تحریر: نرجس ملک
ماڈلز : مریم رانا، ردا اشرف، عائشہ زبیر، مہ وَش
ملبوسات: ہاؤس آف حمّاد اشرف
آرایش: بیلا ڈونا
عکّاسی و اہتمام: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
؎ ’’عید منہدی کا، خوشیوں کا… رنگوں کا، خوشبو کا… اور کانچ کی چوڑیوں کی کھنک میں بسی… آرزوئوں کا اِک نام ہے… عید انعام ہے، عید اُمید ہے، عید تجدید ہے… عید جیسے کوئی روشنی کی کرن… ایک وعدے، کہانی، فسانے کی یا… ہجر موسم میں لپٹے ہوئے وصل کے… دُکھ کی تمہید ہے… عید اُمید ہے… ایک گھر میں تو خوشیوں کا سامان ہے… ایک گھر میں مگر دُکھ کا طوفان ہے… عید حیران ہے… عید ہیرا نہیں، عید موتی نہیں… عید ہنستی نہیں، عید روتی نہیں… ایک آنگن کہیں کوئی ایسا بھی ہے… جس میں شہزادی صدیوں سے سوتی نہیں… شاہزادے کی جب دید ہوتی نہیں… عید کے دن بھی پھر عید ہوتی نہیں!!‘‘نجمہ شاہین کی یہ سادہ سی نظم، عید کے منظر نامے کی کیسی عمدہ عکّاسی ہے۔ اور حقیقت بھی تو یہی ہے کہ یوں تو ’’عیدین‘‘ اجتماعی تہوار ہیں، لیکن ہر چھت، ہر آنگن میں عید کاچاند، چاندنی کے ڈولے ہنڈولے، رنگوں، روشنیوں کے جَلو میں خوشیوں، مسّرتوں کی بارات ہی لے کے نہیں اُترتا۔
وہ جو ساغر صدیقی کی مشہورِ زمانہ غزل ہے ؎ ’’چاکِ دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند… اپنی تقدیر کہاں بھول گیا عید کا چاند… اُن کے ابروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے… اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چُبھا عید کا چاند… جانے کیوں آپ کے رخسار مہک اُٹھتے ہیں… جب کبھی کان میں چُپکے سے کہا، عید کا چاند… دُور ویران بسیرے میں دِیا ہو جیسے… غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عید کا چاند… لے کے حالات کے صحراؤں میں آجاتا ہے… آج بھی خلد کی رنگین فضا عید کا چاند… تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں… گھول کر درد کے ماروں نے پیا عید کا چاند… چشم تو وسعتِ افلاک میں کھوئی ساغر… دل نے اِک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند۔‘‘ تو اِس ایک عید سے بھی کیا کیا موسوم نہیں۔ کوئی اس ایک دن کا لمحہ لمحہ جینا چاہتا ہے، پر جی نہیں پاتا۔ کوئی جینے کا خواہش مند ہی نہیں، مگر زبردستی جیے جاتا ہے۔ کسی کی، کسی سے بچھڑنے کے بعد یہ پہلی عید ہے، تو کسی کی کسی سے ملاپ کے بعد۔ کوئی کسی کی ابدی جدائی کے دُکھ سے نڈھال ہے، تو کوئی کسی کے وقتی ملن کی خوشی سے نہال۔ کوئی مہینوں سے عید کی تیاریوں میں مگن ہے، تو کوئی محض حسرت بھری آنکھوں سے کسی کی تیاریاں دیکھتا ہے۔
’’عید‘‘ نام و عنوان تو اجتماعی مسّرت و شادمانی ہی کا ہے، لیکن حقیقتاً اس شعر کی عملی تفسیر ہے ؎ کتنی پلکوں سے فضائوں میں ستارے ٹوٹے… کتنے افسانوں کا عنوان بنا عید کا چاند۔ خصوصاً پچھلے دو تین برس سے تو دنیا بَھر اور خصوصاً مُلکِ عزیز میں تہوارِ عید کچھ عجب ہی انداز سے آرہا ہے۔ پہلے کورونا وبا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا، اِمسال ہمیں اس عفریت سے بہت حد تک نجات ملی، تو ہوش رُبا منہگائی اور سیاسی بےیقینی و بے چینی، بدامنی و افراتفری نےجینا محال کیا ہوا ہے۔
رمضان المبارک جیسا مقدّس و بابرکت، سب مہینوں کا سردار مہینہ اِن نام نہاد سیاست دانوں، مُلکِ خداداد کی قسمت کے فیصلہ سازوں کی بداعمالیوں، بدصُورتیوں اور بے ہودہ گوئیوں کے سبب عجب انتشار و ذہنی خلفشار کی نذر ہوگیا۔ تحریکِ پاکستان جیسی عظیم تحریک سے مماثل قرار دے کر عین افطار و نمازِ تراویح کے اوقات میں بے ہنگم، فحش ناچ گانوں، مخرّبِ اخلاق تقاریر پر مبنی جلسے جلوسوں کے انعقاد نے ماہِ صیام کا تقدّس و احترام تو جو پامال کیا، سو کیا، عمومی طور پر ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں انارکی، فاشزم، تقسیم و تفریق، بُغض و عناد اور تعصّب و نفرت کی بھی ایک ایسی اینٹ لگادی کہ اب اس پر ’’مسجدِ ضرار‘‘ ہی تعمیر ہوتی نظر آرہی ہے۔ ہر سمت بادِ سموم کے زہریلے جھکّڑ چل رہے ہیں۔
