السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
دل کی پُکار
تم نے ہمارا خط میگزین کی زینت بنایا، شُکریہ۔ تمہارا جواب بھی خاصا دل موہ لینے والا تھا اور اُس میں اپنائیت چھلک رہی تھی۔دراصل، شعر مکمل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مَیں اپنے بیٹے دانیال کو، جو گزشتہ گیارہ سال سے کینیڈا میں مقیم ہے، شروع سے خط لکھتی ہوں اور اس میں اپنی ممتا کے رنگ بکھیرنے کے لیے الفاظ کی جگہ اشعار کو دے دیتی ہوں۔ گو کہ اب بیرونِ مُلک جانا کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ لوگ اپنے پیاروں کے لیے ترسیں، مگر ماں کے لیے بچّہ، بچّہ ہی ہوتا ہے، حالاں کہ وہ شادی شدہ اور ایک بیٹے کا باپ ہے۔ یوسف یوحنا سے محمّد یوسف تک کی کہانی نہیں، دل کی پکار تھی۔ جب بھی دل سے پکارا، ربّ العزّت کو پاس ہی پایا۔ ڈائجسٹ کی کہانی’’ صدائے ندامت‘‘ واقعی ندامت سے بھرپور تھی، جب ہم اِتنی عُمر، مطلب 60اور 70سال کے ہوکر بھی، اپنی بہو، بیٹیوں سے مقابلہ کریں، اپنی بزرگی اور دانائی کو صرف حسد اور رنجش کے حوالے کردیں، تو آخر میں ندامت و پشیمانی کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا، اللہ ہم مائوں اور ساسوں کو بھی عقل اور دانائی عطا کرے کہ گھر کے ماحول کو خراب نہ ہونے دیں۔ فرخی صاحب پر مضمون بہت خُوب صُورت تھا۔ بلوچستان میں خشک میوہ جات پر عمدہ مضمون لکھا گیا، مگر ہم سے اب یہ نہیں کھائے جاتے کہ معدے میں تکلیف ہوتی ہے۔البتہ ایک زمانے میں پشاور میں رہ کر بہت کھائے۔ پیارا گھر میں حفظانِ صحت کے بنیادی اصول اچھا مضمون تھا، ہمیں یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ حلال کھائیں، خواتین صاف ستھری ہوکر بسم اللہ پڑھ کر کھانا بنائیں اور شُکر بھی ادا کریں کہ اللہ نے ہمارے دسترخوانوں کو ہرا بَھرا رکھا ہے۔ ناشُکری سے نعمتیں کم ہوتی ہیں۔ چہرے پر نکھار تو واقعی ضروری ہے، ہم خود ابھی تک چہرے پر ٹماٹر کاٹ کر اچھی طرح رگڑ لیتے ہیں۔ بھئی منور مرزا سے معذرت چاہتے ہیں کہ گھریلو سیاست ہی کیا کم ہے، جو عالمی سیاست کو بھی برداشت کریں۔ شیخ ابو الحسن علی شاذلیؒ پر مضمون بہت زبردست تھا، ایسے ہی مضامین سے زندگی گزارنے کے لیے رہ نمائی ملتی ہے۔ (مسز خالدہ خان)
دیر کس بات کی؟
محمّد احمد غزالی کے مولانا جلال الدین رومیؒ ، شمس تبریزؒ اور حضرت بہاءالدّین نقش بندیؒ سے متعلق مضامین پڑھ کر دینی معلومات میں بے حد اضافہ ہوا۔ ماہرِ معاشیات، محمّد منیر احمد کا یہ کہنا کہ اگر زکوٰۃ سے 5ہزار ارب روپے اکٹھے ہوجائیں، تو بہت سے ٹیکس ختم کیے جاسکتے ہیں، تو پھر دیر کس بات کی، حکومت کو چاہیے کہ اس کارِخیر میں حصّہ لے تاکہ عوام کی مشکلات کم ہوسکیں۔ ڈاکٹر سیّد محمّد عظیم شاہ بخاری کا مضمون’’عجائباتِ لاہور‘‘ نہایت ہی معلوماتی تھا۔ لاہور میں رہنے والے کئی لوگوں کو بھی ان کے بارے میں علم نہیں ۔ ہندکو کے بارے میں سیّد ثقلین علی نقوی کا مضمون تو ہمیں حیران کرگیا کہ یہ زبان تو ہم بھی بولتے رہے ہیں، جب ہماری عُمر محض سات سال تھی اور ہمارے ابو ملازمت کے سلسلے میں کیمبل پور میں تعیّنات تھے۔ ماہرین پنجابی زبان کو اس کی ہم سایہ زبان قرار دیتے ہیں کہ دونوں میں تھوڑا سا فرق ہے۔ اداکار دلیپ کمار کی مادری زبان بھی ہندکو تھی اور یہ بات تو اور بھی حیران کن تھی کہ وہ اپنے رشتے داروں سے اسی زبان میں بات چیت کیا کرتے تھے۔ عرفان جاوید صاحب کا سراپا علم و ادب شخص آصف اسلم فرخی کے بارے میں مضمون بہت پُراثر تھا۔ ڈاکٹر عاطف حفیظ صدیقی کا صوتی آلودگی کے بارے میں مضمون بھی اچھا تھا۔ ہم نے ایک غیر مُلکی ڈاکٹر کا مضمون پڑھا تھا، جنہوں نے لکھا تھا کہ سماعت کی خرابی کی ایک سو سے زاید وجوہ ہوسکتی ہیں، لیکن یہاں صرف شور ہی کو سماعت کی خرابی قرار دیا جاتا ہے۔ منور راجپوت نئی کتابوں پر اچھا تبصرہ کررہے تھے۔ (تجمّل حسین مرزا، مسلم کالونی، باغبان پورہ، لاہور)
کھاتہ کُھل گیا
27 مارچ کا شمارہ موصول ہوا۔ سر ورق پر ماڈل، گلِ رعنا کی تازگی جیسی لگی۔ سر چشمۂ ہدایت میں محمّد احمد غزالی، شیخ نجم الدّین الکبریٰ ؒ کا روح پرور تذکرہ لائے، جنھوں نے گوشۂ عافیت میں جانے کی بجائے چنگیزی لشکر سے ٹکرا کر جامِ شہادت نوش کیا۔ بلاشبہ ایسی ہی ہستیوں کے لیے علّامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ’’ نکل کر خانقائوں سے ادا کر رسمِ شبیریؓ۔‘‘ اشاعتِ خصوصی میں منور راجپوت ہیلتھ کے مُلکی اور عالمی اداروں کی تصدیقی اسناد سے گائے کے گوشت کے مضرِ صحت ہونے کی تردید کر رہے تھے کہ عوام بے جا خوف وہراس میں نہ پڑیں اور گوشت، دودھ کا استعمال کریں۔ ہمیں افواہوں پر کان دھرنے کی بجائے ماہرینِ صحت کے مشوروں پرعمل کرنا چاہیے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹر روحی معروف آٹزم سے آگاہ کر رہی تھیں،وہیں ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری فولاد کی کمی کو غذائوں سے پورا کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ غذائوں میں سبزی پھلوں کے استعمال سے نہ صرف فولاد بلکہ ہر وٹامن کی کمی دور ہو سکتی ہے، مگر ہم تو صرف گوشت کی بنی اشیاء کے شوقین ہو چُکے ہیں، جس کی زیادتی مضرِ صحت ہے۔ رپورٹ میں احتشام طورو حسین وادی کے کھیلوں کے مقابلے کا دل چسپ احوال سُنا رہے تھے۔ وطنِ عزیز میں بہترین سیّاحتی مقامات ہیں، بس اُنہیں دنیا میں روشناس کروانے کی ضرورت ہے۔گفتگو میں محمّد ہمایوں ظفر لیجنڈ اداکار، مصنّف، میزبان مزاح نگار، انور مقصود کی سچّی اور کھری باتیں شیئر کر رہے تھے۔سینٹرل اسپریڈ میں عالیہ کاشف موسمِ بہار کے جوبن کی مناسبت سے لباس کا انتخاب متعارف کروا رہی تھیں۔ راتیں تھیں چاندنی، جوبن پہ تھی بہار، گنگنانے لگے، عرفان جاوید آدمی میں ناول کا متبادل بلکہ معلومات کا خزانہ پیش کر ہے ہیں، جو حقیقت پسندانہ بھی ہے۔ حالات واقعات میں منور مرزا یوکرین پر روس کے حملے کا تجربہ کر رہے تھے کہ پیوٹن کے اندازے کے برخلاف یورپ متحد ہو گیا۔ متفرق میں سیّد شہاب الدّین فنِ خطّاطی کی اسلامی تاریخ اور اس کی اہمیت سے آگاہ کر رہے تھے۔ یہ مسلمانوں کا وَرثہ ہے اور انٹر نیٹ کے دَور میں اسے زندہ رکھنے والے واقعی داد کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر ناظر محمود خواتین حقوق کے لیے لڑنے والی دو خواتین کی رو داد سُنا رہے تھے۔ پیارا گھر میں اقصیٰ منور ملک خواتین کو بازاروں کے چکر کاٹنے کی بجائے عبادات کے ذریعے ماہِ مبارک سے مستفید ہونے کا مشورہ دے رہی تھیں۔ فرحی نعیم رمضان المبارک کے تقاضے کم کھانا، کم بولنا، کم سونا بتا رہی تھیں۔ حافظ مسعود احمد تلبینہ کی افادیت طبِ نبویؐ سے ثابت کر رہے تھے۔ اِک رشتہ، اِک کہانی میں صائبہ مشام، سیّد افتخار احمد جعفری اور محمّد عارف اپنے اپنے بابا، مما کی اخلاقیات اور خصوصیات بیان کر رہے تھے۔ ڈائجسٹ میں جویریہ شاہ رخ نے روشن خالی پر بہت خوب لکھا۔ ذکی طارق اور محمد شفیق کی غزلیں بھی اچھی تھیں۔ اختر سعیدی نے نئی کتابوں پر ماہرانہ تبصرہ کیا ۔ ان کی معلومات حیران کن ہیں۔ اپنے صفحے کے چوکھٹے میں ہماری چھٹی سجی تھی، خوشی ہوئی کہ ہمارا کھاتہ بھی کُھل گیا۔ شُکریہ۔ ضیاء الحق قائم خانی ہی کیا 90 فی صد خطوط نگاروں کی(جن میں ہم بھی شامل ہیں) ٹم ٹم کرتی چِھٹیوں کو روشن بلب بنا دینا آپ ہی کا کمال ہے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میر پور خاص)
ج: بالکل درست کہا…حد سے زیادہ گوشت خوری سے ہر طرف گوشت کے پہاڑ وجود میں آ رہے ہیں۔
سچّی اور کھری باتیں
صفحہ پلٹا، تو سرچشمۂ ہدایت میں غزالی صاحب’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ میں شیخ نجم الدّین الکبریٰ ؒ کے روحانی کمالات پر قلم کشائی کرتے نظر آئے۔ اشاعتِ خصوصی میں منور راجپوت نے جانوروں میں اسکن بیماریوں اور ہیلتھ اینڈ فٹنس میں روحی معروف نے آٹزم بارے آگہی فراہم کی۔ رپورٹ میں احتشام طورو نے جنت نظیر وادی میں سنو فیسٹول کا احوال بیان کیا۔ گفتگو میں انور مقصود کی سچّی اور کھری باتیں بے پناہ لذّت سے سرشار کر گئیں۔ بیاسی سال کی عُمر میں ہاتھ بٹا کر عورتوں کے برابری کے حقوق نہ ملنے کا شکوہ دُور کر دیا۔ عرفان جاوید کی تحریر جنوں گرد، جہاں گرد بہت پسند آئی۔ متفرق میں شہاب الدّین فنِ خطّاطی پر تحقیقاتی مضمون لائے، تو ڈاکٹر ناظر محمود نے روبینہ اور کملا کی عورتوں کے حقوق کے بارے جدوجہد اور معاشرے کے عورت مخالف رویّے پر کُھل کر بات کی۔ پیارا گھر میں اقصیٰ منور ملک کا تحریر نامہ ہمیں ماہِ مبارک میں خلوصِ نیّت اور دل جمعی سے عبادت کا درس دے رہا تھا۔ فرحی نعیم کی رمضان المبارک کی قرار داد’’ کم کھانا، کم بولنا کم سونا‘‘ پسندیدگی کی سند لے گئی۔ حافظ مسعود کی تلبینہ کی اہمیت و افادیت اور اِک رشتہ، اِک کہانی کی تمام تحاریر اچھی تھیں۔ جویریہ شاہ رُخ کی روشن خیالی، سادگی اور پردہ کے پس منظر میں لکھی تحریر انتہائی متاثر کُن ٹھہری اور آخر میں آپ کا صفحہ کی افادیت اور آپ کی کاوشوں کو آداب و سلام کہ اِس صفحے کی بدولت کاغذ و قلم کا رشتہ جڑا ہوا ہے۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں، ضلع بہاول نگر)
کھجور کھالیں
12 دسمبر کے شمارے میں محمّد احمد غزالی نے شیخ محی الدّین ابنِ عربی ؒ کی دینی خدمات، الہامی کیفیات اور اللہ سے قربت کے واقعات بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ تحریر کیے،جو جذبۂ قوّتِ ایمانی کو تازہ کر گئے۔ منہگائی، معاشی بدحالی، بے روزگاری کی وجہ سے نوبت فاقوں اور بچّوں کو فروخت کرنے تک آگئی، دوسری طرف پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی کہہ رہے ہیں کہ منہگائی کا شکوہ کفرانِ نعمت ہے، آٹا دسترس میں نہیں، تو کھجور کھا لیں۔ کھجور نہ کھا سکیں تو کوئی اور پھل کھا لیں۔حالاں کہ لوگوں کے پاس کجھور اور پھل خریدنے کی بھی سکت نہیں ہے۔ (ایم اے ثاقب، راول پنڈی)
ج: آپ کے مطالعے کی رفتار کو سلام۔نئے سال کا نصف گزرنے کو ہے اور آپ اب تک پچھلے برس کے دسمبر تک پہنچے ہیں۔
آدھا بستہ
27مارچ تا2 اپریل کے شمارے کا ٹائٹل کِھلا کِھلا، روشنی تازگی واضح نظر آرہی ہے۔ سرچشمۂ ہدایت میں ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ بھی خُوب ہے۔ اشاعتِ خصوصی میں منور راجپوت سرخ گوشت کِھلانے اور دودھ پلانے پر راغب کر رہے ہیں۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں روحی معروف بچّوں سے متعلق ہدایت نامہ پیش کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری بھی صحت کے بارے میں اپنی ماہرانہ رائے دے رہے ہیں۔یہ سلسلے مفید ہیں۔ احتشام طورو ایک دل کش وادی کی رپورٹ پیش کر رہے ہیں۔ انور مقصود تو جانی پہچانی شخصیت ہے، ان کا انٹرویو نئے قارئین کے لیے معلومات کا خزانہ ہے۔ ماڈل عائشہ راجپوت کے بارے میں عالیہ کاشف عظیمی کا اظہار منصفانہ بلکہ خُوب صورت ہے۔حالات و واقعات کے تحت منور مرزا دنیا بھر کے مسائل اجاگر کرتے، نتائج اور حل کی طرف بھی توجّہ دلاتے ہیں۔ متفرق کا صفحہ بھی بھرا بھرا، کار ہائے نمایاں انجام دینے والوں کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔’’ پیارا گھر‘‘ کو بھی حسبِ روایت پیارے لکھنے والوں نے تاب دار بنا رکھا ہے۔ اختر سعیدی کی نئی کتابوں کا بستہ آدھا نظر آرہا ہے۔’’آپ کا صفحہ ‘‘ اچھی تحریروں پر مبنی ہوتا ہے اور جوابات بھی خُوب صورت، حوصلہ افزا، دل چسپ۔ روا دارانہ بھی اور فاضلانہ بھی۔ میٹھے بھی کڑوے کسیلے بھی یعنی جیسے کو تیسا۔ (صدیق فن کار، جھاورہ، راول پنڈی کینٹ)
ج: کہیں کہیں’’ جیسے کو تیسا‘‘ کا اصول اپنانا ہی پڑتا ہے۔
میگزین کی جان
جان لیوا بیماریوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ہم پھر حاضرِ خدمت ہیں۔ قلم کاغذ دوبارہ ہاتھ میں آنے کی امید بھی دَم توڑتی نظر آرہی تھی، لیکن مالک کا شُکر ہے کہ آج پھر اِس قابل کردیا۔سنڈے میگزین سامنے ہے، آج تو ماڈل بھی اچھی نظر آرہی ہے، جسے کبھی نظر بھر کے دیکھا بھی نہیں۔ سرچشمۂ ہدایت ہمیشہ کی طرح بہت خوب صورت ونایاب موتیوں سے لبریز نظر آیا۔ چلتا پھرتا کلینک، ہیلتھ اینڈ فٹنس ہربار قیمتی معلومات لے کر آتا ہے۔ سنڈے اسپیشل تو ہمیشہ ہی اسپیشل معلومات اپنے جلو میں لیے ہوتا ہے۔ پیارا گھر تو ہوتا ہی پیارا ہے۔ ماریہ شمعون کی باتیں دل چسپ اور معلومات سے بھرپور تھیں، بہت اچھی لگیں۔ یعنی غربت اور مفلسی آپ کے لیے کہیں بھی رکاوٹ نہیں، آپ چاہیں توناممکن کو ممکن بناسکتے ہیں۔ ایویلن جولیا بھی قیمتی جواہر سے کم نہیں۔آپ کا صفحہ تو ہے ہی میگزین کی جان۔اِس بار میگزین میںبہت سنجیدہ اور سلجھے ہوئے خطوط پڑھنے کو ملے، سب ہی اچھے لگے۔ (نرجس مختار۔خیرپور میرس، سندھ)
ج: اللہ صحت دے، آپ کا یوں بزم میں آنا بہت اچھا لگا۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
20مارچ کے سنڈے میگزین میں اپنا خط دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، خاص طورپر آپ کے جواب دینے کے انداز کے تو ہم دیوانے ہی ہوگئے۔ جنوری، فروری، مارچ تینوں مہینوں میں ہمارے خطوط چَھپے، گویا اِس سال تو ہمارے مزے ہیں۔ اب آتے ہیں اپنے پیارے میگزین کی طرف۔ حالات و واقعات میں منوّر مرزا پوری آب و تاب سے چھائے ہوئے تھے۔ پاکستان جیسے مُلک کو جس میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے قومی معاملات پرہم آہنگ نہ ہوں، وہاں آزاد خارجہ پالیسی کیسے نافذ کی جاسکتی ہے؟ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر اقبال پیرزادہ کا ’’تپِ دق‘‘ کے بارے میں سیر حاصل مضمون معلومات میں گراں قدر اضافے کا باعث بنا۔ روحی معروف’’ڈائون سینڈروم‘‘پر معلوماتی مضمون لکھ کر داد وصول کرنے کی حق دار ہیں۔شفق رفیع نے کیا ہی عمدہ انداز سے’’ہم متحد کیوں نہیں‘‘ کے عنوان پر سروے کیا۔سرکردہ افراد کا یہ کہنا درست ہے کہ اگر ہم نے اپنے حق کے لیے آواز نہیں اُٹھائی، تو ہماری آنے والی نسلیں بھی غلام بن کر رہ جائیں گی۔ عرفان جاوید کا مضمون’’ آصف اسلم فرخی‘‘ اختتام پذیر ہوا۔ ایک سراپا علم و ادب شخص کا دل چسپ احوال پڑھ کر اچھا لگا، عرفان جاوید کی مضمون پر مکمل گرفت تھی، اُن سے اشفاق احمد، بانو قدسیہ پر بھی مضمون لکھنے کی درخواست ہے۔’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘میں محمّد زبیر حسن نے خُوب صُورت کہانی لکھی، یقیناً وہ نئے لکھنے والوں میں ایک بہترین اضافہ ہیں۔ عالیہ کاشف عظیمی نے معروف اداکار، معظّم علی خان سے انٹرویو لے کر ہماری معلومات میں اضافہ کیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ ہمیشہ کی طرح پیارا رہا، شام کی گرما گرم چائے کے ساتھ پین کیک مزا دے گیا۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے 23مارچ کی مناسبت سے خصوصی افسانہ لکھ کر ہمارا دل جیت لیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحے پر حریم شفیق، اسلام آباد کا چھوٹا سا پیراگراف’’سنو مان رکھنا‘‘دل کو چُھو گیا۔ ناقابلِ فراموش کے دونوں ہی مضامین قابلِ تعریف تھے۔ اختر سعیدی لاجواب تبصرہ کر رہے ہیں۔ اور اب باری ہے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، جو دراصل ہمارا صفحہ ہے۔ سات چِٹھیوں کے بیچوں بیچ نازلی فیصل تاروں کے جُھرمٹ میں چاند کی مانند موجود تھیں۔ (خالدہ سمیع، گلستانِ جوہر کراچی)
گوشہ برقی خطوط
* مَیں بچپن سے سنڈے میگزین کا بہت ہی ذوق و شوق سے مطالعہ کررہی ہوں۔ ڈاکٹر عاقب معین کا انٹرویو پڑھ کے بہت ہی مزہ آیا۔ میری آپ سے التماس ہے کہ ایسی ہی اچھوتی شخصیات کے انٹرویوز پر فوکس رکھا کریں، نہ کہ فن کاروں، سیاست دانوں کے پیچھے بھاگا جائے، ممکن ہو تو میری خواہش اور فرمائش پر ہشام سرور اور ریحان اللہ والا کے انٹرویوز بھی کروائے جائیں۔ مجھے یقین ہے، لوگ اُن کے انٹریوز بھی بہت پسند کریں گے۔ (عائشہ صدیقہ، رحیم یار خان)
ج: عائشہ! نام نوٹ کرلیے ہیں۔ جوں ہی ممکن ہوگا، آپ کی خواہش کی تکمیل کی کوشش کی جائے گی۔
* آپ نے میری ای میل شایع کی، بےحد شُکریہ، اتنا عرصہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا حصّہ نہ بننے کی وجہ سہولیات کی عدم دست یابی تھی۔ شکایتی ای میل ایک مان کے ساتھ ہی کی تھی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ اور ’’متفرق‘‘ کےصفحات پہلے نہیں پڑھتی تھی، لیکن سی ایس ایس کی تیاری شروع کی، تو پتا چلا کہ اِنہیں ہی تو کرنٹ افیئرز کہتے ہیں، بخدا بہت مدد مل رہی ہے، آپ کے ان صفحات سے۔ شکریہ سنڈے میگزین، اور ہاں، امّ ادیبہ اور ادیبہ چدھڑ، دونوں مَیں ہی ہوں۔ (ادیبہ چدھڑ،حافظ آباد)
ج: خوشی ہوئی، آپ سے متعلق جان کے، آئندہ بھی جب موقع ملے، آتی جاتی رہیے گا۔
* کئی ہفتے پہلے ’’بیکٹریا‘‘ کے عنوان سے ایک افسانہ ای میل کیا تھا، براہِ مہربانی بتادیں کہ قابلِ اشاعت ہے یا نہیں۔ (محمد ابراہیم)
ج: بارہا عرض کیا ہے، کسی بھی تحریر سے متعلق انفرادی طور پر بتانا ممکن نہیں ہوتا، اسی لیے ناقابلِ اشاعت کی فہرست شایع کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ براہِ مہربانی میگزین کا مطالعہ جاری رکھیں۔ تحریر کی اشاعت،عدم اشاعت کا علم آپ کو جریدے ہی کے توسّط سے ہوگا۔
* میرا ایک سوال ہے کہ کیا مَیں صفحہ’’ اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے لیے کچھ لکھ سکتا ہوں۔ (عبدالرحمن چوہدری، لاہور)
ج: کسی بھی صفحے کے لیے لکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk