• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا نے انسان کو اس دنیا میں اپنا نائب بنایا تاکہ اسے آباد کرے اور اسے جنت نظیر بنائے۔ اس کو اچھائی اور برائی کی تمیز دی وہ جب اس کو بنانے پر آتا ہے تو اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ طوفانوں کا رخ موڑ دیتا ہے، ظلم اور زیادتی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر ڈٹ جاتا ہے، وہ امن کا سفیر بن کر محبت و قوت اور دانش کا مظہر بن کر ساری دنیا پر چھا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جب انسان درجہ انسانیت سے گر جاتا ہے تو وہ درندوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے اس کا دل و دماغ ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور وہ اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی جنت کو بھی پامال کر دیتا ہے۔
دنیا میں بہتر طریقے سے زندگی گزارنے کا درس اور طریقہ مذہب سکھاتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں ہمارے مذہب نے ہم کو تہذیب و تمدن کے اعلیٰ اصول دیئے۔ گھٹیا اور فرسودہ رسم و رواج ترک کر کے شان سے جینے کا طریقہ سکھایا۔ آزاد و زندہ رہنے کاحوصلہ دیا، اپنے گھر اور دوسروں کے گھروں کی آزادی و تقدس سوجھ اور سمجھ دی، ایک بہترین معاشی و معاشرتی ماحول دیا مگر افسوس ہمارے پڑوس میں رہنے والا کینہ پرور اور احسان فراموش ہندو نکلا، اس نے کشمیر کی وادی کو خون سے نہلا دیا۔ ملک کے طول وعرض میں مذہب کی بنیاد پر فسادات کئے۔ مساجد کو مندر میں تبدیل کیا۔ اپنے ہمسائے کو مرغوب کرنے کیلئے مئی 1998 میں پانچ ایٹمی دھماکے کئے۔ ان دھماکوں کے بعد ان کے رویے میں حیرت انگیز اور قابل افسوس تبدیلی آئی اور لہجہ بدل گیا، کشمیریوں پر مظالم میں اضافہ ہو گیا اب یہ بات سب کی زبان پر تھی کہ پاکستان کو کیا جواب دینا چاہئے تاکہ اس طاقت کے عدم توازن کو توازن میں بدلا جا سکے اور اس کی ہوس گیری کو لگام دی جا سکے۔ بھارت نے یہ دھماکے اس لئے کئے کہ اسے یقین تھا کہ ان دھماکوں سے پاکستانی قوم اور اس کی افواج کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور وہ ان حالات میں اپنی من مانی شرائط پر کشمیر اور دوسرے معاملات پاکستان سے منوا سکتا ہے، ہمیں ضرورت اس بات کی تھی کہ ثابت کریں کہ ہم میں ایٹم بم بنانے کی صلاحیت ہے لہٰذا پاکستان کے سائنس دانوں نے ایٹمی دھماکوں کیلئے سامان اکٹھا کرکے بلوچستان چاغی کے پہاڑیوں میں پہنچانا شروع کر دیا۔ مئی1998ء کے تیسرے حصے میں یہ سامانC-130 جہاز کے ذریعے کوئٹہ پہنچایا گیا پھر وہاں سے دارالبندین ہوتا ہوا چاغی پہنچا۔ سامان کا کچھ حصہ خاران روانہ کر دیا گیا سب کو ایک ہی دھن تھی کہ خدا ہمیں کامیابی اور کامرانی سے نوازے اور دعا تھی کہ اے اللہ ہمارے اعمال کی طرف نہ دیکھ بلکہ اپنی رحمت سے ہمیں کامیابی دے۔ 28مئی1998 کی سہ پہر3بجکر 17منٹ پر اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر فائرنگ سسٹم کا بٹن دبا دیا گیا۔ کوہ کامران جو کہ گہرے بھورے رنگ کا تھا سفید نظر آنے لگا اور پھر سفید رنگ کی برف نما دھول بڑی تیزی سے آسمان کی طرف اُٹھی پھر پہاڑ کا رنگ پیلا ہوا پھر نارنجی اور بعد میں ہلکا بھورا ہو گیا۔ اس کامیابی کا سہرا ڈاکٹر اے کیو خان، ڈاکٹر ثمر مبارک، ڈاکٹر اشفاق اور اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت اور اُن کی ٹیم کے سر ہے۔ چاغی میں 5کامیاب دھماکوں کے بعد30مئی کو خاران میں بھی ایک کامیاب دھماکہ کیا گیا جس نے پاکستان کے جوہری قوت بن جانے پر مہر لگا دی۔31مئی کو یہ انکشاف ہوا کہ 28مئی کو دشمن کے طیارے سری نگر کے ہوائی اڈے پر تیار کھڑے تھے کہ چاغی پر حملہ کر کے تمام تنصیبات اور سائنس دانوں کو تباہ کر دیں یہ وزیر اعظم نوازشریف کی جرأت کی دلیل ہے کی انہوں نے 27/28 مئی کی درمیانی رات کو اس بات کا علم ہوتے ہی فوری منہ توڑ جواب دینے کا پیغام دیا۔14اگست 1947ء کے بعد 28مئی1998ء کا دن وقت سہ پہر 3:17منٹ کا وقت پاکستان کی تاریخ کا وہ لمحہ ہے جس کے احساس تفاخر نے پوری قوم اور عالم اسلام کے مسلمانوں کا سر غرور و فخر اور خوشی سے بلند کر دیا اور اس واقعہ نے پاکستان کو عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز دیا۔ ہمیں یہاں ذوالفقار علی بھٹو کا وہ جملہ نہیں بھولنا چاہئے، ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے، یہ ذوالفقار علی بھٹو کا ہی کارنامہ تھا جس نے امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک کی پروا نہ کرتے ہوئے1976ءمیں اس منصوبہ پرکام شروع کیا۔
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات اتنے منفرد اور اہم ہوتے ہیں کہ ان لمحوں کی اہمیت اور حیثیت کا مقابلہ کئی صدیاں مل کر نہیں کر سکتیں۔ یہ قیمتی اور منفرد لمحات دراصل تاریخ کا وہ حساس موڑ ہوتے ہیں جہاں کوئی قوم اپنے لیے عزت و وقار اور غرور و تمکنت یا ذلت و رسوائی اور غلامی و محکومی میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرتی ہے ان دھماکوں کا مقصد برصغیر میں طاقت کے بگڑتے ہوئے توازن کی بحالی تھا۔ طاقت کا عدم توازن ایک ایسی لعنت ہے جو طاقتور قوموں کو مزید ظالمانہ بنا دیتی ہے، ان کی ہوس گیری اور ظالمیت بڑھ جاتی ہے کمزور اور پرامن ریاستیں ظلم و ستم کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہی طاقت کا عدم توازن خوفناک جنگوں کو جنم دیتا ہے اور ایسا مسئلہ پیدا کرتا ہے جن کو حل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے خدا کا شکر ہے کہ ان ایٹمی دھما کوں نے بگڑے ہوئے توازن کو بحال کر دیا۔
تازہ ترین