جویریہ صدیق...پولیو وائرس عمر بھر کی معذوری دے جاتا ہے۔اس لئے اپنی نئی نسل کو اس بیماری سے محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔پولیو وائرس انسانوں میں گندے پانی جراثیم آلود اشیا ء خوردونوش اور انسانی فضلے سے منتقل ہوتا ہے۔اس کا شکار وہ افراد ہوتے ہیں جنہوں نے انسداد پولیو ویکسین کی خوراک نہ لی ہو۔
اس بیماری کا کوئی علاج نہیں بعض صورتوں میں لوگ مفلوج اور بعض میں موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔پانچ سال سے کم عمر کے بچوں پر اس خطرے کی تلوار زیادہ لٹک رہی ہے کیونکہ وہ اس وائرس کا آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔ اس کی ابتدائی علامات کچھ یوں ہیں۔ بخار، سردرد جسم میں اکڑائو اور الٹیاں وغیرہ شامل ہے۔ اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد بھی بہت سی دیگر امراض بھی انسان پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے علاوہ اس بیماری کا خاتمہ تمام ممالک سے ہوچکا ہے ۔گنی، مڈغاسکر،میانمر،نائیجیریا،کیمرون اور یواکرائن کو عالمی ادارہ صحت مانیٹر کر رہا ہے کہ ناقص صحت و صفائی کی وجہ سے اس مرض کا دوبارہ پھیلاو ٔنا ہوجائے۔
پاکستان کے بیشتر علاقے پولیو فری ہیں لیکن فاٹا جوکہ افغانستان کے ساتھ متصل ہے وہاں سے یہ وائرس ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہوا۔اس ہفتے کی صورتحال کا جائزہ لیں تو بنوں خیبر پختون خوا سے پولیو وائرئس ٹائپ ون کا کیس سامنے آیا۔یوں اس سال پولیو کیسز کی تعداد گیارہ ہوگئی۔
اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو یہ تعداد خوفناک حد تک زیادہ تھی۔ 2009 میں یہ تعداد89، 2010 میں 144، 2011میں 198، 2012میں 58،2013میں 93،2014میں 306 جبکہ 2015میں 54رہی۔
2016 میں صرف گیارہ کیسز سامنے آئے، جس کی بڑی وجہ امن و امان کی صورتحال میں بہتری اور وزیراعظم کے انسداد پولیو سیل کی محنت اور انسداد پولیو ورکرز کا عزم و ہمت شامل ہے۔
کامیاب ضرب عضب آپریشن کی وجہ سے پولیو ٹیمز ان علاقوں تک بھی رسائی پا سکی جہاں پہلے پہنچنا ناممکن تھا۔تاہم اب بھی کوئٹہ پشین خیبر ایجنسی شمالی وزیرستان ایف آر بنوں پشاور ٹانک بنوں کراچی بلدیہ گڈاپ مظفر گڑھ ہائی رسک ایریاز ہیں،سکھرسے مارچ میں پوزیٹو سیمپل ملا۔
اس سال صرف گیارہ کیسز کا سامنے آنا گذشتہ سال کی نسبت قدرے کم ہے لیکن عالمی ادارہ صحت ان ابھی تک پاکستان پر لگائی گئی پابندیاں نہیں اٹھائیں۔گذشتہ برسوں میں جب پاکستان سے پولیو وائرس شام اور غزہ منتقل ہوا اس کے بعد سے عالمی ادارہ صحت نے پاکستان پر سفری پابندیاں عائد کردی تھیں۔جس کی وجہ سے ہر مسافر کو پولیو ویکیسن پینا لازمی قرار دیا گیا اور پولیو ویکسین سرٹیفیکٹ ایئرپورٹ پر دکھنا لازم قرار ٹھہرا۔
اس وقت بھی عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں پولیو کی صورتحال کو تشویش ناک قرار دے کر عالمی سفری پابندی برقرار رکھتے ہوئے اس میں تین ماہ کی توسع کردی ۔ادارے کے مطابق تین ماہ کے دوران پاکستان سے افغانستان پولیو وائرس منتقل ہوا۔
انسداد پولیو مہم اس وقت ملک میں جاری ہے حکومت کے ہدف ہے کہ پولیو کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور کوئی بچہ پولیو ویکسین سے رہ نہ جائے۔اس مہم کو سب سے زیادہ نقصان لوگ کے فرسودہ خیالات ،طالبان کی طرف سے پولیو مہم پر پابندی،ٹیمز پر حملوں اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کا انسداد پولیو اہلکار کے روپ میں جاسوسی کی وجہ سے ہوا۔
علما کرام لوگوں میں اس پیغام کو پھیلائیں کہ ویکسین میں کچھ مضر صحت نہیں ہے۔اس کے ساتھ حکومت انسداد پولیو ٹیمز کو مکمل سیکورٹی فراہم کرے۔یہ ورکرز سخت موسموں میں گھر گھر جاکر پولیو ویکسن پلاتے ہیں ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان پولیو کے خاتمے سے صرف چند قدم کے فاصلے پر ہے۔اس کے لئے بہت ضروری کے والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلاوائیں۔حکومت ان ٹیمز کو مکمل سیکورٹی فراہم کرے۔حکومت سول سوسائٹی علما کرام اور میڈیا مل کر ہی اس بیماری کو شکست دے سکتے ہیں۔ حکومت صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے اور نکاسی آب کا نظام موثر کرے۔حفظان صحت کے اصولوں پر عمل درآمد کرکے ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو اس بیماری سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