السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
دل چسپ جواب دیا گیا
اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ایک میں متبرّک صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ موجود، جب کہ دوسرے سے غائب تھا۔ سی ایس ایس کارنر سے متعلق، جہاں مقابلہ جاتی امتحانات کی بلامعاضہ بہترین تیاری کروائی جاتی ہے، پڑھ کر دلی خوشی ہوئی۔ ایسے کارنرز پورے پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں قائم ہونے چاہئیں تاکہ ہر طبقے کےافراد کو آگے آنےکا موقع مل سکے۔ معروف خلائی سائنس دان، ڈاکٹر عاقب معین کا انٹرویو شان دار تھا۔ ماہرِ معاشیات، محمّد منیر احمد نے بھی زبردست تھیوری پیش کی۔ ’’آدمی‘‘ ایک لاجواب سلسلہ ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ماہرِ امراضِ معدہ و جگر، ڈاکٹر نازش بٹ سے اچھی بات چیت کی گئی۔ ’’عجائباتِ لاہور‘‘ کی تحریر و تصاویر نے معلومات میں بہت اضافہ کیا۔ اداکار منیب بٹ ’’کہی اَن کہی‘‘ کے مہمان تھے۔ ’’کچھ روز عمّان میں…‘‘ پُرلطف سفرنامہ تھا اور اس بار میرے خط کا جواب بھی بہت دل چسپ انداز میں دیا گیا۔ ضیاء الحق قائم خانی نے ناچیز کی چٹھی کی تعریف کی، شکریہ۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: آپ نے بھی یقیناً کوئی دل چسپ و عجیب سوال کیا ہوگا، جو آپ کو دل چسپ جواب ملا۔ اب اتنے تو ہم ویلے نہیں کہ اپنے جوابات بھی یاد رکھیں اور آپ کے سوالات بھی۔
دل کش زبان و بیاں،طرزِ نگارش
محمّد احمد غزالی کا خوشبوئوں سے معطّر معطّر شیخ ابوالحسن علی شاذلیؒ سے متعلق مضمون دل کی کلی کھلا گیا۔ بلاشبہ، نیک لوگ زمینِ دل پر روشنی پھیلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ منور مرزا تو اپنے الفاظ سے ایک ایسی تصویر کھینچ دیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے، سب نظروں کے سامنے ہو رہا ہو۔ یوکرین جنگ سے بدلتی دنیا کا نقشہ بھی خُوب کھینچا۔ ڈاکٹر فیاض احمد کا مشورہ کہ ذہنی دبائو کا مقابلہ عبادت اور مثبت سوچ سے کریں، اچھا لگا۔ کرپٹو کرنسی سے متعلق رائو محمّد شاہد کا نثر پارہ بہت ہی معلوماتی تھا۔ ماریہ شمعون کی جہدِ مسلسل کی داستان دل میں اُترگئی۔ ماڈل ظفیرہ کو اپنے الفاظ سے مرکزِ نگاہ بنایا، عالیہ کاشف نے۔ خشک میوہ جات اور پھلوں کی سرزمین، بلوچستان سے متعلق محمّد ارسلان فیاض نے بھی لاجواب قلم آرائی کی اور عرفان جاوید کی زبان و بیان، طرزِنگارش تو ایسا دل کش ہے کہ پڑھنا شروع کریں تو بس بندہ محو ہی ہو کے رہ جاتا ہے۔ کتابوں پر تبصرہ بھی خُوب بھاتا ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات عُمدگی سے مرتّب کیے گئے اور پاکستانی راجا، محمّد سلیم راجا کا لفظ لفظ سچ بولتا ہے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپور خاص)
حالات کا علم
