سب سے اہم کام مسلمانوں کا ہے۔ یونیسکو نہ صرف اِس طریقے کو تسلیم کرتا ہے، بلکہ اس کی ڈاکیو مینٹیشن اور آرکائیونگ پر بھی زور دیتا ہے تاکہ یہ طریقہ جاری رہے۔ بہرحال، مَیں نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں ڈیزائننگ کی اِسی قسم کا دیگر کے ساتھ ملا کر جائزہ لیا ہے۔

س: طبِ یونانی میں مرض کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟

ج: طبِ یونانی کے مطابق صفرا، بلغم، سودا اور خون یہ چار خُلّت ہیں اور اِن کے مختلف مزاج ہیں، جیسے گرم خشک، سرد خشک، گرم تر، سرد تر۔ایک طبیب کو اِن ہی مزاجوں کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اِس جسم میں کیا ہو رہا ہے، کون سی خُلّت غالب ہے یا کس مزاج کا فقدان ہے۔چینیوں کے پاس پانچ عناصر آگ، ہوا، پانی، مٹّی اور لکڑی یا دھات ہیں۔ آیو رویدک میں تین عناصر آگ، ہوا، پانی ہیں، جب کہ ہمارے ہاں چار عناصر ہیں، صفرا، سودا، بلغم، خون۔ اِن تمام چیزوں کو سائنسی بنیادوں پر بھی پرکھا گیا ہے۔

یاد رہے، نبّاضی میں مشاہدے، تجربے اور قیاس کو بھی کام میں لایا جاتا ہے۔حکیم یہ بات نوٹ کرتا ہے کہ مریض کا چہرہ دیکھنے اور اس کے جسم کو چُھونے پر اُس نے کیا محسوس کیا، اُس کا تجربہ اور علم کیا کہتا ہے۔ بیماری کے تجزیے کے دَوران مریض کے طرزِ زندگی پر بھی غور کیا جاتا ہے، اِس ضمن میں طبِ یونانی میں چھے اسباب کو دیکھا جاتا ہے، جیسے کھانا پینا، نیند، ماحول، ہاضمہ وغیرہ۔ ان تمام مراحل کے بعد پھر طبیب تمام چیزوں کو سامنے رکھ کر قیاس کرتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچتا ہے۔

س: یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض معلوم کرلیا جائے؟

ج: نبض سے جسم میں آنے والی تبدیلیوں کا پتا چلتا ہے اور ایسی باتوں کا بھی علم ہوتا ہے، جن کا جسم سے تعلق نہیں ہوتا، جیسے دماغی حالت۔ نبّاضی طبِ یونانی کا ایک بہت ہی خُوب صورت حصّہ ہے۔افلاطون نے اسے متعارف کروایا، حکیم جالینوس نے اسے ادارہ جاتی شکل دی۔ قدیم ہند، چین اور یونان میں یہ رائج رہا اور پھر مسلمانوں نے بھی اس پر بہت کام کیا۔ نبّاضی پر چین میں بہت تحقیق ہوئی ہے اور ایسی مشینز بنائی گئی ہیں، جو مختلف خُلّت کو ڈی ٹیکٹ کرکے بیماریوں تک پہنچتی ہیں۔ 

البتہ، یہ دیکھنا ہوگا کہ مشینی تجربہ کس حد تک کام یاب ہے۔ جب ہم نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں، تو یہ دیکھتے ہیں کہ کیا یہ بگلے کی طرح چل رہی ہے، مینڈک کی طرح پُھدک رہی ہے یا چوہے کی دُم کی طرح ہو رہی ہے۔ والد کہتے تھے،’’ یہ ستار کے تاروں کی مانند ہے، اسے پکڑ کر معلوم کرو کہ یہ آدمی صفراوی ہے، کیا اس کے اندر زیادہ تیزاب بن رہا ہے، اِس کے اندر زیادہ گرمی یا خشکی ہے، کیا یہ بلغمی مزاج کی طرف جا رہا ہے۔‘‘ دراصل، نبض ہمیں آئیڈیا دے دیتی ہے کہ جسم کے اندر کیا معاملہ چل رہا ہے۔

س: جدید لیبارٹریز کے ہوتے ہوئے اِس طرح سے مرض کی تشخیص کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟

ج: مَیں بنیادی طور پر ایک ٹیکنالوجسٹ ہوں، اِس لیے اِس کی اہمیت و افادیت سے واقف ہوں۔ اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ مختلف سینسرز نے انسانی جسم کھول کر رکھ دیا ہے، مگر ہم ابھی بھی بہت سی چیزوں کے بارے میں نہیں جانتے۔ مثال کے طور پر ہمیں دماغ سے متعلق محض چارپانچ فی صد معلومات حاصل ہیں۔ سائنس ،روح کے بارے میں خاموش ہے، مگر طبِ یونانی میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ 

روح کی تین حالتیں ہیں، جسے طبیب سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔دل کی دھڑکن سے روح کو سُننا، سانس سے اُسے محسوس کرنا اور خون سے اُس کی دوڑ دیکھنی ہوتی ہے اور یہ سب نبض ہی سے پتا چلتا ہے۔ طبِ یونانی میں ٹیکنالوجی یا سائنٹیفک بیسڈ تشخیص کا فقدان رہا ہے۔ یقیناً تشخیص کے معاملے میں وہ ترقّی نہیں ہو سکی، جو ہونی چاہیے تھی، مگر اطباء کی جو کوانٹیٹیو اسٹرٹیجی تھی، وہ اُن عناصر کے ساتھ تھی، جنھیں ابھی تک سائنس نہیں پہچان سکی۔

س: ایلوپیتھی طریقے میں تو مختلف امراض کے لیے ادویہ مختص ہیں، آپ کس طرح دوا تجویز کرتے ہیں؟

ج: یہ طریقۂ علاج ایسا نہیں ہے ، جیسا لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ فلاں مرض ہو، تو فلاں جڑی بوٹی استعمال کرلی جائے۔حکیم اپنے علم، تجربے، مشاہدے اور مریض کے حالات سے آگاہی کے بعد جب مرض کی تشخیص کر لیتا ہے، تو پھر وہ جسم کو متوازن کرنے کی طرف جاتا ہے کہ جب بھی ہمارا جسم غیر متوزان ہوتا ہے، وہیں سے کوئی نہ کوئی بیماری شروع ہوجاتی ہے۔

ہمارے ہاں صرف عضو کا علاج کرنے کی بجائے اصل مرض کو دیکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سینے کی جلن کے لیے ایلو پیتھی طریقۂ علاج میں مختلف ادویہ ہیں،لیکن اگر آپ کچھ پرہیز کے ساتھ ذرا سا علاج کریں، تو جلن مستقل طور پر چلی جاتی ہے، تو طبِ یونانی میں اِسی طریقے پر عمل کرتے ہوئے علاج تجویز کیا جاتا ہے۔

س: ایک زمانے میں حکیموں کا راج تھا، پھر لوگ اُن سے منہ موڑ کر دوسری طرف کیوں چلے گئے؟

ج: جب 13 ویں صدی میں جَرم تھیوری آئی، جس سے پتا چلا کہ بیماریوں کا سبب مختلف جراثیم یا وائرسسز ہیں، تو اُن سے لڑنے کے لیے اسٹرانگ کیمیکلز بنانے شروع کیے گئے اور جب ان کیمیکلز کے استعمال سے فوری فائدہ ہوا، تو لوگوں میں آہستہ آہستہ اُنہی کے استعمال کا رجحان بڑھتا چلا گیا۔ یعنی’’ دوا کھاؤ، فوری ٹھیک ہوجاؤ۔‘‘ مثال کے طور پر کولیسٹرول کنٹرول کی دوا لمحوں میں اُسے نیچے لے آتی ہے، مگر ان ادویہ کے استعمال کا نقصان یہ ہے کہ ان سے مختلف پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ 

بقول ہمارے والد صاحب’’ گولی لیں اور نہاری روٹی، تکّہ بوٹی کھائیں۔‘‘ دوسری طرف ہماری دوا کے ساتھ سخت پرہیز کرنا پڑتا تھا اور اثر بھی فوراً نہیں ہوتا تھا، تو یوں طبِ یونانی پیچھے رہ گئی۔پھر یہ بھی کہ حکیموں یا طبِ یونانی کو سرجری میں جو ترقّی کرنی چاہیے تھی، وہ نہیں کرپائے، حالاں کہ بہت سے سرجیکل آلات، جو اب تک مستعمل ہیں، مسلمان طبیب، رازی کے ڈیزائن کردہ ہیں۔

س: طبِ یونانی اور دیگر طریقۂ علاج میں بنیادی فرق کیا ہے؟

ج: یونانی طریقۂ علاج برصغیر میں ایک ہزار سال پرانا ہے، جب کہ یونان میں مقامی علوم بھی اس میں شامل ہوئے۔ اِس طریقۂ علاج میں دماغی، روحانی اور جسمانی غرض تمام معاملات کو اہمیت دی جاتی ہے۔طبیب بیماری کے فوری خاتمے کے برعکس اس کے مکمل خاتمے پر توجّہ دیتا ہے ۔ دوا اور پرہیز کے ساتھ اُن اسباب کا خاتمہ کرتا ہے، جو اس کا باعث ہوں۔ ایلو پیتھک میڈیسن سسٹم، طبِ یونانی ہی کی جدید قسم ہے۔تاہم، وہ ایک دوسرے ٹریک پر چلے گئے، جس میں کیمیکلز کا بہت زیادہ استعمال ہے۔

یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایلوپیتھی طریقۂ علاج بھی بہت اہم ہے، خاص طور پر اُن کے ہاں سرجری کے ذریعے جن امراض کا علاج کیا جاتا ہے، وہ سہولت طبِ یونانی کو حاصل نہیں، اِسی لیے مَیں بہت سے مریضوں کو اُن کی حالت کے مطابق ڈاکٹرز سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتا ہوں اور دیگر حکیموں سے بھی یہی درخواست کروں گا کہ وہ ہر مرض کا خود علاج کرنے کی کوشش نہ کریں کہ یہ انسانی جان کا معاملہ ہے، جہاں مریض کو ایلوپیتھی کی طرف بھیجنا ضروری ہو، کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اُس طرف ریفر کردینا اُن کی ذمّے داری ہے۔

س: ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکیم پرہیز بہت بتاتے ہیں؟

ج: ہاں یہ تو ہے۔ مَیں کہتا ہوں، اگر چاول کھانے ہی ہیں، تو وہ چاول ڈھونڈو، جن پر پالش نہ کی گئی ہو کہ ساری طاقت تو چھلکے میں ہوتی ہے۔ گوشت کھانا ہے تو شوربے کے ساتھ کھالو۔ مَیں کوشش کر رہا ہوں کہ دوا سے چینی نکال دوں۔ مَیں سسٹم آسان بنانا چاہتا ہوں اور اس میں کام یاب بھی ہوا ہوں، مگر اس کے ساتھ ہمیں نہاری، بوٹی، تکّا بروسٹ سے متعلق اپنی سوچ بھی بدلنی ہوگی۔ہم اپنی زندگی میں بہت زیادہ فلیورز لے آئے ہیں۔ پکوان والے کہتے ہیں کہ ہم تو دس کلو میں مُٹھی بھر فلیورز ڈالتے ہیں، مَیں منع کرتا ہوں، تو کہتے ہیں’’ ہم نہیں ڈالیں گے، تو صرف برابر والے کا کھانا بکے گا۔‘‘ 

اِن معاملات میں کنزیومر یعنی ہم لوگوں کی ذمّے داری ہے کہ اپنے کھانے پینے کا نظام درست کریں۔ ہمیں جو زبان کا چسکا لگا ہے، اُسے کسی طرح کم کرنا ہوگا۔اگر کوئی چیز کھانے سے قبض ہوتی ہو، تو وہ نہ کھائی جائے۔ ابّا نے زندگی بھر چاول نہیں کھائے، جب بھی مچھلی کھاتے، تو تھوڑا سا کھوپرا ضرور کھاتے، جب شوربے والا گوشت کھاتے، تو ایک پیالی میں پپیتا بھی موجود ہوتا۔ عوام النّاس سے یہی کہوں گا کہ خدارا اپنے معدے کا خیال کریں ۔ اگر ابّا کسی مریض کے معدے میں کوئی گڑ بڑ دیکھتے، تو جب تک اُس کا علاج نہ ہوپاتا، آگے نہ بڑھتے۔

س: حکیم جو نسخے دیتے ہیں، وہ عام طور پر بہت منہگے ہوتے ہیں؟

ج: یہ بات درست ہے، مگر یہ بھی دیکھیں کہ دو، تین سال پہلے ہم ہڑ 150 روپے کلو خریدتے تھے، اب سات، آٹھ سو میں مل رہی ہے۔ ابّا کہتے تھے، سنا مکی کی ڈنڈیاں الگ کرکے صرف پتّے استعمال کرنے ہیں۔ اب آدھی سے بھی زیادہ بوری میں صرف ڈنڈیاں ہوتی ہیں۔ مٹّی ملی خشخاش ملتی ہے۔عنبر چھے ہزار روپے گرام ہے۔ 

افغانستان سے کافی جڑی بوٹیاں آتی ہیں، جن کا سلسلہ بہت عرصہ بند رہا۔ پھر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بڑی بڑی کمپنیز بھی اِس میدان میں آگئی ہیں۔ جرمنی کی ایک کمپنی گاؤ زبان کا پورا اسٹاک اُٹھا کر لے جاتی ہے، پھر ہمیں جو ملے گا، منہگا ہی ملے گا، تو بتائیں اِن حالات میں کوئی چھوٹا حکیم کیا کرے گا۔

س: طبِ یونانی کے سکڑنے کی ایک وجہ یہ بھی تو ہے کہ حکمیوں نے یہ فن آگے منتقل نہیں کیا؟

ج: ایسا ہی ہے، مگر یہ صرف طبِ یونانی کا مسئلہ نہیں، باقی شعبوں میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اگر آپ ستار سیکھنا چاہیں، تو استاد یہ ہنر سب سے پہلے اپنے بچّوں ہی کو سکھائے گا اور آپ کا نمبر بہت بعد میں آئے گا۔ طبلے والا بتائے گاکہ کب تک اُس کی سیوا کرنی ہوگی، تو وہ یہ ہنر کسی کو سِکھائے گا۔

س: پاکستان میں طبِ یونانی کے کیا حالات ہیں؟

ج: بہت برا حال ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت کوفت ہوتی ہے،جب طبِ یونانی سے وابستہ افراد اپنے نام کے ساتھ حکیم لگاتے ہوئے شرماتے ہیں۔اب نام کے ساتھ ہربلسٹ لکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ضیاء الدّین یونی ورسٹی اور ہم درد یونی ورسٹی سے فاضلِ طب و جراحت کی ڈگری ملتی ہے، کچھ ادارے اس میں ڈپلوما بھی کروا رہے ہیں۔ کچھ نسخے، بالخصوص پوشیدہ امراض سے متعلق نسخے، جو بہت تیزی سے اثر کرتے ہیں، مگر دل و گردوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، اِس شعبے میں ایسے لوگ آگئے ہیں، جو پیسے کے لیے لوگوں کو اِس طرح کے نسخے دے کر تباہ کر رہے ہیں۔

س: زیادہ تر کس طرح کے لوگ علاج کے لیے رجوع کرتے ہیں؟

ج: بعض لوگوں نے شعبے کو بہت نقصان پہنچایا اور اسے بدنام کردیا۔ اب حکیموں سے متعلق یہ تاثر عام ہے کہ یہ صرف پوشیدہ امراض ہی کا علاج کرتے ہیں، حالاں کہ ایسا ہے نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ طبِ یونانی میں کچھ امراض کا بہت اچھا علاج ہے، مگر ہمارے ہاں امراضِ معدہ کے ساتھ ذہنی و پوشیدہ امراض سمیت ہر طرح کے مریض آتے ہیں۔

س: طبِ یونانی کا مستقبل کیا ہے؟ نوجوانوں کے لیے اِس میں کیا مواقع ہیں؟

ج: ہربل انڈسٹری بلین ڈالرز انڈسٹری ہے، پوری دنیا میں لوگ جڑی بوٹیوں کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔2020ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، اِس انڈسٹری نے 82 بلین ڈالرز کا بزنس کیا۔ پانچ بڑی کمپنیز نے باقاعدہ لائسینس لیے ہیں اور وہ ہربل ادویہ بیچ رہی ہیں۔طبِ یونانی کئی مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اچھی اور معیاری جڑی بوٹیوں کا ملنا ہے۔ ہر طرف ملاوٹ شدہ مال مل رہا ہے۔

اب اگر جڑی بوٹیاں ہی اصلی نہ ہوں، تو فائدہ کیسے ہوگا؟ پھر منہگی جڑی بوٹیاں بھی اطباء کے لیے ایک دردِ سر ہیں۔ ایک نئی وبا یہ شروع ہوگئی کہ راتوں رات امیر بننا ہے، جب کہ یہ شعبہ اِس مقصد کے لیے نہیں ہے۔ اگر حکیم درست طریقے سے پریکٹس جاری رکھے،تو مشکلات تو آئیں گی،مگر وہ کچھ ہی مدّت میں ایک کام یاب حکیم بن سکتا ہے۔ یہ واحد میڈیسن سسٹم ہے، جس میں میڈیکل گریجویٹس سے HIPPOCRATIC OATHلیا جاتا ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید