• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ عجب طرفہ تماشا رہا کہ جن اشیا، خاص طور پر اشیائے خورونوش کی ملک میں ضرورت بڑھتی رہی نہ صرف یہ کہ ان کی برآمد کی بھی اجازت دی جاتی رہی بلکہ ان کی اسمگلنگ بھی ہوتی رہی، جن میں چینی، آٹا اور دیگر اجناس شامل تھیں، چنانچہ پاکستان میں ان اشیا کی قلت ہوتی چلی گئی اور وہ ملک جو یہ چیزیں برآمد کرتا تھا درآمد کرنے پر مجبور ہو گیا جس سے تجارتی خسارہ بڑھ گیا اور معیشت کو ایک اور جھٹکا لگا۔ پاکستان کی زرعی پیداوار صرف ملک میں ہی رہے تو غریب کو مہنگائی سے نجات مل سکتی ہے لیکن افسوس کہ ایسا نہ کیا گیا اور نتیجہ سامنے ہے۔ دریں حالات اس اقدام کو احسن ہی قرار دیا جائے گا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے چینی کی مقامی طلب کو پورا کرنے کیلئے اس کی برآمد پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں، ناجائز منافع خوروں اور مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے اور اس سلسلے میں غفلت اور کوتاہی ہوئی تو متعلقہ افسر اور عملہ ذمہ دار ہوگا۔ چینی کی قلت خاص طور پر پنجاب کے یوٹیلیٹی اسٹورز پر رپورٹ کی گئی جہاں سے چینی غائب ہو گئی کہ اسٹورز کی انتظامیہ نے تیل اور چینی کی خریداری کو دیگر چیزوں کی خریداری سے مشروط کر رکھا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ترجمان سجاد رحمٰن نے بتایا کہ اسٹورز میں رش کی وجہ سے عارضی طور پر چینی کی قلت ہوئی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی کو مہمیز دینے میں جن عوامل کا بنیادی کردار ہے ان میں، اول پیداواری لاگت میں اضافہ اور پیداوار میں مسلسل کمی جبکہ دوئم ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ اور ناجائز منافع خوری جس کا ملک بھر کے عوام کو سامنا ہے کہ ایسے عناصر ہر جگہ موجود ہیں اور بعض تو بڑے اثر و رسوخ والے بھی ہیں کہ ان کو کسی ایکشن کی پروا ہی نہیں۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ میاں شہباز شریف جس کام کو کرنے کی ٹھان لیں پھر وہ اسے انجام تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین