• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیر کی تاریخ کے بارے میں ہمارا تاثر یہ ہے کہ انگریز سفارتکار تھامس رو ہندوستان میں تجارت کا اجازت نامہ حاصل کرنے کی غرض سے مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار میں پیش ہوا، وہاں اُ س نے جہانگیر کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے رام کیا، بھولے بھالے جہانگیر نے تجارت کی اجازت دے دی، انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی اور پھراُس کمپنی نے اطمینان سے پورے بر صغیر پر قبضہ کر لیا۔ حقیقت میں چاہے ایسا ہی ہوا ہو مگر اِس سارے کام میں انگریزوں کو لگ بھگ دو سو سال لگ گئےاور اِس دوران انہیں مقامی حکمرانوں سےکئی جنگیں لڑنی پڑیں۔ ویسے تو اِن تمام جنگوں کی کہانیاں کافی سبق آموز ہیں مگر ایک جنگ ایسی ہے جس کے کرداروں کا حوالہ آج کل بہت زور و شور سے دیا جا رہا ہے، تو ذرا دیکھتے ہیں اُس جنگ کے کردار آخر کون تھے؟

سن 1750 تک ایسٹ انڈیا کمپنی بر صغیرمیں اپنے پنجے گاڑ چکی تھی، مدراس میں کمپنی نے رابرٹ کلائیو کو ڈپٹی گورنر مقرر کیا تاکہ وہ کمپنی کے ’دشمنوں‘ کا مقابلہ کرکے کمپنی کی سیاسی طاقت میں اضافہ کرسکے۔نواب سراج الدولہ اُس وقت بنگال کانیا گورنر تھا جس کی شہرت ایک اذیت پسند شخص کی تھی اور جو طاقت اور اقتدار کےلیے پاگل اور جنونی سمجھا جاتا تھا۔اُس کے پاگل پن کا یہ عالم تھا کہ وہ محض اپنی تفریح کی خاطرعام لوگوں کی کشتیوں کو دریا میں ڈبو دیا کرتا تھا اورایسا وہ تب کرتا جب اُن میں سوار اکثرلوگ تیرنا نہیں جانتے تھے۔ عیاشی کا بھی رسیا تھا،وہ نہ صرف اپنے جرنیلوں کے ساتھ توہین آمیز رویہ رکھتا تھا بلکہ اپنے فنانسرز کی بھی بے عزتی کردیتا تھا جن میں اُس وقت کے ایک اہم خاندان’جگت سیٹھ‘ کے لوگ بھی شامل تھے۔سن 1756 میں سراج الدولہ اپنے ستّر ہزار سپاہیوں کے ساتھ کلکتہ میں داخل ہوا، وہاں کا نالائق گورنر راجر ڈریک اُس کا مقابلہ نہ کرسکا، سراج الدولہ نے کلکتہ میں خوب لوٹ مار کی، انگریز قیدیوں کو اُس نے ایک تنگ سی جگہ پر بند کردیا جسے ’بلیک ہول‘ کہا جاتا ہے، بہت سے لوگ اُس میں دم گھٹنے سے مر گئے۔ اِس واقعے نے کمپنی کی چولیں ہلا دیں، انگریز اشرافیہ نے چونکہ کمپنی کے حصص میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی اِس لیےکمپنی کے افسران کا مستقبل کمپنی کے ساتھ وابستہ تھا، اِن حالات میں کمپنی کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہر انگریز کی اولین ترجیح بن گئی۔ تاریخ کے اِس موڑ پر رابرٹ کلائیو نے اپنی تین رجمنٹس کے ساتھ سراج الدولہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کردیا، یہ پہلا موقع تھا کہ کمپنی نے کسی ہندوستانی نواب کے خلاف با ضابطہ جنگ چھیڑی ہو۔دریں اثنا جگت سیٹھ کا خاندان، جو سراج الدولہ کے رویے سے اُس سے نالاں تھا، کمپنی سے جا ملا اور سراج الدولہ کے عراقی جرنیل میر جعفر کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا تاکہ اسے سراج الدولہ کی جگہ نواب بنایا جا سکے۔ اِس کام کے لیے سیٹھوں نے رابرٹ کلائیو کو رشوتیں بھی دیں جو اُس نے بخوشی قبول کرلیں اور اپنے افسروں کو قائل کیا کہ سراج الدولہ کو ہٹانا کمپنی کے عین مفاد میں ہوگا۔