گورنر کے حمزہ شہباز سے حلف لینے سے انکار پر لاہورہائیکورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے صدرمملکت کو وزیراعلیٰ پنجاب کےحلف کے لیے نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔
دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی کے روبرو پیش ہو گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گورنر نے وزیر اعلیٰ کا حلف لینے سے معذوری ظاہر کی ہے، سوال یہ ہے کہ اب عدالت کیا حکم جاری کرے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ گورنر پنجاب کے حلف نہ لینے پر اسپیکر حلف لے سکتا ہے، درخواست میں اسپیکر کو فریق نہیں بنایا گیا، گورنر سمجھتے ہیں کہ وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب آئین کے تحت نہیں ہوا۔
اشتر اوصاف علی نے کہا کہ گورنر یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ دستیاب نہیں ہیں، گورنر انکار کر رہے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 104 کے تحت گورنر کو مکمل اختیار حاصل ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر انکار نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ ابھی مختصر حکم لکھوا رہا ہوں جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے صدر پاکستان کو وزیر اعلیٰ کے حلف کے لیے کسی اور کو نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔
اس سے قبل سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ گورنر الیکشن کو جا کر دیکھے گا؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ گورنر کوئی ربڑ اسٹیمپ نہیں، غیر معمولی صورتِ حال ہوئی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی، ایک خاتون رکن زخمی ہوئیں، وہ اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ تو کیا اس واقعے سے ہاؤس کی پروسیڈنگ ختم ہو جائے گی؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ ہماری نیت نہیں کہ کوئی تاخیر ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آج 21 دن ہو گئے صوبے میں کوئی حکومت نہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزارتِ اعلیٰ کے لیے الیکشن 16 اپریل کو ہوا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ الیکشن بھی عدالت کے حکم پر ہوا ہے، الیکشن کیسے ہوا یہ عدالت جانتی ہے، گورنر بتائیں کہ وہ غیر حاضر ہیں یا حلف نہیں لے سکتے؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ گورنر نے حلف لینے سے انکار کر دیا ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ چیف جسٹس امیر بھٹی نے حکم دیا کہ لکھ کر دے دیں کہ گورنر نے حلف سے انکار کر دیا ہے، تاکہ ہم حلف کے لیے کسی اور کو کہہ دیں، 11 بجے تک گورنر سے لکھوا کر عدالت میں پیش کریں، گورنر نے اگر انکار لکھنا ہے تو عدالت کے بجائے متعلقہ اتھارٹی کے نام لکھیں، 11 بجے دوبارہ سماعت ہو گی۔
وقفے کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں حمزہ شہباز کی بطور وزیرِ اعلیٰ حلف برداری کی درخواست پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے چیف جسٹس امیر بھٹی کو بتایا کہ گورنر پنجاب حلف نہ لینے کی وجہ صدرِ مملکت کو بھیج رہے ہیں، گورنر پنجاب کسی عدالت کو جوابدہ نہیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ 21 روز سے پنجاب میں حکومت نہیں، سوال ایک ہے کہ کیا وہ انکار بھیج رہے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ گورنر حلف نہ لینے کی وجہ صدرِ مملکت کو بھیج رہے ہیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ عدلیہ کا ادارہ ایگزیکٹیو کی وجہ سے فیصلہ کرنے سے رکا ہوا ہے، پورا پنجاب اس وقت رکا ہوا ہے، گورنر پنجاب کو یہ بتا دیں کہ انکار کا تحریر کرنا کتنا ضروری ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ یہ میں نے نہیں لکھنا، وہ گورنر نے خود لکھنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم توقع کر رہے ہیں کہ وہ آج ہی لکھ دیں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ گورنر پنجاب کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت وہ صدر کو جواب دہ ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس لیے سماعت کر رہی ہے کیونکہ گورنر ذمے داری پوری نہیں کر رہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے آئین کے خلاف کام کیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ ہمارے پاس الیکشن کا کیس نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ آپ الیکشن کی فوٹیج خود دیکھیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ اب بات الیکشن سے آگے نکل چکی ہے، گورنر پنجاب اپنی آئینی ذمے داری پوری نہیں کر رہے، اگر گورنر آئین کی قدر نہیں کر رہے تو عدالت بھی انہیں قابلِ احترام کہنا مناسب نہیں سمجھے گی، اگر گورنر انکار کا خط نہیں لکھتے تو عدالت 2 بجے حکم دے گی۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کمرۂ عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گورنر پنجاب کو قانون کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا انتخاب شفاف نہیں ہوا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ گورنر پنجاب کے بعد اسپیکر حلف لینے کا اختیار رکھتے ہیں، اسپیکر کے انکار پر صدرِ مملکت کسی فرد کو حلف لینے کے لیے نامزد کر سکتے ہیں۔