• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت صرف دو ووٹوں کے سہارے کھڑی ہے جس دن چوہدری سالک حسین او ر طارق بشیر چیمہ اس حکومت سے علیحد ہ ہوئے، یہ حکومت گر جائے گی۔ ان کی بات میں وزن ہے، حکومت گر سکتی ہے مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جائے ورنہ یہ حکومت چلتی رہے گی۔ تحریکِ انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی اور شیخ رشید تو رکنیت سے استعفے دے چکے ہیں، جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کو میدان کھلا مل گیا ہے۔ عمران خان اگراسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ سنبھال لیتے اور اپنے اراکین جو منحرف ہوئے تھے اور اتحادی ارکان کے ساتھ اپنے روابط دوبارہ بحال کرنے کی کوشش جاری رکھتے تو بعید نہ تھا کہ آئندہ چھ ماہ کے اندر دوبارہ عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش ہو جاتی کیونکہ موجودہ حکومت میں جتنی جماعتیں شامل ہیں، ان کے درمیان اختلاف کاپیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ ان جماعتوں کے نظریات مختلف، منشور مختلف اور سیاسی کرداربھی مختلف ہے لہٰذا ان کے اتحاد میں دراڑپڑنا ممکن تھا۔ تحریک انصاف نے جلد بازی میں اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہو کر حکومت کوکھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

عمران خان اور ان کی پارٹی کا خیال ہے کہ وہ عوام سے نیا مینڈیٹ لے کر دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے جس کے لیے انہوں نے عوامی رابطہ مہم شروع کر دی ہے اور جلد از جلد انتخابات کے انعقاد کے لیے دبائو بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے سے عوام کی ہمدردی کا ووٹ انہیں مل جائے گا، دوسرا معاشرے میں موجود امریکہ مخالف رویے کو وہ اپنی ہمدردی میں تبدیل کر کے ووٹ حاصل کر لیں گے تیسرا، حکومتی زعما ء کے خلاف کرپشن کے نعرے کو مزید تقویت دے کر غیر جانبدار ووٹر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا سکیں گے۔ اس سلسلے میں عمران خان اور ان کی پارٹی کے دیگر لیڈر اور شیخ رشید روزانہ کی بنیاد پر بیان جاری کر رہے ہیں۔ بدلتے بیانات کی وجہ سے وہ اپنایک نکاتی موقف پیش کرنے میں بھی ناکام نظر آ رہے ہیں۔ الزامات کی بھر مار ہے اور ایک بیان دوسرے کی نفی کرتا نظر آ رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری تحریک انصاف کو ایک بیانیے پر قائم رہنا چاہیے۔ اور اس بیانیے کو پوری دیانت داری اور قوت کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔

سابقہ حکمران جماعت کو جمہوری رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اس کی مدت پوری ہونے تک موجود رہنا چاہیے تھا تا کہ حکومت کو اپنی من مانی کا موقع نہ ملتا اور فلور پر اس پر نگرانی و تنقید کا عمل پروان چڑھتا جو جمہوریت کو تقویت دیتا۔ تحریک انصاف نے جس طرحصدر عارف علوی اور سابق گورنر پنجاب سرفراز چیمہ کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھ کر حکومت کو ٹف ٹائم دیا اور دونوں افراد نے اپنا آئینی کردار ادا کرنے کی بھر پور کوشش کی۔سابق گورنر پنجاب نے البتہ آرمی چیف کو خط لکھ کر جمہوری رویے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سیاسی زعمااور حکمرانوں کو سیاسی مسائل کے حل کے لیے سیاسی رویے اور سیاسی عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ گورنر کا عہدہ صدر کے ماتحت ہےلہٰذا جب سابق گورنر نے صدر کو خط تحریر کر دیا تھا تو آئین کا احترام کرتے ہوئے گورنر کو صدر کے جواب یا ایکشن کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ آرمی چیف کو سیاسی عمل میں شریک نہیں کرنا چاہیے تھا۔

دوسرا، اگر سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے پر اعتراض تھا تو اس کا فوراً نوٹس لینا چاہیے تھانہ کہ دوہفتے تک کچھ نہ کر کے دو ہفتے بعد اس پر اعتراض لگانا کوئی معنی نہیں رکھتا جب کہ صوبائی اسمبلی میں نئے قائدِ ایوان کا انتخاب عمل میں آ چکا ہے۔ قوانین اور رولز موجود ہیں جو آئین کے تحت بنائے گئے ہیں، ان کے تحت سول معاملات چلائے جائیں تو کسی کو اعتراض نہ ہو۔ سیاسی حکومت کی مدد کے لیے سول بیوروکریسی موجود ہے، اس سے مدد اور وضاحت لی جا سکتی ہے۔ اگر متعلقہ فورم نے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا نوٹیفکیشن آئین کے تحت جاری کر دیا ہے تو پھر آئین پر عمل کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سے حلف لینا چاہیے یا پھر اختلاف کی صورت میں خو د گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔

سیاسی حکومت اور اپوزیشن کو ایک نکتے پر متفق ہونے کی اشد ضرورت ہے کہ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے آئین پر چل کر سیاسی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ آئین سے کسی طرح بھی روگردانی نہیں کی جائے گی۔ آئین کے تقدس کو بحال رکھنے میں ہی سیاسی عمل کی بقا ممکن ہے۔ پاکستانی معاشرے کو سیاسی نظریات کی بنا پر تقسیم کر کے عدم برداشت کے فروغ سے یقینی طور پر گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی اختلافات کو پاکستان ہی میں آئینی طور پر حل کرنا ہوں گے۔ بیرون ملک سیاسی اختلاف کو اجاگر کر کے وطن عزیز کے عزت و وقار کو کم نہ کیا جائے۔ مدینہ شریف کے واقعہ نے بین الاقوامی سطح پر من حیث القوم ہمارے وقار کو دھچکا پہنچایا ہے۔ اس طرح لندن میں آئے روز ایک دوسرے پر حملوں سے بھی قومی وقار مجروح ہو رہا ہے۔ ایک قوم اور آئین پسند سیاسی معاشرے کے طور پر ہمیں دلیل اور اپنے سیاسی پروگرام کے ساتھ پاکستان میں بات کرنی چاہیے، قوم کو اپنے سیاسی پروگرام سے آگاہ کر کے ووٹ حاصل کرنے چاہئیں۔ ہمیشہ کوئی اقتدار میں نہیں رہتا۔ہمیشہ بادشاہی تواللہ کی ہے جس کے بند وں کی فلاح کیلئے سیاسی جماعتیں اپنے منشور پیش کرتی ہیں اور جن کے ووٹوں سے اقتدار میں آتی ہیں۔ لہٰذا آئین پسند اور جمہوریت نواز رویے کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔

تازہ ترین