سن 1757 میں جنگ پلاسی ہوئی، پلاسی کے میدان میں اچانک مون سون بارشوں کی وجہ سے جنگ کا پورا نقشہ ہی بدل گیا، کمپنی کے سپاہیوں کو اِس بات کا اندازہ تھا سو وہ اپنے ہتھیاروں کو خشک رکھنے میں کامیاب رہے جبکہ سراج الدولہ کی فوج کو نئے جنگی ہتھیاروں کا تجربہ نہیں تھا جس کی وجہ سے انہیں کافی نقصان اٹھانا پڑا۔سراج الدولہ 25 برس کی عمر میں مارا گیا، اُس کی جگہ غدار میر جعفر نواب بن گیا جبکہ رابرٹ کلائیو کو جگت سیٹھوں نے یورپ کا امیر ترین شخص بنا دیا۔ جنگ پلاسی کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ مغل حکمران کمپنی کی تمام شرائط من و عن ماننے پر مجبور ہو گئے، کمپنی کے اختیارات اور مراعات میں اضافہ ہوگیا اور اسے زمین حاصل کرنے کےلیے حقوق بھی حاصل ہو گئے۔ میر جعفر اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان مفادات کاتعلق تو قائم ہوگیا مگر یہ تعلق زیادہ دیر تک نہ چل سکا، میر جعفر اِس بات کا ادراک نہ کرسکا کہ اب وہ کسی مطلق العنان نواب کے ساتھ نہیں بلکہ ایک کارپوریٹ بورڈ کے ساتھ معاملہ طے کر رہا ہے، اسی وجہ سے رابرٹ کلائیو اپنے خطوط میں میر جعفر کو ’عمر رسیدہ احمق ‘ لکھا کرتا تھا۔ میر جعفر ایک ان پڑھ نواب تھا جو تھوڑی بہت چالاکی تو جانتا تھا مگر مجموعی طور پر وہ ایک اناڑی لیڈر ثابت ہوا۔بنگال میر جعفر کے دور میں مزید انارکی میں چلا گیا۔ کمپنی نے میر جعفر کی جگہ اُس کے داماد میر قاسم کونواب بنا دیا، بعد میں کمپنی اور میر قاسم میں بھی جنگ ہوئی۔ سن 1764میں بکسر کی لڑائی میں میر قاسم کو انگریزوں کے ہاتھوں شکست ہوئی، میر قاسم میدان جنگ سے بھاگ گیا اور بعد ازاں غربت میں مارا گیا۔

جنگ پلاسی اور بکسر کی لڑائی کے کرداروں کے بارے میں جو کچھ بھی آپ نے اوپر پڑھا ہے وہ میں نے ولیم ڈیرلمپل کی کتاب ’انارکی ‘ سے لیا ہے، اِس میں میرا کوئی تبصرہ شامل نہیں، میں نے صرف تاریخ کے حقائق اکٹھے کرکے آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں، اب آپ کا جسے دل کرتا ہے سراج الدولہ بنا دیں اور جسے مناسب سمجھتے ہیں میر جعفر کا لقب دے دیں۔میرا تبصرہ فقط اتنا ہے کہ تاریخی نتائج کو کسی ایک واقعہ یا چندشخصیات تک محدود کرنا درست نہیں، نہ سراج الدولہ کسی قومی مقصد کے حصول کی خاطر جنگ لڑ رہا تھا اور نہ ہی میر جعفر یا کلائیو کسی مشنری جذبے کے تحت جہاد کر رہے تھے۔ یہ سب اقتدار،طاقت اور پیسے کی جنگ تھی،اس وقت تک مسلمان اقتدار سے محروم ہو چکے تھے جس کی مختلف تاریخی وجوہات تھیں، نہ کلائیو انگریزوں کا ہیرو تھا اور نہ سراج الدولہ مسلمانوں کا۔ کلائیو اس حد تک بدنام ہوا کہ اسے ’لارڈ گدھ ‘ کہا جانے لگا، اِس بدنامی کے ہاتھوں اُس نے خود کشی کر لی، میر جعفر افیون کا عادی ہوگیا اور بعد میں جذام کی بیماری کا شکار ہو کر مر گیا، اور جنگ پلاسی کے چند دن بعدسراج الدولہ کی لاش ایک دریا سے برآمد ہوئی ۔ تاریخ تو یہی کچھ بتاتی ہے، باقی آپ اور میں اپنے ہیرو یا ولن کا انتخاب کرنے میں آزاد ہیں، جسے چاہے منتخب کرلیں!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین