• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈی جی PHOTA کے تقرر کیخلاف پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز کی درخواست منظور

لاہور(وقائع نگار خصوصی ) لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ قانون کے تحت حکومت یا وزیراعلیٰ پنجاب ہیومن آرگنز ٹرانسپلانٹ اتھارٹی ( PHOTA) میں میرٹ نظر انداز کرکے اپنی پسند کے کسی فرد کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا مکمل اختیار نہیں رکھتے، بغیر ٹھوس وجوہات بیان کئےتفصیلی انٹرویو کے بعد حکام کی فہرست کے برعکس کی گئی تقرری عدالتی نظرثانی سے مشروط ہو گی، یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی جانب سے ڈاکٹر اسد اسلم کی فوٹا کے ڈی جی کے طور پر تقرری اور پنجاب حکومت کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دینے کے لئے پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سنایا، عدالت نے درخواست گزار ڈاکٹر محمود ایاز کے وکیل احسن بھون ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر درخواست پر تفصیلی فیصلے میں ڈاکٹر اسد اسلم کی تقرری کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے غیر قانونی اور قانونی اختیار کے بغیر قرار دیا،عدالت نے میرٹ پر اعلیٰ ترین امیدوار کو تعینات کرنے کی ہدایت کے ساتھ معاملہ وزیر اعلیٰ کو بھجوا دیا اور کہا اگر امیدوار کی تقرری نہ کرنے کی معقول وجوہات ہیں تو پہلے سے کی گئی سفارشات کے مطابق 15 دن میں ترجیحی ترتیب میں کسی دوسرے امیدوار کو مقرر کرنے کے لیےکارروائی کرنے کا حکم دیا، درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر صحت کی سربراہی میں مانیٹرنگ اتھارٹی نے امیدواران کے انٹرویو کے بعد درخواست گزار کو میرٹ لسٹ میں سرفہرست رکھا جب کہ مدعا علیہان پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم اور پروفیسر ڈاکٹر فرید احمد خان بالترتیب سیریل نمبر 2 اور 3 پر رکھے گئے لیکن وزیر اعلیٰ نے ڈاکٹر اسد اسلم کے نام کی منظوری دے دی اور 20 دسمبر 2021 کو تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا، درخواست گزار کے وکیل احسن بھون نے استدعا کی کہ نوٹیفکیشن غیر قانونی، اور اعلیٰ عدالتوں کے وضع کردہ قانون کی خلاف ورزی ہے، چیف منسٹر کی صوابدید انصاف کے اصولوں کے خلاف ہےکیونکہ میرٹ لسٹ میں سرفہرست ہونے کی وجہ سے درخواست گزار کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 4 کے مطابق سلوک کیا جانا ضروری ہے، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نےدرخواست کی مخالفت کرتے ہوئےموقف اختیار کیا کہ درخواست گزاراس عہدے پرتقرری کے لیے قابل غور نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس 10 سالہ انتظامی تجربہ نہیں تھا ،اس کے پاس پرنسپل سمز کی حیثیت سے صرف تین سال کا تدریسی تجربہ تھا جبکہ ڈاکٹر اسد اسلم کو بہتر اہلیت رکھنے کی بنا پر مقرر کیا گیا کیونکہ ان کے پاس 21 سالہ انتظامی، 17 سالہ پراجیکٹ ہینڈلنگ ، 18 سالہ فنانشل ہینڈلنگ اور 36 سالہ تدریسی تجربہ تھا، چونکہ معاملہ تکنیکی اور پالیسی کا ہے لہذا عدالت کو ایگزیکٹو کے اختیار میں مداخلت کرنے کا کوئی اختیار نہیں، عدالت سے سروس کے معاملات میں بطور سلیکشن اتھارٹی فرائض انجام دینے کی توقع نہیں تھی ، عدالت نے اپنے فیصلے میں مشاہدہ کیا کہ مانیٹرنگ کمیٹی نے 13 امیدواران کا انٹرویو کیا اور درخواست گزار کو میرٹ لسٹ میں نمبر 1 پر رکھا اور جواب دہندگان بالترتیب 2 اور 3 پر تھے، مانیٹرنگ اتھارٹی کو حکومت کے ساتھ مشاورت سے ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا اختیار دیا گیا (جو پنجاب حکومت کے مطابق وزیر اعلیٰ ہے) اس لیے مانیٹرنگ اتھارٹی کی سفارشات کو مناسب اہمیت دی جانی چاہیئے، حکومت/وزیر اعلیٰ کو، اگر ان سے اختلاف ہے، تو معقول وجوہات فراہم کرنی ہوں گی، عدالت نے کہا کہ ڈاکٹر اسد اسلم کے پاس درخواست گزار سے بہتر انتظامی تجربہ رکھنے کی واحد وجہ مانیٹرنگ اتھارٹی کے انٹرویو کے تفصیلی عمل سے گزرنے کے بعد اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے والے امیدوار کی جگہ نہیں بن سکتی، عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ 2010 کے ایکٹ کی دفعات کے تحت ایڈمنسٹریٹر PHOTA کی تقرری کا مکمل اختیار حکومت (وزیر اعلیٰ) کو نہیں دیا گیا ہے ، نامور پیشہ ور افراد پر مشتمل مانیٹرنگ اتھارٹی تشکیل دی گئی جس نے اسناد کی تفصیلی جانچ پڑتال اور انٹرویو کے طویل عمل کے بعد میرٹ پر تین سفارشات دیں، ایڈمنسٹریٹر PHOTA کی تقرری کو میرٹ پر ہونا چاہیئے ، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اعلیٰ عدالتوں نے بار بار کہا ہے کہ تقرریاں میرٹ کے اصول پر ہونی چاہئیں جب تک کہ میرٹ پر اعلیٰ ترین شخص کی تعیناتی نہ کرنے کی ٹھوس وجوہات نہ دی جائیں تقرری عدالتی نظرثانی سے مشروط ہو گی۔

ملک بھر سے سے مزید