چھوٹے چھوٹے معصوم بچّوں کی، جن کو سیاست کی الف بے بھی نہیں پتا، ایسی ذہن سازی کردی گئی ہے کہ بلاوجہ ایک دوسرے سے لڑ بھڑ رہے ہیں۔ اللہ کے مہینے میں بھائی کو بھائی سے لڑوا دینے کا یہ گناہِ کبیرہ اب کس کے گلے کا طوق بنے گا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک عام پاکستانی تو آج بھی وہی دو وقت کی دال روٹی، تَن ڈھانپنے کو دو چیتھڑوں اور سَرچُھپانےکےلیے ایک ٹین کی چھت کا طلب گار ہے۔ اب اگر پرانے پاکستان کےوالی وارثوں، نئے پاکستان (ریاستِ مدینہ) کے نام لیوائوں کے پیٹ اپنے محلّات، جاگیریں سونے چاندی کے ڈھیروں سے بَھر کے بھی (جب کہ توشہ خانےکےتحائف تک بیچ کے کھالیے گئے ہوں) نہیں بَھر پا رہے، تو اِس میں کسی غریب کا کیا دوش۔
اِن کے اندھے کنویں تو سب غریبوں کو کھا کے بھی نہیں بھریں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خود غریب، عقل کے ناخن لیں، اِن پیٹ بَھروں کا ترنوالہ بننے کی بجائے ایک دوسرے کا سہارا بننے کی کوشش کریں۔ مان لیں کہ یہ سب اقتدار کے بھوکے ہیں، کوئی آپ کا مخلص، ہم درد، مونس و غم خوار نہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے یہ اقتدار کی رسّہ کشی کا کھیل عوام النّاس کی خدمت کے درد میں جاری ہے۔ قطعاً نہیں، خدارا! اِن کُرسی کے متوالوں، خودپرستوں، خود پسندوں، خود غرضوں سے کسی بھی قسم کی اُمید لگانا چھوڑیں، ایک دوجے کا ہاتھ تھامیں۔ ہر قسم کی تفرقہ بازی ختم کرکے اللہ کی رسّی پر گرفت مضبوط کریں۔ آپ میں سے جو صاحبِ استطاعت ہے، وہ یہ دیکھے کہ ؎ اُس بچّے کی عید نہ جانے کیسی ہوگی… جس کی جنّت ننگے پائوں پِھرتی ہے۔
جو کسی سبب ایک دوسرے سے خفا ہوئے بیٹھے ہیں، وہ مان لیں ؎ میری خوشیوں سے وہ رشتہ ہے تمہارا اب تک… عید ہوجائے، اگر عید مبارک کہہ دو۔ اُس کے ساتھ جاکے کچھ پل بِتالیں جس سے ؎ احباب پوچھتے ہیں بڑی سادگی کے ساتھ… تُو اب کے سال عید منائے گا کس طرح۔ کسی ایسے کے گلے جالگیں، جسے گلہ ہے ؎ دستور ہے دنیا کا مگر یہ تو بتائو… ہم کس سے ملیں، کس سے کہیں عید مبارک۔ کوئی تو اُس ماں کی دل جوئی کابھی کوئی سامان کرے، جس کا بیٹا کمائی کی خاطر پردیس بیٹھا ہے یا جس کی بیٹی دُور دیس بیاہی ہے اور وہ اُن کے شِیر خرمے کے پیالے سامنے رکھےآنسو بہا رہی ہے ؎ دیکھا ہلالِ عید تو آیا تیرا خیال… وہ آسماں کا چاند ہے، تو میرا چاند ہے۔ اور ؎ اے ہوا تو ہی اُسے عید مبارک کہیو… اور کہیو کہ کوئی یاد کرتا ہے۔ سچ تو یہی ہے کہ ؎ جہاں نہ اپنے عزیزوں کی دید ہوتی ہے… زمینِ ہجر پہ بھی کوئی عید ہوتی ہے۔
اِن بےہدایت، بدلحاظ، اقتدار کےرسیا سیاست دانوں نے آپ کا رمضان خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی، لیکن اگر آپ نے بہر طور اپنے پاک پروردگار کی بندگی و اطاعت گزاری کا حق ادا کرنے کی کچھ نہ کچھ سعی کی ہے، تو ’’عید انعام ہے، عید اُمید ہے، عید تجدید ہے۔‘‘ اور اس خیال سے بھی کہ بالآخر ؎ ہلالِ عید بنا ہے کلیدِ عیش و نشاط… جہاں میں بچھ گئی، پھر سے مسّرتوں کی بساط۔ میٹھی عید کی شیرینی و حلاوت سے جس قدر لُطف اندوز ہوسکتے ہیں، ضرور ہوں۔ ہماری طرف سے آپ سب کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ’’عید الفطر‘‘ بہت بہت مبارک ہو۔