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ کرتے ہوئے محمّد احمد غزالی، حضرت بہاء الدین نقش بند رحمتہ اللہ علیہ سے متعلق معلومات فراہم کر رہے تھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں 27؍ فروری 2019ء کے تاریخ ساز دن کی مناسبت سے خُوب صورت تحریر شامل کی گئی۔ سیّد محمّد عظیم شاہ بخاری نے ’’عجائباتِ لاہور‘‘ اور سیّد ثقلین نے ہندکو زبان کے حوالے سے اچھی معلومات فراہم کیں۔ نیا سلسلہ ’’آدمی‘‘ تو علمی و ادبی شخصیات ہی کے لیے لکھا گیا ہے، ہم جیسے کم تعلیم یافتہ کہاں سمجھ پاتے ہیں۔ منور مرزا کے تجزیات کا جواب نہیں ہوتا۔ آپ نے میرے خط کو جو عنوان دیا، وہ کچھ عجیب لگا۔ مَیں نے اپنے خط کی عدم اشاعت پر تو کبھی حیرانی ظاہر نہیں کی۔ اگلے جریدے میں فیچر کے عنوان سے ویڈیو گیمز پر رئوف ظفر کی رپورٹ بہت ہی شان دار تھی۔ منور مرزا حالات و و اقعات بیان کررہے تھے۔ روبینہ فرید نے عالمی یوم کے حوالے سے خاص مضمون تحریر کیا۔ آپ نے شمائلہ نیاز کو خود ہی جواب دے دیا، اچھا کیا، اُن محترمہ کو کیا پتا کہ مَیں کس طرح 20روپے کا ڈاک کا لفافہ خریدنے کے لیے 60روپے خرچ کرتا ہوں۔ 30روپے کا اخبار خریدتا ہوں اور پھر تحریریں پڑھ کے تبصرہ کرتا ہوں۔ محترمہ فرماتی ہیں کہ ’’مَیں جانے کیا الا بلا لکھتا ہوں۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ ’’جس تَن لاگے، وہ تَن جانے‘‘ کسی کے حالات کا علم، کسی دوسرے کو ہو ہی نہیں سکتا۔ خیر، خادم ملک کا خط موجود تھا، تو پڑھ کے طبیعت ہشّاش بشّاش ہوگئی۔ علینہ عرفان بسنت کو یاد کر رہی تھیں، کوئی اُن گھرانوں سے پوچھے، جن کے چشم و چراغ اس عفریت کی نذر ہوگئے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: دیکھیں، ‘‘آپ کا صفحہ‘‘ کے سب نامہ نگار ایک فیملی کی طرح ہیں اور فیملی میں چھوٹی موٹی باتیں ہو ہی جایا کرتی ہیں۔ آپ کو اس طرح کسی کی بات کو دل پر نہیں لینا چاہیے۔ ہمارے لیے ہمارا اِک اِک قاری بےحد اہم ہے اور خصوصاً آپ جیسے لوگ جو جریدے کے مطالعے کے لیے اس قدر تگ و دو کرتے ہیں، حقیقی معنوں میں ہمارا اثاثہ ہیں۔
خُوب صورت، ناول نما تحریر
’’فیچر‘‘ کے صفحے پر رؤف ظفر کی تحریر ویڈیو گیمز سے متعلق تھی۔ انہوں نے متعدّد دانش وَروں سے بھی بات چیت کی ہے اور نتیجہ یہی اخذ کیا کہ ’’کچھ فوائد بھی ہیں، مگر اِن کی لت سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔‘‘ ’’انٹرویو‘‘ میں شفق رفیع نے گلگت بلتستان کی پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت، کلثوم فرمان سے باتفصیل بات چیت کی۔ ’’خواتین کے عالمی یوم‘‘ کے حوالے سے سعدیہ عبید خان نے بھی خیالات کا اظہار کیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ پر منور مرزا نے یوکرین اور روس جنگ سے متعلق مدبّرانہ افکار سے نوازا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں روبینہ فرید کا مضمون نکتہ آفرین تھا۔ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات خُوب صورت لگے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں قلم کاروں نے اپنے پیاروں کو بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ’’آدمی‘‘ میں عرفان جاوید کی خُوب صورت ناول نما تحریر کی سلسلے وار اشاعت خُوب لُطف دے رہی ہے۔ یہ صحیح معنوں میں ایک ٹکٹ میں دو مزے ہیں۔ خاکے کا خاکہ اور ناول کا ناول۔ ڈاکٹر روبی عدنان کی خصوصی تحریر ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے صفحے پر معلومات سے بھرپور تھی۔ نئی کتابیں‘‘ میں اختر سعیدی کے مفصّل تبصرے پسند آئے۔ (صدیق فن کار، عسکری اسٹریٹ، نئی آبادی، جھاورہ، راول پنڈی کینٹ)
ج: بلاشبہ عرفان جاوید کے طرزِنگارش کا کوئی جواب ہی نہیں۔ تحریر کے مطالعے، صفحات کی تیاری کے دوران ہم خود بھی بہت محظوظ ہوتے ہیں۔
ایسا لگا، سامنے بیٹھے ہیں
سنڈے میگزین میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمّد احمد غزالی اور ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منور راجپوت موجود تھے۔ جب سے عِلم ہوا کہ یہ ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں، منور راجپوت سے عقیدت و محبّت کچھ اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ماشاء اللہ بہت ہی لائق فائق انسان ہیں اور آپ اُن کی بےحد قدر بھی کرتی ہیں۔ احتشام طورو نے حسین وادی، گبین جبّہ سےمتعلق اچھی رپورٹ دی تھی۔ اور ایک طویل عرصے کے بعد ایک اچھی ’’گفتگو‘‘ بھی پڑھنے کو ملی، انور مقصود سے ملاقات کرکے ایسالگا کہ جیسے وہ ہمارے سامنے ہی بیٹھے جوابات دے رہے ہیں۔ عرفان جاوید ’’آدمی‘‘ کے ساتھ چھا گئے ہیں۔ ’’حالات و و اقعات‘‘ تو منور مرزا کے نام کے ساتھ ہی جچتا ہے۔ نیز، ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ ’’ڈائجسٹ‘‘ ’’نئی کتابیں‘‘ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ سب ہی مَن پسند سلسلے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیرکالونی، کراچی)
حوصلے اور جرات کو سلام
جنگ اخبار کی تاریخ کے تناظر میں اپنا تھوڑا سا تعارف کرواتے ہوئے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ بہت پرانی بات ہے، کالج کے آغاز کا زمانہ تھا، سن 65,64ء ہوگا۔ جنگ اخبار کا سائن بورڈ جامعہ کلاتھ کے بس اسٹاپ پر ایک نیم کے درخت کی شاخ پر تار سے بندھا ہوتا تھا، اور اُسی سے ملحق ایک بوسیدہ عمارت میں اس کا آفس تھا۔ لکڑیوں کا زینہ اوپر کی جانب لے جاتا، جہاں ہاتھ سے کتابت ہوتی تھی۔ مرحوم حشمت اللہ کتابت کرتے تھے اور یہ بہت ہی محنت طلب کام تھا۔ جناب رئیس امروہوی، ابراہیم جلیس، انعام درّانی اور بہت سے مرحومین اس اخبار کو طاقت وَر بنانے کے لیے رات دن مصروفِ عمل تھے۔ اردو ادب سے محبّت و عقیدت مجھے اِس کے بہت قریب لے آئی، پھر کبھی کبھی میرا کوئی مراسلہ بھی اس میں شایع ہوجاتا تھا۔ دوسری اہم بات کہ ہمیں اُردو کے جو استاد ملے، صبا متھراوی صاحب، تو وہ اپنے دَور کے ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ اُن کی سرپرستی میں میری اُردو میں مزید نکھار پیدا ہوا۔ خیر، اب ریٹائرمنٹ کے بعد ہومیوپیتھک پریکٹس میں ہوں اور فارغ وقت میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتاہوں۔ بہت جی چاہتا کہ اس میگزین کے لیےکچھ لکھوں، لیکن وہی منیر نیازی کی بات ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں۔‘‘ بہرحال، آج خط لکھنےکی جرأت کررہا ہوں۔ دراصل مجھے جس امر نے خط لکھنے پر مجبور کیا، اور وہ بھی بہت ہی اشتعال کے ساتھ، وہ پروفیسر وقار الضیاء راس کا خط ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو ہر وقت کسی نہ کسی تنقید اور اعتراض ہی کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ میری نظر میں ایسے لوگ ایک قسم کے نفسیاتی مریض ہیں اور اپنے Complexes میں کسی کی دل شکنی، دل آزاری کر کے بہت سکون محسوس کرتے ہیں۔ اتنی معمولی سی بات پر ادارے کی بے توقیری اور آپ جیسی اردو ادب کی شائق کے بارے میں ایسی بات کرنا کسی صُورت زیب نہیں دیتا تھا۔ یہ میگزین اُردو کی کتنی بڑی خدمت کر رہا ہے، اُنہیں یہ تو کبھی دکھائی نہیں دیا، ایک غزل کی ذرا سی بگڑی ردیف دیکھ کر سیخ پا ہوگئے۔ آپ کے حوصلے اور جرأت کو بھی سلام پیش کرتا ہوں کہ کیسے ایسے لوگوں کو برداشت کرلیتی ہیں۔ جواب تو آپ نے واقعی بڑا زبردست دیا، جس کی جتنی داد دی جائے، کم ہے۔ لیکن پلیز، آئندہ ایسے اصحاب کے خطوط شایع نہ کریں کہ اس خُوب صُورت جریدے میں ایسے لوگوں کی قطعاً گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ کچھ عرصہ پہلےبلوچستان سے بھی کسی نے ایساہی خط لکھا تھا،اُس وقت بھی بہت غصّہ آیا تھا، لیکن آفرین ہے، آپ پر آپ نے اُس کا دوسرا خط بھی شایع کر دیا تھا۔ خیر، اب میں بات کروں گا عرفان جاوید کی۔ آپ کی اس ’’ادب مالا‘‘ میں بڑے بڑے درِنایاب پروئے ہوئے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا، عرفان جاوید کو کس طرح اُن کی قابلیت و ذہانت، انفرادیت اور سحر انگیزی کی داد دوں، ایسا لگتا ہے، اُن کے قلم میں کوئی جادو نگری آباد ہے۔ جب بھی لکھتے ہیں، کمال لکھتے ہیں۔ اس سے پہلے ’’عجائب خانہ‘‘(درخت آدمی ہیں)نے بھی بہت متاثر کیاتھا۔ اب آصف فرخی کی علمی خدمات اور بیکراں ادبی صلاحیت کو جو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں، یہ بس انہی کاخاصّہ ہے۔ہاں،ناول ’’دھندلے عکس‘‘ نے بالکل بھی متاثر نہیں کیاتھا۔ پورے ناول میں مصنّفہ کی کوشش بس یہی رہی کہ ثقیل الفاظ کا جس حد تک استعمال ہو سکتا ہے، کیا جائے۔ ناول تو چند کرداروں کی بہت اچھی ترتیب اور تسلسل کا مجموعہ ہوتا ہے۔ شاید ابھی وہ نووارد ہیں،بعد میں کچھ بہترانداز سے لکھنے لگیں۔ اور آپ نے بھی غالباً لوگوں کے زیادہ دبائو کی وجہ سے وہ ناول شایع کردیا۔ بہرکیف، ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ آپ کی اس ادبی نرسری نےکئی نوآموز لکھاریوں کی حوصلہ افزائی اورآب یاری کی، تب ہی ہمیں ایک سے ایک اچھا لکھاری بھی مل پایا۔ (ہومیو ڈاکٹر محمّد شمیم نوید، سابق آفیسر سوئی گیس، گلشنِ اقبال، کراچی)
ج: آپ نےبجا فرمایا، اب ہمیں خود بھی بہت شدّت سے احساس ہونے لگا ہے کہ’’جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر لکھ بھیجیں‘‘ کا لوگوں نےکچھ زیادہ ہی ناجائز فائدہ اُٹھانا شروع کردیا ہے، تو اب یہاں بریک لگانے کی اشد ضرورت ہے۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
وطنِ عزیز میں نیلے گگن سے ایک سال میں پانچ موسم (بشمول برسات) نازل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاک سرزمین کے مزید پانچ موسم شادیوں، پتنگوں، جلوسوں، دھرنوں اور امتحانات کے بھی ہیں۔ سو، آخرالذکر موسم کے کارن بندہ، بزمِ احباب سے آف کلر رہا۔ اس لیے آج سہ شماری تبصرے کے ساتھ حاضرِ خدمت ہیں۔ مارچ کے پہلے تین ہفتے، جو گیارہ سلسلے مسلسل شایع ہوتے رہے، وہی آج ہمارا ہدفِ قلم ہیں۔ تو آغاز، اسلامی صفحے یعنی ٹائٹل سے کرتے ہیں۔ دو بار سرورقی نازنین کو فضائوں میں دل کش نظروں سے گھورتےپایا، جب کہ ایک بار طلسمی نظروں کو سیدھا قارئین کی طرف ایسے تکتے پایا کہ کم زور دل کدّوکش سے چھلنی ہوجاوے ہاہاہا… منور مرزا کے قلمِ معتبر سے نکلا سلسلہ ’’حالات و واقعات‘‘ تین ہفتے باقاعدگی سے شایع ہوا، جس میں جارج پیوٹن کے بینر تلے روس، یوکرین جنگ کےشعلے بھڑکتے رہے۔ مسیحانہ سلسلے ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں تین ہفتوں میں کڈنی، ٹی بی اور ڈائون سینڈروم کے عالمی ایّام کے مواقع پر اِن بیماریوں سے نمٹنے کے لیے عِلم و آگہی کا سامان پیدا کیا گیا۔ سیاسی کھوجی، فاروق اقدس کا عورت نامہ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ بولڈ آئوٹ ہونے کے بعد مردم شاد،عرفان جاویدکےمردانہ قلم کےنئے سلسلے ’’آدمی‘‘ کی دبنگ انٹری ہوئی ہے اور ’’پیارا گھر‘‘ میں تینوں ہفتے قارئین کو ہاف پلیٹ بریانی (نصف صفحاتی اشاعت) پیش کی جارہی ہے۔ ایک طرف باتبسّم کنول بہزاد نے عالمی یومِ خواتین کی مناسبت سے لکھے اپنے افسانے سے ’’ڈائجسٹ‘‘ میں حرمتِ نسواں کا علَم بلند کیا، تو دوسری طرف ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے بھی یومِ پاکستان پر افسانوی چاہت سے حبّ الوطنی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ رائٹ اپ رائٹر، عالیہ کاشف اور لے آئوٹ ڈیزائنر، نوید رشید کی ورسٹائل سنگت صفحاتِ اسٹائل کے لیے لازم و ملزوم ٹھہری۔ اور صفحہ اگڑم بگڑم یعنی ’’متفرق‘‘ ایمرجنگ کرکٹر، عبداللہ شفیق کی طرح دیگر کئی سلسلوں کو پیچھے چھوڑ گیا ( کہ تینوں شماروں میں شامل تھا ) اگرچہ ادبی سلسلہ ’’نئی کتابیں‘‘ بھی مارچ کےپہلےتین شماروں میں شاملِ اشاعت رہا، مگر اس کے ریگولر مبصّر، اختر سعیدی دو بار حاضر تھے کہ ایک ہفتے اُنہیں منور راجپوت نے ریلیف دیا۔ تاہم، نوواردِ کتب پر تنقیدی نشتر برسانے میں دونوں اصحاب کسی ڈبل بیرل رائفل سے کم نہیں۔ گلستانِ نرجس یعنی ’’آپ کا صفحہ‘‘ مدیرہ صاحبہ کی نوکِ ادارت تلے ہمیشہ کی طرح شاداں و فرحاں رقصاں تھا۔ مارچ کے اِن پہلے تین شماروں میں حاملینِ خطِ اعزازی جدا جدا رہے۔ تاہم، عزیزم برقی اور جانم مُرلی دونوں تینوں ہی اشاعت میں اپنے عقیدت ناموں کے ساتھ موجود تھے، جب کہ پرنس افضل، نازلی فیصل اور بندے کو دو دو لڈّو پیڑوں کی سعادت ملی، تھینکس۔ اب تین شماری تبصرہ لکھتے لکھتے قلم ہانپنے لگا ہے اور ادھر شہرِاقتدار میں عدم اعتماد سےسوہنے کپتان کی’’کانپیں ٹانگ رہی ہیں‘‘ ہاہاہا… امکان غالب ہے کہ وقتِ اشاعتِ خط، سرکار سابق پی ایم ہوجاویں گے۔ مرضی ربّ دی، تے خیر سب دی۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج:ہفتہ واری تبصرے کے ساتھ آئیں یا سہ شماری، آپ کے طرزِنگارش کا تو کوئی بدل ہی نہیں، فی الوقت جن دو لکھاریوں کی انداز تحریر سے ہم خاصے مرعوب ہیں، اُن میں سے ایک آپ بھی ہیں۔
گوشہ برقی خطوط
* مَیں نے ایک تحریر بھیجی تھی، جو ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحے کے لیے ناقابلِ اشاعت ٹھہری، کیا ممکن ہے کہ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحے کے لیے اِس پر دوبارہ غور کرلیا جائے۔ میری تحریر کاعنوان تھا ’’خواہشوں کے بھنور‘‘۔ (مدثر اعجاز، لاہور)
ج: جو تحریر ایک صفحے کے لیے ناقابلِ اشاعت ہے، وہ کسی دوسرے صفحے کے لیے بھی ناقابلِ اشاعت ہی ہوگی۔ کیوں کہ اگر تحریر میں جان ہو تو اِس قسم کا انٹرچینج ہم خود ہی کرلیتے ہیں۔ آپ تو پھر تحریریں صفحات کے فارمیٹ کی مناسبت سے بھیجتے ہیں، بیش تر لکھنے والے ایسا کوئی تردّد ہرگز نہیں کرتے، تو عموماً ہم خود ہی تحریر کے موضوع کی مناسبت سے اُس کے لیےصفحے کا انتخاب کرتے ہیں۔
* میری درخواست ہے کہ سنڈے میگزین میں دل چسپ و عجیب معلومات کے عنوان سے بھی کوئی سلسلہ شروع کیا جائے۔ (احسن مجید)
ج: باقاعدہ سلسلہ شروع کرنا تو مشکل ہے، لیکن وقتاً فوقتاًایسےکچھ آرٹیکلزضرور شایع کیےجا سکتے ہیں۔
* ہمایوں اشرف کے انٹریو کےلیے کئی بار درخواست کرچُکا ہوں۔ پلیز، اُن سے تفصیلی بات چیت کریں، وہ میرے پسندیدہ ترین اداکار ہیں۔ (سیّد عُمر علی)
ج: جی، اُن کا نام ہماری فہرست میں شامل ہے، اور اُن سے مسلسل رابطے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔
* آپ کے اُردو جریدے کا انگریزی نام کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ ایک طرف آپ لوگ اردو کی ترویج و اشاعت کی بات کرتے ہیں۔ دوسری جانب جریدے کا نام ہی انگریزی میں رکھا ہوا ہے۔ یہ کچھ عجیب سی بات نہیں۔ (درخشاں زہرا)
ج: جی بالکل، بات عجیب سی ہے اور سو فی صد درست بھی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ نام، اس ادارے میں ہماری آمد سے بہت پہلے رکھا گیا۔ ہم نے جب جنگ اخبار جوائن کیا، ’’سنڈے میگزین‘‘ اِسی نام سے مقبول تھا۔ دوم یہ کہ اس قسم کے فیصلے عموماً انتظامیہ کی طرف سے ہوتے ہیں، جس میں کارکنان کی رائے تو شامل ہوسکتی ہے،لیکن مرضی نہیں، اور تیسری بات یہ ہے کہ اب جریدہ اس نام سے اس قدر معروف ہو چُکا ہے کہ تبدیلیٔ نام کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ گئی۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk