2021کے اسی مہینے مئی میں اپنی حکومت کے ایما پر پاکستان کے صدر نے عجلت میں آرٹیکل 89کے تحت ترمیمی آرڈیننس 2021جاری کر دیا تاکہ ’’نادرا‘‘ کی مدد سے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ حاصل کیے جا سکیں، اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین خریدنے کا بھی پابند کیا گیا، ’’تحریک انصاف‘‘ کے اس یکطرفہ فیصلے کو اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ مسلم لیگ ن نے اس آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج بھی کیا، پیپلز پارٹی اور ’’جمعیت علمائے اسلام‘‘ نے بھی اسے مسترد کر دیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ’’پی ٹی آئی‘‘ حکومت کی ان پھرتیوں کے پس پردہ یہ خوش فہمی کار فرما تھی کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے زیادہ تر ووٹ ہمیں ہی ملیں گے، اگرچہ یہ خیال کسی حد تک درست بھی ہوتا لیکن صدارتی آرڈیننس کے ذریعے دوسری سیاسی جماعتوں کی مرضی کے بنا یہ قانون بنانا کسی طور بھی درست نہیں تھا۔ الیکٹرانک مشین اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا اوّل و آخر مقصد فقط اپنے ووٹوں میں اضافہ کرنا تھا اور کچھ نہیں۔ ہر حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو ملک کے سفیر کا علامتی اور بےمعنی ٹائٹل تو دیتی ہے اور ان کے پاکستان بھجوائے جانے والے کم و بیش 24بلین ڈالر کو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی بھی تسلیم کرتی ہے لیکن بدلے میں انہیں دینا یا لوٹانا کچھ نہیں چاہتی بلکہ اُلٹا ان کی زمینوں جائیدادوں پر مافیا کے قبضے اور یہ قبضہ چھڑوانے کیلئے ہونے والی عدالتی لڑائیوں اور جدال و قتال کو دم سادھے دیکھتی رہتی ہے لہٰذا ’’پی ٹی آئی‘‘ حکومت بھی اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اپنے فائدے کیلئے دینا چاہتی تھی، اس میں بھلا ’’ہیرو مِتھ‘‘ میں مبتلا بعض اوورسیز پاکستانیوں کا کیا فائدہ تھا؟
میاں شاہد برطانیہ میں کئی دہائیوں سے مقیم ایک سیاسی ورکر اور بزنس مین بھی ہیں، نے گزشتہ ہفتے مجھے ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کچھ چشم کُشا نکات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے بالکل درست نشاندہی کی کہ سیاسی جماعتیں ہمیں اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتی ہیں، لیکن ہم بحیثیت مجموعی کسی بھی سیاسی جماعت کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں کہ وہ ہمیں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق دینے سے پہلے اسمبلی کا رکن بننے کے حق کا اعلان کرے، میاں شاہد نے ٹھیک کہا کہ مسلم لیگ ن نے ماضی میں ’’اوورسیز پاکستانیز کمیشن‘‘ تو قائم کیا تھا لیکن اس کے کمشنر یا چیئرمین کے پاس بھی ایسا کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ کسی بھی مقدمے کو شروع کرے ، انہوں نے ’’انسٹی ٹیوٹ آف اوورسیز‘‘ کے نام سے ایک غیرمنافع بخش اور غیرجانبدارانہ قسم کا تھنک ٹینک قائم کرنے کی تجویز بھی دی ہے جو دس ملین سے زیادہ اوورسیز پاکستانیوں کی مشترکہ ترجیحات اور وژن کے مطابق دلائل دے سکے اور صرف ووٹ کی بجائے اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں اوورسیز کی حصہ داری پر بات کرے۔
بنیادی طور پر ہم اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق چاہیے ہی نہیں، ہمیں اگر سیاست کا شوق ہے تو جن ممالک میں ہم رہتے ہیں اور ہماری آئندہ نسلیں پروان چڑھ رہی ہیں ہمیں یہاں کی سیاست میں حصہ لینا چاہیے نہ کہ اپنے آبائی ملکوں کے سیاسی معاملات میں۔ انڈیا کا قانون اس معاملے میں انتہائی سیدھا ہے کہ جو کوئی بھی اوورسیز انڈین ہے اور انڈیا کے علاوہ کسی دوسرے ملک کی شہریت لے چکا ہے وہ انڈیا میں نہ ووٹ کاسٹ کر سکتا ہے، نہ مشیر بن سکتا ہے، نہ بطور بیورو کریٹ کسی ادارے کو ہیڈ کر سکتا ہے اور نہ ہی صوبائی یا قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ سکتا ہے۔ انڈیا میں الیکٹرانک مشینیں آ تو گئیں لیکن ووٹنگ کے اس طریق کار کو لاگو کرنے میں 22سال کا طویل عرصہ لگا اور تمام اپوزیشن جماعتوں کی مکمل رضا مندی کے بعد ہی یہ سسٹم اپنایا گیا، وہاں 1982میں یہ کام شروع ہوا، پہلے صرف ایک نشست پر اس کے بعد ایک اسمبلی پھر دو اور پھر 2004میں تمام حلقوں میں یہ مشینیں استعمال کی گئیں۔ یہ بات بھی سوچ کی متقاضی اور انتہائی اہم ہے کہ کیا کسی حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں سے رائے لی کہ انہیں پاکستان کے انتخابات میں ووٹ کا حق چاہیے اور اگر ہاں تو کیوں؟ ووٹ ڈال دینے سے ان کے کون کون سے مسائل حل اور کیسے کیسے دلدر دور ہو جائیں گے؟ اوورسیز پاکستانی یہ بھی ضرور ذہن میں رکھیں کہ پاکستان میں ایم پی اے، ایم این اے، وزیر یا وزیراعظم بننے کی راہ میں آئینی طور پر دُہری شہریت کا قانون حائل ہے چنانچہ پاکستان کے اقتدار میں حصہ داری تو آج بھی اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں، ہاں چور دروازے سے آئین کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اقتدار کے مزے لیے جا سکتے ہیں جس طرح ’’پی ٹی آئی‘‘ حکومت نے کیا اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ’’پی ٹی آئی‘‘ نے بھی اپنے ووٹ بڑھانے کیلئے ساری جمع تقسیم تو کی تھی لیکن ہم اوورسیز پاکستانیوں کو اقتدار میں حصہ دینے کیلئے کوئی قانون نہیں بنایا اور نہ ہی 24بلین ڈالر پاکستان بھجوانے والے اوورسیز پاکستانیوں کے غم میں یہ جماعت ’پتلی‘ ہو رہی تھی۔
پاکستان کی حالیہ اتحادی حکومت اگر اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہ دینے کی قانون سازی کرے تو اس میں اچھنبے کی قطعی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کے آئین کے مطابق ہوگا۔ انڈیا ہو یا پاکستان، یہ دونوں ملک اپنے ایسے اوورسیز شہریوں کو اپنے آبائی ملکوں میں ووٹ کا حق یا ممبر پارلیمنٹ بننے کا حق اگر نہیں دیتے جنہوں نے دوسرے ملکوں کی نیشنلٹی لے رکھی ہوتی ہے تو یہ قانون انصاف پر مبنی ہے کیونکہ جب ہم کسی دوسرے ملک کی نیشنلٹی لیتے ہیں تو اس ملک اور اس کے آئین سے وفاداری کا حلف لیتے ہیں لہٰذا ہماری وفاداری مشکوک سمجھی جاتی ہے چنانچہ اگر کوئی اپنے آبائی ملک میں سیاست کرنا چاہے تو وُہ اپنی غیرملکی شہریت چھوڑے اور جا کر الیکشن لڑے۔ رہا یہ سوال کہ برطانیہ بھی تو دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو ممبر پارلیمنٹ بننے کا حق دیتا ہے تو ذہن میں رکھیں ہم پاکستان اور برطانیہ کے قوانین اور اداروں کی شفافیت اور استحکام کو ایک پلڑے میں نہیں تول سکتے لیکن اگر پھر بھی پاکستان کی کوئی حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے مُصر ہے تو پھر انہیں وزیراعظم بننے کا حق بھی دیا جائے!