• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلی حکومت اور امیرانہ جمہوریت کے 2013ء ماڈل میں بہت ساری خوبیاں مشترکہ ہیں لیکن اُس حکومت کی رفتار گزشتہ وزیرِ ریلوے والی تھی جبکہ نئی جمہوریت کی رفتار نئی وزارتِ ریلوے جیسی ہے۔ ریلوے اس بات کا مستحق ہے کہ اس پر کھل کر الگ سے بات کی جائے جو پھر کبھی سہی۔ دونوں حکومتوں کی مشترک خوبیوں کاصرف ایک پہلو ہی دیکھیں تو لطف آ جاتا ہے۔ گزشتہ حکومت کا پہلا بجٹ اور تازہ حکومت کا اولین بجٹ ایک ہی وزیرِ خزانہ صاحب نے دیا۔ یہ وزیرِ خزانہ حکومت میں آنے سے پہلے مجھے اور اپنے آپ کو ’’بری امام گروپ‘‘کہا کرتے تھے اور رضا ربانی کو پارٹنر کا ٹائٹل دیتے تھے۔ پچھلی حکومت نے اپنے آخری بجٹ کے مالی سال میں پانچ سوارب روپے کے نوٹ چھاپے۔ میرے جیسے کم علموں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہر نوٹ کے پیچھے اتنی ہی مالیت کا سونا ہو تو اسے کرنسی کہا جاتا ہے۔ ورنہ اسے paper money"ـ" یا کاغذی کرنسی کہتے ہیں۔کاغذی نوٹ چھاپنے کا نتیجہ نوٹوں کی تعداد سے زیادہ افراطِ زر، روپے کی قیمت میں کمی اور مہنگائی کے طوفان کا پہلا سبب ہوتا ہے۔ اس لئے موجودہ حکومت نے اس میدان میں پچھلی حکومت کی پیروی نہیں کی بلکہ اسے عبرت ناک شکست دے دی۔ تازہ دم جمہوریت نے سال 2012ء کے بارہ مہینوں میںچھاپے گئے پانچ سو ارب نوٹوں کے مقابلے میں محض ڈھائی ماہ کے دوران624 ارب روپے کی کاغذی کرنسی چھاپ کر نیا عالمی ریکارڈ بنا لیا۔ اس وقت ایشین ٹائیگر کی ساری معاشیات اور معیشت دو نکتوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ پہلا نکتہ ورلڈ بینک کا قرضہ+ آئی ایم ایف کا قرضہ+ نیٹو کی امداد کے نتیجے میںملنے والے کولیشن سپورٹ فنڈ کے ڈالرہیں۔ اس کا دوسرا نکتہ، اسلام آباد کا نیا شہر+ اسلام آباد کے لئے جڑواں شہروں میں تیسرا ایئرپورٹ+ بلٹ ٹرین + معاشی زون+ موٹر وے کا جال اور میگا پروجیکٹ+ میگا میگا پروجیکٹ+ میگا میگا میگا پروجیکٹ۔ ان سب کے لئے ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟ اور یہ پروجیکٹ آپ کے پوتے کا پوتا کب استعمال کرے گا؟ انشاء اللہ یہ ساری تفصیل 2018ء کے جمہوری الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران جلسوں کے ذریعے غریب عوام تک پہنچائی جائے گی۔ امید ہے آپ یہ سب پڑھتے ہوئے چکر نہیں کھائیں گے۔ اگر آپ چکرا گئے تو اُس کا علاج بھی برانڈڈ جمہوریت ہی کرے گی۔ کب تک؟ یہ تو معلوم نہیں مگر تب تک آپ سستا آٹا+ سستی روٹی+ سستی شہرت+ تڑکا دال اور ڈاچی سواری کے مزے لیں۔ اگر بھوک بڑھ جائے تو مصالحے دار خیالی پلائو+ برانڈڈ ربڑی اوردہی بھلے+ غیرت کا مینوکھا کر سکندر برانڈ انرجی ڈرنک پی لیں۔ اگر پاکستان کے غریب عوام زمین پر سستی روٹی اور سستی دال نہ ڈھونڈ سکیں تو اس کا بھی آسان علاج موجود ہے۔ سرکاری ٹی وی نے اڑا رکھا ہے کہ ملک کے باسٹھ فیصد لوگ صرف اور صرف اُسی کو دیکھتے ہیں۔ اس پُر اثر نعرے سے متاثر ہو کر ہماری کامیاب سرکاری پالیسیوں کو بھی باسٹھ فیصد کامران لوگوں نے پسند کرنا شروع کر دیا ہے۔ سرکاری ٹی وی دیکھنے اور سرکاری پالیسیوں کو پسند کرنے والے باسٹھ فیصد لوگوں کی بھاری اکثریت ریڈ زون کے اندر کی مستقل رہائشی ہے۔ چونکہ سرکاری ٹی وی اور اسپانسر شدہ سروے یہ نہیں بتاتے کہ جن چند درجن ’’عوام‘‘ سے اُن کی بات ہوئی اُن میں ووٹر کتنے تھے…؟ اس لئے یہ امکان موجود ہے کہ ریڈ زون کی اس باسٹھ فیصد آبادی میں اکثریت نرسری او ر مونٹیسوری والے نونہالوں کی ہوگی جو سوال و جواب کے لئے مل جاتے ہیں۔ ورنہ ریڈ زون کے اندر رہنے والے وزیر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کے لئے بھی نہیں ملتے۔ اگر انہیںکابینہ کی میٹنگ سے جبری طور پر ایوان میں بھیجا جائے تو اسپیکر کو حکومت کے حق میں مبارک سلامت کی رولنگ دینا پڑتی ہے۔ مجھے ایک سیاسی پارٹی کے بڑے پارلیمانی سیاست دان نے بتایا کہ اُن سے بھی بڑے سیاست دان اُن کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے لیکن جب سے حکومت میں آئے ہیں تب سے وہ نہ ٹیلی فون سنتے ہیں نہ پیغام کا جواب دیتے ہیں۔ ایک استاد شاعر نے ایسے لیڈروں کے لئے کیا کہا پہلے وہ سنئے پھر بتائوں گا کہ میں نے لیڈر کی بے وفائی سے غمزدہ پارلیمنٹیرین کو کیا جواب دیا۔
کام لیڈر کو بہت ہے، مگر آرام کے ساتھ
قوم کے غم میں ڈنر کھاتا ہے، حکام کے ساتھ
میں نے انہیں بتایا کہ فیض آباد انٹر چینج سے اسلام آباد ایئرپورٹ جاتے ہوئے بائیں ہاتھ پر میرے رشتہ داروں کا گائوں ہے جس کا نام ہے سوہان۔ جہاں پچھلے سال سائیں بھاگ کے عرس پر گھوڑوں کا میلہ تھا۔ میں اپنے چھوٹے بیٹے عبدالرحمن کے ساتھ بیرسٹر حسن ملک کی دعوت پر شریک ہوا۔ میرا بیٹا ایک خوبصورت گھوڑے کو ہاتھ لگانا چاہتا تھا۔ گھوڑا مستی میں تھا اور ظاہر ہے میلے میں بھی تھا اس لئے عبدالرحمن کی خواہش کے جواب میں گھوڑے کے ٹرینر نے کہا ۔ کچھ دیر بعد گھوڑا اصطبل میں واپس جائے گا تب ہمارے ہاتھ چاٹے گا۔ اس پر پارلیمنٹیرین دوست نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا، قہقہہ لگایا اور مجھ سے پوچھاتو پھر میں بھی اصطبل میں واپسی تک انتطار کروں؟میں نے جواب دیا غریب عوام بھی تو انتظار ہی کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہارنے کے بعد جو گھوڑا بھی اصطبل میں واپس آتا ہے اُسے غریب کارکن یاد آ جاتے ہیں۔ آج کل سرمستی کا یہ عالم ہے کہ میلسی کے نالے میں جہیز سے محروم کسان کی پانچ بیٹیاں چھلانگ لگا لیں تب بھی نہ کوئی جمہوریت نواز ،نہ کوئی انقلابی، نہ کوئی ترقی پسند اور نہ ہی کوئی خادمِ اسلام حکمران استعفے کا سوچتا ہے ،نہ ہی سرکار شرمندہ ہوتی ہے۔ وہ تو اُن پینتیس منافع بخش قومی اداروں کی لوٹ سیل کیلئے غریب خریدار تلاش کر رہی ہے، جن کو یہ ادارے ایک روپے یا تین روپے کی علامتی قیمت پر بیچے جا سکیں۔
تازہ ترین