• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زرد رنگی آکاس بیل ایک ایسی جڑی بوٹی ہے جس کی جڑیں زمین میں ہوتی ہیں نہ آسمان پر، بس یہ خودرو جڑی بوٹی اچانک ہرے بھرے پودوں میں نمودار ہوتی ہے، آناً فاناً انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ یہ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اپنے مطلوبہ ہدف والے پودے کو پوری طرح اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ یہ بوٹی پودے کی آکسیجن تک روک لیتی ہے۔پھر کوئی سانس آتی ہے نہ جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے متاثرہ پودا سوکھ کر زمین پر آگرتا ہے۔آکاس بیل ایسا منحوس سایہ کرتی ہے کہ کوئی درخت پھل دیتا ہے نہ کسی پودے پر دوبارہ کوئی پھول کھلِتاہے۔ آپ اسے نحوست کی علامت کہیں یا اداسی کا استعارہ۔ بات ایک ہی ہے کہ یہ آکاس بیل جس آنگن میں گرتی ہے وہاں پریشانیاں، ویرانیاں، نفرتیں ڈیرے ڈال دیتی ہیں۔ بچپن میں ہم نے بھی آس پڑوس کے گھروں کی بیرونی سبز باڑوں میں ایسی آکاس بیلیں دیکھی ہیں کہ جب یہ زرد رنگی منحوس بیلیں ان ہری بھری باڑوں کو جکڑ لیتی تھیں تو پھر لاکھ جتن کریں ان سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں رہتا تھا۔ آکاس بیل کی پرورش اور طاقت پودے کے سائے میں ہی ہوتی ہے۔ ماہرین کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ باریک دھاگوں، ریشوں کی شکل والی اس جڑی بوٹی کا کیمیائی مزاج سخت گرم، انتہائی کڑوا ہے۔ اس کے طبی فوائد کا تو کچھ خاص اندازہ نہیں لیکن ماہرین کے بیان کردہ حقائق سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جڑی بوٹی نہ نگلی جاتی ہے نہ اُگلی جاسکتی ہے۔ آپ لاکھ کوشش کریں کہ پودے کو اس کی ہلاکت خیزی سے بچا لیں لیکن مکمل صفائی کے باوجود یہ کچھ دنوں بعد پھر سر اٹھالیتی ہے۔ نتیجتاً متاثرہ پودے کو ایک دن جڑ سے ہی اکھاڑنا پڑتا ہے۔ یہ آکاس بیل آج کل ہمارے ماحول کے اردگرد پھر منڈلاتی نظر آرہی ہے۔ دھیرے دھیرے ہمیں غیر محسوس انداز میں ایسے جکڑ رہی ہے کہ بچ نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیںدے رہی۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ جب سے آکاس بیل نے چودھریوں کے گھر کی راہ لی ہے وہاں بھی بٹوارہ کرا دیا ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ گجرات کے چودھری خاندان میں سیاسی اور خاندانی طور پر اتنی بڑی دراڑ پڑی ہے۔ افسوس آکاس بیل نے چودھریوں کی سیاست پر بھی اپنا سایہ ڈال دیا ہے۔ یہ کیسی بیل ہے جو منڈیر چڑھنے کی بجائے کبھی جمہوریت کے گھر پارلیمنٹ میں گھس کر فساد برپا کرتی ہے تو کبھی پنجاب اسمبلی میں کرائے کے غنڈوں سے اراکین کی ٹھکائی کراتی ہے۔ یہ کبھی سپریم کورٹ کی دیواروں پر گندے کپڑوں کی طرح لٹک جاتی ہے، یہ وہی ہے جو کبھی ثاقب نثار کے سائے میں پرورش پاتی رہی۔ آج جب جمہوریت کے تحفظ، آئین و قانون کی بالادستی کا معاملہ آیا تو یہ زرد بیل انصاف کے ایوانوں کو بھی دباؤ میں لانے پر تلی نظر آتی ہے۔ حد تویہ ہے کہ اس آکاس بیل نے اپنے محسنوں کو بھی گھیر لیا ہے۔ وہ جو بڑے لاڈ پیار سے اقتدار کے گلدانوں میں اُسے سجاکرلائے تھےیہ آج انہیں بھی آنکھیں دکھا رہی ہے۔یہ آکاس بیل کوئی قاعدہ قانون مانتی ہے نہ اسے آئین و قانون کا کوئی احترام ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ تو لگاتی ہے لیکن پارلیمنٹ کے جمہوری حق تحریک عدم اعتماد کے نتائج کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ یہ امریکی سازش کی آڑ میں اقتدار میں اپنی واپسی کی خواہش پوری کرنے کی خاطر ہر طرف نفرتوں کے بیج بونا چاہتی ہے۔ حضرت علی ؓکا قول ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو، اب دیکھتے ہیں کون کون اس کے شر سے بچتا ہے۔ ابھی تو چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان نشانے پر ہیں اور آثار یہی دکھائی دیتے ہیں کہ ہر طرف سے ناکامی کے بعد یہ آکاس بیل اسلام آباد کی سڑکوں پر اپنا سایہ کرے گی۔ نظر یہی آتا ہے کہ عام انتخابات جلد از جلد کرانے کے جنون میں سڑکوں کوخونِ خلق سے سرخ کرنے کا ارادہ ہے۔ کل کی متحدہ اپوزیشن کو آج اقتدار میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی تو ہوئے ہیں۔ اس آکاس بیل کو مہنگائی بھی نظر آنے لگی ہے، پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے پر عوام کی چیخیں بھی قبل از وقت سنائی دے رہی ہیں لیکن امریکی سازش کے نام نہاد بیانیے کی آڑ میں شور ڈالنے والے کیا وہ دن بھول گئے جب ڈالر ہوا میں اُڑ رہا تھا۔ چینی 160 روپے کلو بلیک میں بھی دستیاب نہیں تھی۔ ہر پندرہ دن بعد آئی ایم ایف کی شرائط پر ڈیزل، پٹرول کی قیمتیں بڑھائی جارہی تھیں۔ بہت دور کی بات نہیں کہ جب یہ نعرے لگانے والے یوریا کھاد خریدنے کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے تھے۔ آج اسی کے نتائج یہ آرہے ہیں کہ گندم کی مجموعی پیداوار میں پچیس فیصد کمی نظر آرہی ہے۔ کل اپنے ہی پیدا کردہ اس بحران پر آکاس بیل کی چھوٹی چھوٹی نیلی پیلی تاریں سوشل میڈیا پر یہ شور مچاتی نظر آئیں گی کہ آٹا چور، گندم چور، وہ دن بھی یاد کریں اورآج کے دن بھی دیکھیں کہ صرف تین ہفتوں کے دوران چینی 70 روپے کلو دستیاب ہے، پٹرول، ڈیزل کی قیمتیں، سپلائی کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، بجلی کے بند پاور پلانٹس فوری طور پر چالو کرکے یکم مئی تک لوڈشیڈنگ سے پیدابحران ختم کرنے کی ہدایت کی جا چکی ہے۔ آپ میری رائے کو ایک طرف رکھیںخود دیانت داری سے فیصلہ کریں کہ اس آکاس بیل کی آبیاری کرنی ہے جو ہر ادارے کوکھاجانے کے در پےہے یا ان کا ساتھ دینا ہے جو برباد کیے گئے نظام کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاریخ آپ کو دھرنوں اور سونامی کی سیاست کرنے والے کے نام سے یاد رکھے گی۔ آپ کا یہ بیانیہ آنے والے وقتوں میں انارکی، فساد، خون خرابے، اداروں کی تذلیل کا سبب بنے گا۔ بقول مرشد میں بہت خطرناک ہو جاؤں گا اور مرشد کا کہا کبھی جھوٹ نہیں ہوتا۔

تازہ ترین