ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری
عید الفطر اللہ تبارک وتعالیٰ کے بندوں پر اس کے انعامات میں سے ایک عظیم انعام ہے اور روزے داروں کے لیے راحت کا ایک موقع ہے کہ بند ہ مؤمن نے حکم خداوندی کو پورا کیا۔ ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو قربان کر کے رضائے الہٰی کو پیش نظر رکھا توا للہ عزوجل نے اسے یہ انعام عطا فرمایا اور قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اس کی کامیابی کا اعلان فرما دیا، جیساکہ ارشاد ہے۔’’بے شک وہی بامراد ہوا جو پاک ہوگیا اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور نماز پڑھتا رہا ‘‘۔ رمضان المبارک کے روزے ان چیزوں کا مصداق ہیں کہ اپنی خواہشات کو ضبط میں رکھا اور روزے رکھ کر نمازیں ادا کیں تراویح پڑھی اور اپنے رب کو یاد کیا۔
ہر قوم و قبیلے کے کچھ خاص تہوار اور جشن کے دن ہوتے ہیں، اس جشن اور تہوار منانے کے دن اس قوم کے لوگ اپنی حیثیت کے مطابق عمدہ لباس پہنتے ہیں۔ اچھے اچھے کھانے پکاتے ہیں اور اپنی خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں،یہ انسانی فطرت اور مزاج کا خاصہ ہوتا ہے، اسی لیے سطح زمین پر کوئی ایسا طبقہ نہیں ہے کہ جن کے تہوار یا ایام جشن نہ ہوں، دین اسلام میں بھی دودن ایسے رکھے گئے ہیں ایک کو عید الفطر اور ایک کو عید الاضحی کہتے ہیں، یہ دو دن مسلمانوں کے علمی ومذہبی تہوار ہیں عید الفطر رمضان المبارک کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے رمضان المبارک کے ایام جو بندہ مؤمن نے نہایت اہتمام اور ذمہ داری سے گزارے ۔
یہ دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر اور مزدوری وصول کرنے کا ہے، اس ضمن میں نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے’’جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو فرشتے اللہ کے حکم سے زمین کی طرف نزول فرماتے ہیں اور راستے میں کھڑے ہوکر یہ کہتے ہیں اور ان کی یہ صدا انسان اور جنات کے علاوہ تمام مخلوقات سنتی ہے ،وہ یہ کہتے ہیں اے امتِ محمد یہ کے لوگو!اپنے رب کریم کی طرف نکلو جو تمہیں بہترین جزا دینے والا ہے اور تمہارے گناہوں کی مغفرت کرنے والا ہے۔اور جب اللہ کے بندے نماز کے لیے اپنا مصلیٰ پھیلا دیتے ہیں تو اللہ تبارک تعالیٰ ملائکہ سے ارشاد فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! جب کو ئی مزدور اپنا کام مکمل کرلے تو اس کی محنت و مشقت کا صلہ کیا ہونا چاہیے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ ہمارے رب اس مزدور کا صلہ اور جزا یہ ہو نا چاہیے کہ اسے اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے انہیں ان کے صیام و قیام کا بدلہ دے دیا اور اپنی رضا اور مغفرت انہیں عطا کردی‘‘۔
حدیث نبویؐ میں ہی ایک دوسرے مقام پر یوں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہےکہ ’’اے میرے بندو! تم نے میری رضا کی خاطر روزے رکھے اور قیام کیا اب تم اپنے گھروں کو اس حالت میں لوٹ جائوکہ تمہاری مغفرت کردی گئی ہے۔اسی لیے نبی کریم ﷺ نے عید الفطر کے بارے میں ارشاد فرمایا ، یوم فطر کا اکرام واحترام کیا کرو اور اس دن اللہ کی نافرمانی والے اعمال اور لوگوں کو ضرروتکلیف دینے والے افعال سے پرہیز کیا کرو۔’’کیوں کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بڑا کرم فرمایا ہے۔
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے ایک شخص ملاقات کے لیے آیا، عید کا دن تھا۔ آپ ایک خشک روٹی تناول فرمارہے تھے ،اس شخص نے کہا ،اے امیر المومنین ! آج عید کا دن ہے خوشی کا موقع ہے اور آپ خشک روٹی تناول فرما رہے ہیں۔ حضرت علی ؓ نے جو اباً فرمایا :عید تو اس کی ہے جس کے روزے قبول ہوگئے ہوں اور اس کی سعی و کاوش کی اللہ کے حضور تعریف ہوگئی ہو اور گناہوں کی مغفرت ہوگئی ہو ،ہر وہ دن کہ ہم اللہ کی معصیت اور نافرمانی سے بچ کر گزار دیں، وہ ہم سب کے لیئے عید کا ہی دن ہے‘‘۔
عیدلفطر چوں کہ ایک مبارک دن ہے ۔اس لیے اس دن چند باتیں مسنون ہیں، جن کا اہتمام ہونا چاہیے ۔شرعی پابندی کے مطابق اپنی آرائش و زیبائش کرنا، غسل کرنا ،مسواک کرنا، اچھے صاف ستھرے کپڑے پہننا، خوشبو کا استعمال کرنا،صبح جلدی اٹھنا،عید گاہ کی طرف نکلنا ،عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھجور وغیرہ کھانا، عید کی نما ز ادا کرنے سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کرنا،جس راستے سے عید گا ہ کے لیے جائے تو واپسی کے لیے دوسرراستہ ا ختیار کرے، راستے میں اللہ کی بڑائی اور کبریائی کے الفاظ ادا کرتے ہوئے جانا۔
اللہ والوں نے امت کے افراد کو اپنے اپنے انداز میں یوم عید پر رہنمائی اور تنبیہ فرمائی ہے۔ مثلاً عید اس کی نہیں ، جو صرف نئے کپڑے پہن لے،عید تو اس کی ہے جو خوفِ خدا کا دھیان رکھے ،عید اس کی نہیں ہے جوخوشبوئوں میں بسا ہوا ہو، عید اس شخص کی ہے جو توبہ و استغفار کرے ،عید اس شخص کی نہیں ،جو دنیا کی زیب و زینت سے آراستہ وپیراستہ ہو ،عید تو اس شخص کی ہے جس کے پاس تو شۂ آخرت ہو، عید اس شخص کی نہیں، جو عمدہ سواریوں پر سوار ہو، بلکہ عید تو اس شخص کی ہے جو گناہوں اور معصیت کو چھوڑ دے، عید اس شخص کی نہیں، جو اعلیٰ بچھو نوں اور عمدہ قالین پر بیٹھے، بلکہ عید تو اس شخص کی ہے ، جو پل صراط سے بآسانی گزر جانے کی فکر و سعی کرے،عید اس کی نہیں جو روز عید غناء و موسیقی سنے ، عید تو اس شخص کی ہے جو روزِعید بھی تلاوت قرآن کرے اور ذکر الہٰی میں مصروف رہے۔
عید کا مقصد رضائےالٰہی کا حصول ہے پھر عید کے اجتماعات سے مسلمانوں کی اجتماعی شان و شوکت اور اتحاد و اتفاق کا بھی اظہارہوتا ہے ،جب وہ مسلمان جن کا مختلف ثقافتوں، تہذیبوں، علاقوں اور زبانوں سے ہوتاہے،اس موقع پرعیدگاہ میں جمع ہوتے اور ہر ایک سے اظہار مسرت کے لیے ملتے اور مبارک باد دیتے ہیں۔ وہ اللہ رب العزت کے بندے اور محمد مصطفی ﷺ کے امتی ہونے کی حیثیت سے کاندھے سے کاندھا ملاکر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتے ہیں، دوگانہ ادا کرتے ہیں، خطبہ مسنونہ سنتے ہیں ،پھر اللہ کی حمد و ثناء اور اس کی کبریائی کا ترانہ پڑھتے ہوئے تمام رنج و غم بھلا کر ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔
مصافحہ کرتے ہیں عید کی مبارک باد دیتے ہیں، دعائیں دیتے ہیں، یہی عید کا پیغام ہے کہ ہم سب نفرتیں اور عداوتیں مٹاکر ملت واحد بن جائیں عید کے دن کا تقاضا یہی ہے کہ ہم تجدید عہد کریں، تجدید وفا کریں، توبہ کریں، اپنی غلطیوں پر معافی کے طلب گار رہیں تو انشاء اللہ ،اللہ تعالیٰ ہمیں پھرسے ہماری متاعِ گم گشتہ عطا فرمادیں گے۔