• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سماج اس وقت شدید سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ مہنگائی کے طوفان نے عام آدمی کی زندگی اجیر ن کر دی ہے۔ مالیاتی خسارہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

آئی ایم ایف، بجلی، گیس اور پٹرول پر سبسڈیز ختم کیے بغیر قرضہ دینے پر تیار نہیں ہے حتیٰ کہ سعودی عرب اور چین بھی ان حالات میں آئی ایم ایف کی پیروی کے بغیر ہمیں امداد دینے سے ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔

اس وقت اسٹیٹ بینک کے مطابق ہمارے پاس صرف 6.5 ارب ڈالرز کے زرِ مبادلہ کے ذخائر موجود ہیں جن سے محض چند ہفتوں کی امپورٹ کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی معیشت پر ہر سال تیس لاکھ نئے نوجوانوں کا بوجھ بھی پڑ رہا ہے، جن کو روزگار کے مواقع میسر نہیں کیے جا سکتے اور دوسری طرف پاکستان میں صرف پراپرٹی اورا سٹاک ایکس چینج شیئرزکی قیمتیں بڑھتی رہی ہیں۔ یہ دونوں کچھ پیدا نہیں کرتے اور صرف اشرافیہ ہی اس سے فائدہ اٹھاتی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی ملک کی معیشت اتنی گر جاتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

 اقوامِ متحدہ نے 2021میں پاکستان ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ (جس میں جاگیر دار، سرمایہ دار، سجادہ نشین، قبائلی سرداراور ملٹری اسٹیبلشمنٹ شامل ہیں )نے ملک پر 17.4بلین ڈالرز کا بوجھ ڈال رکھا ہے، اس دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ 39بلین ڈالرز سے بڑھ گیا ہے۔

 یاد رہے کہ پچھلے 40 برسوں سے پاکستان کی معیشت کا انحصار بیرون ملک موجود مزدور اور تارکین وطن کی ترسیلاتِ زرپر رہا ہے جو کہ30 بلین ڈالرز ہے۔

 ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی نے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے بارے بہت معقول تجویز دی ہے کہ اس انتالیس بلین ڈالرز کے خسارے میں سے پندرہ بلین ڈالرز اشرافیہ کےپرُ تعیش اشیاء درآمد کرنے پر خرچ ہو رہے ہیں، ایسی اشیاء اور لگژری گاڑیوں کی امپورٹ پر فوری پابندی لگائے بغیر ہم موجودہ حالات پر قابو نہیں پا سکتے۔ اچھی بات ہے کہ حکومت نے ان اشیا کی امپورٹ پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔

یاد رہے کہ 2012سے 2022تک بنگلادیش کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں صرف ایک فیصد گری ہے جبکہ پاکستان کی کرنسی پینتالیس فیصد تک گر چکی ہے۔ اس عرصے کے دوران بنگلادیش کی برآمدات 39فیصد بڑھی ہیں اور پاکستان کی برآمدات 13فیصد کم ہو گئی ہیں۔

آج پاکستان ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں دنیا کے کمزور ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے جبکہ ہندوستان میں پاکستان کے مقابلے میں یہ تناسب تقریباً دگنا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ پاکستانی ریاست ان لینڈ مافیا، پراپرٹی ڈیلرز، ٹریڈرز اور زرعی جاگیرداروں سے ان کی حیثیت کے مطابق ٹیکس وصول نہیں کرسکتی اور ٹیکس وصول کرنے کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ہی مرکوز ہے؟

کیا وجہ ہے کہ آج پنجاب کی آبادی دس کروڑ سے زائد ہے جبکہ زرعی ٹیکس کی مد میں ہمیں صرف ڈھائی ارب کا ٹیکس وصول ہوتا ہے۔ پاکستان کے جاگیر دار نہ صرف سرکاری خزانے میں ایک پیسہ دینے کو تیار نہیں ہیں بلکہ ریاست بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ موجودہ نازک حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ پر ان کے اثاثوں کے مطابق ٹیکس نافذ کیا جائے۔

 اس کے ساتھ ساتھ 1000سی سی سے اوپر کی گاڑیوں کے ٹیکس میں فوری طور پر اضافہ کیا جائے اور وہ افراد جو پانچ سو گز سے بڑے مکان میں رہتے ہیں، ان پر نہ صرف ٹیکس بڑھایا جائے بلکہ ان کا بجلی کا بل بھی عام افراد سے زیادہ کیا جائے۔

پاکستان اپنی بہت ساری درآمدات مثلاً جیولری، سرجیکل اوزار، ایتھائل الکوحل، الیکٹرونک اشیاء اور مشینری دوسرے ممالک کو بر آمد کر رہا ہے جبکہ انڈیا میں ان مصنوعات کی بڑی مانگ ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان پینتیس سے چالیس فیصد راہداری کی قیمت یہی مال ہندوستان کو براہ راست بیچ کربچا سکتا ہے۔ پاکستان اور انڈیا صرف کاٹن کی مصنوعات میں آپس میں تعاون کر لیں تو اس خطے کی حالت بدل سکتی ہے۔ ہندوستان میں اس وقت جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کی مدد سے ہائی ٹیک مشینری تیار کی جا رہی ہے۔

 ہندوستان کی 1.2بلین آبادی جواقتصادی میدان میں تقریباً 7فیصد سالانہ سے ترقی کر رہی ہے، پاکستان کی ٹیکسٹائل کیلئے بہت بڑی منڈی ثابت ہو سکتی ہے۔ انڈیا اپنی آئی ٹی اور دوسرے انڈسٹریز کو وسط ایشیا تک پھیلانا چاہتا ہے اور پاکستان اس کے لیے بہترین حب بن سکتا ہے۔ ان معاشی حالات میں علاقائی تعاون کے بغیر پاکستان کیلئے اپنے دیر پا معاشی اہداف حاصل کرنا ناممکن ہے۔

علاقائی تعاون کے ثمرات سے فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے اس خطے کی 99 فیصد آبادی جو کہ مزدوروں اور کسانوں پر مشتمل ہے، مزید غربت کی دلدل میں دھکیلی جا رہی ہے۔ آج پاکستان کو ایسے سیاست دانوں اورا سٹیٹ مین کی ضرورت ہے جو غیر جذباتی و غیر مقبول فیصلے قوم کی دیرپا ضرورتوں کے مطابق کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔

تازہ ترین