• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجود مختصرمدتی پی ڈی ایم حکومت شبہات اور یقین میں تبدیل ہوتے جن سنگین الزامات میں قائم ہوئی اتنی ہی یہ کنفیوژڈ، پریشان اور بوکھلائی معلوم دے رہی ہے۔ درجن جماعتی اتحاد ی حکومت کی اب تک کی مجموعی حکومتی شخصیت تو یہ ہی بنی ہے لیکن سراپا ایسا ہی نہیں، مدت سے قومی سیاست سے دور ہوئی سندھ کے دیہات میں سمٹ جانے والی پیپلز پارٹی پھر سےاپنا وفاقی رنگ دکھانے لگی ہے، بلکہ بعد از بھٹو امریکہ سے اس کی دوستی جو بھٹو دور میں نئی بنتی عالمی و داخلی سیاست میں دب کر رہ گئی اور کچھ بے نظیر دور میں بحال ہوئی تھی۔ لگتا ہے پھر سے عود کرآئی ہے۔ بلاول پر نظر امریکہ اور جواں سال بلاول کے وزیر خارجہ بننے پر اور کچھ اس سے بھی پہلے ان کو واشنگٹن کے بلاوے معنی خیز ثابت ہوئے، جس پر آصف زرداری شاد ہیں، اتنے کے کل تو انہوں نے مدتوں بعد پریس کانفرنس کرکے پورے پی ڈی ایم خصوصاً ن لیگ، اپوزیشن اور دوسرے پاور کوریڈورز پر واضح کرنے کی اپنے تئیں کھلی کھلی اور بے تکلفانہ انداز میں ببانگ دہل کوشش کی کہ بائیڈن تو میرا یار ہے اور امریکہ مہربان۔ کسی شرارتی یا تیار رپورٹر نے زرداری صاحب سے امریکہ سے کوئی 2ملین ڈالر کا ’’انعام و اکرام ملنے کا سوال جو پوچھا تو جواب آیا، امریکہ تو خود یوکرین وار میں پھنسا ہوا ہے، ہاں جنوبی کوریا سے وفاق کی کوئی پیکیج ڈیل ہوئی ہے جس میں سے سندھ میں صحت عامہ کی حالت بہتر بنانے کے لیے دو ترقیاتی پروجیکٹس کا حصہ صوبے کے لیے منوا لیا ہے۔ کیسی خبر ہے؟ کہ ابھی کسی وفاقی ذریعے سے اس کی بھنک بھی نہیں پڑی کہ اتنے بڑے معاشی اور آئینی بحران میں ایک عبوری سی اور عمران جیسے مقبول ہوتے لیڈر سے عوامی زور پر چیلنج ہوئی پی ڈی ایم کی لڑکھڑاتی حکومت پر جنوبی کوریا حکومت کتنی مہربان ہوئی ہے۔ امید ہے وفاقی حکومت بھی جلد اس کی تفصیلات سے عوام اور دوسری صوبائی حکومتوں کو آگاہ کرے گی کہ آخر مشرقی ایشیا کے جنگی ماحول سے ہمارے دوست کوریا نے اس برے وقت میں جو حق دوستی ادا کیا ہے اس کی جملہ تفصیلات کیا ہیں؟ یا کسی اور نوع کے قرض میں جکڑنے کا تو کوئی اہتمام نہیں ہونے لگا ؟

پی پی کو تو وفاق میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سیاسی زندگی بخشنے والی جو نوازش بلاول کو وزارت خارجہ ملنے سے حاصل ہوئی ہے اس پر بابائے اسٹیٹس کو کے منہ سے نکلا تو ہوگا کہ اندھے کو کیا چاہیے؟ دو آنکھیں، کہ بلاول کی حکومتی سیاست کا آغاز وفاقی اور خارجی و سفارتی سیاست سے ہو رہا ہے، وگرنہ پی ڈی ایم نہ بنتی تو پی پی توابھی دیہی سیاست کے کنویں میں ہی بند رہتی اور تو اور پی پی سازی کےتاریخی قلعہ لاہور میںزرداری کی جماعت مدتوں کی پارلیمانی محرومی کے بعد سیاسی سرگرمیوں کے لیے ہی داخل نہیں ہوئی، خیر سے آئندہ الیکشن میں ن لیگ کا تحریک عدم اتحاد کے ڈیزائنر زرداری سے پی پی کے حق میں قومی اسمبلی کی 20 اور 40 صوبائی نشستوں سے دستبردار ہونے کا بڑا انعام بھی طے پا گیا ہے۔ کتنی زر آور سیاست ہے زرداری کی۔ مقابل پی ڈی ایم سیٹ اپ میںبھی وفاق میں شہبازی حکومت جم رہی ہے نہ پنجاب میں حمزہ کی۔ کہاں بلاول کا حکومتی سیاست کا ثمر آور آغاز اور کہاں حمزہ شہباز کا جس کا مطلوب درجے پر شروع ہونا بھی محال ہوگیا ہے۔ ایک میڈیا ٹاک میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے درست کہا کہ ’’عمران نے نوجوانوں کو گمرا ہ کردیا ‘‘ ایسے میں وہ داخلی امن و استحکام کی طرف کیسے متوجہ ہوسکتے ہیں؟ رانا صاحب بے خبر ہیں یا اس کڑوے سچ کو ہوا نہیں دینا چاہتے کہ عمران حکومت کے اکھڑتے ہی خان کو اتنا بڑا ووٹ بینک گھر بیٹھے اس وقت مل گیا جب ان کی تنہائی کا احساس انہیں مایوسی کی اتھاہ گہرائی میں دھکا دینے کو تھا۔اس سے اندازہ لگا لیں کہ خان اعظم کو حکومت گنوا کر کتنا کچھ مل گیا، اتنا کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اور اتنا کہ زرداری کے لیے بھی چیلنج بن گیاکہ اب خان اعظم ڈرا رہا ہے کہ ’’اب میںسندھ میں بھی آ رہا ہوں، محروم دیہاتیوں کو کرپٹ سیاست دانوں کےاستحصال سے آزاد کرانا ہے‘‘۔ دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب جھولی میں آن گرے اتنے بڑے ووٹ بینک سے مطلوب ، مستحکم اور قیادت سے متوازن جماعت بھی نکال پاتے ہیں یا نہیں۔ انہیں جلد سے جلد قوم کے لیے ایک قابل عمل و فہم و پروپیپل انتخابی پروگرام چاک آئوٹ کرنا ہے کہ نہیں معلوم ان کے بڑھتے دبائو کی کامیابی میںکس وقت الیکشن کا اعلان ہو جائے لیکن زرداری اور سنگین مقدمات کا ریکارڈ اسٹاف مینج کئے اور اپنے خلاف جملہ اقسام کے سوراخوں کو بند کئے بغیر انتخاب پر انحصار کرنا اپنی جگہ ایک بڑا خطرہ لینے کےمترادف ہے۔ جبکہ اشیائے خورو نوش کی بے قابو مہنگائی تو حکومت بنتے ہی جڑوں میں بیٹھ گئی۔پھر بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا ہوّا بھی تو ن لیگ کے سر پر سوار ہوگیا ہے جو خان کا بہت جاندار ووٹ ہے جو بڑی تیاری و تنظیم سے وطن میں اپنا ووٹ استعمال کرنے کے لیے عملاً کوشاں۔ پی پی بڑی ہوشیاری سے اس کی مخالفت سے بچ رہی ہے اور ن لیگ اس مخالفت میں دھنس رہی ہے کیونکہ اوورسیز ووٹرز کی بڑے فیصد میں تعداد پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتی ہے۔ جبکہ پی پی، پاکستان تحریک انصاف جیسی نئی سب سے بڑی وفاقی قوت کے مقابل ن لیگ کی بجائے کم از کم خود دوسری بڑی وفاقی پارلیمانی کا روڈ میپ رکھتی ہے۔

گزشتہ روز پی پی کے منجھے رہنما سابق گورنر لطیف کھوسہ نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں اوورسیز پاکستانیوں کا حق ووٹ محفوظ رہنے کی مکمل تائید کی جبکہ ن لیگی رہنما ابھی کھلے تو نہیں لیکن ان میں سمندر پار پاکستانیوں کے انتخابی حق رائے دہی کو ختم کرانے پر صلاح مشورے ہو رہے ہیں کہ موجوہ حالات میں دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کی بطور ووٹر حیثیت ختم کرنے کو قابل عمل تجویز بنانا سیاسی اعتبارسے ان کے لیے مزید خسارے کا باعث تو نہیں بنے گا اور معاشی بحران کا طوق تو مکمل ہی ن لیگ کے گلے میں پڑ گیا ہے جبکہ عرب شاہی دوستیاں بدل بھی چکیں اور وہ کوئی بڑی مہربانی کرتے نظر نہیں آرہیں۔ گیمک اکانومی کے ماہر اسحاق ڈار اب بھی واپس آنے سے گریزاں ہیں اور مفتاح اسماعیل کے انہیں آن لائن شیئر دینے پر آمادہ نہ ہونے کی خبریں بھی آئی ہیں۔ وزیر اعظم کی قیادت میں بااعتماد وزرا یا ادھوری کابینہ کی لندن یاترا میں اصلی رہبر رہنماسے مشاورت کےلیے انوکھا دورہ ن لیگ کے خساروں میں گھرے ہونے کی تصدیق کرگیا۔ دیکھئے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین