• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

31 توپوں کی سلامی

اِس بار بھی دو شماروں یعنی6 اور13 مارچ پر تبصرہ کروں گا۔ ایک شمارے میں سرچشمۂ ہدایت کا صفحہ تھا۔حالات و واقعات میں اقتصادی پابندیاں، جنگ کی ایک نئی شکل پر مضمون تھا، تو ویڈیو گیمز پر فیچر میں بتایا گیا کہ کھلاڑی جیت کر بھی ہار جاتا ہے۔ سوشل ورکر، گلگت بلتستان کی پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت کلثوم فرمان اور ریٹائرڈ ڈرائیور کی بیٹی، بلوچستان کی پہلی مسیحی خاتون اسسٹنٹ کمشنر ماریہ شمعون کے انٹرویوز شان دار تھے۔ اسٹائل کے دونوں شماروں کا رائٹ اپ عالیہ کاشف نے لکھا۔ گردوں کے دائمی امراض پر ڈاکٹر روبی عدنان نے خُوب معلومات دیں۔ کرپٹو کرنسی کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اُس پر بھی مضمون پڑھ لیا، جس میں لکھا گیا کہ اِس کرنسی کا درست استعمال سیکھنے کے لیے کم از کم دس سال کا عرصہ درکار ہے، تو کانوں کو ہاتھ لگا لیا کہ اِتنا عرصہ کیوں اِس پر لگائیں۔جے ایس بینک کی کئی شعبوں کی سربراہ، ایویلین جولیا گل نے بتایا کہ خواتین ایک اکائونٹ پر بے شمار سہولتیں لے سکتی ہیں۔ میرا خیال ہے، خواتین کو اِس طرف ضرور توجّہ دینی چاہیے۔ ’’بلوچستان خشک میوہ جات اور پھلوں کی سرزمین‘‘ اچھا مضمون تھا۔اِس صوبے سے گیس نکلتی ہے، پھل، میوہ جات حاصل ہوتے ہیں، سونا چاندی نکلتا ہے، مگر پھر بھی یہ صوبہ ترقّی کیوں نہیں کر سکا، یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آتی۔’’ آپ کا صفحہ‘‘ کے راجا جی نے ناچیز کو ’’پرنس آف لیٹر اسٹیٹ‘‘ کا خطاب دیا، اُن کی مہربانی ہے۔ راجاجی نے اِتنی عرق ریزی سے خط لکھا کہ اُنہیں31 توپوں کی سلامی سے نوازتے ہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

کمال کا آدمی

منور مرزا حالات و واقعات میں آزاد خارجہ پالیسی پر بہت عُمدہ انداز میں اپنا بیان دے رہے تھے۔ شفق رفیع نے اِتنا بڑا سروے کرکے کمال کر دیا۔ یہ تو بہت ہی محنت طلب کام ہے۔عرفان جاوید کا آدمی، کمال کا آدمی ہے۔پڑھ کربہت اچھا لگ رہا ہے۔’’ اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں محمّد زبیر حسن نے ’’میاں جی‘‘ کے نام سے ایک بہت ہی پیاری داستان بیان کی، ہم اپنے والد( مرحوم) کو میاں بھائی کہا کرتے تھے۔ ڈائجسٹ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا چراغ اچھا لگا۔ نظم’’اے نگارِ وطن‘‘ بھی پسند آئی۔ ناقابلِ فراموش کی دونوں ہی کہانیاں اچھی تھیں۔ ( رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

کبھی شاد، کبھی ناشاد

27فروری کا میگزین بڑے بارُعب انداز میں موصول ہوا، تو یوں لگا کہ’’ کوئی آگیا ہے دل کی دنیا آباد کرنے۔‘‘ٹائٹل پر سُرخ رنگ کی پَری کسی چشم بدور کا تصوّر دے رہی تھی، پھر محمّد احمد غزالی اپنے قلم کو حضرت بہاءالدّین نقش بندؒ کے تذکرے سے چار چاند لگا رہے تھے کہ ایسی قابلِ فخر شخصیات کے بارے میں لکھ کر بندہ خود بھی فیض یاب ہوتا ہے۔ کمانڈر صاحب نے پاک فضائیہ کے کارنامے پر روشنی ڈالی کہ کس طرح دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔ ڈاکٹر سیّد محمد عظیم کا دلی شُکریہ کہ اُنہوں نے علمی، وراثتی، ثقافتی اور تہذیبی سیر کروائی، رئوف ظفر کی ٹائمنگ تو لاجواب تھی کہ سوالات کے تیر درست موقعے پر چلا رہے تھے، تو محمّد منیر احمد نے بھی کافی سودمند جوابات دیے۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم بھی میٹھے کی کثرت سے استعمال کی روک تھام کرتی نظر آئیں۔ ویسے عرفان جاوید ہمیشہ ہی کچھ نیا لاکے دل خوش کردیتے ہیں، اُن کا ’’آدمی‘‘ تو زبردست ہے اور اس نے ناول کی کمی بھی پوری کردی۔ منور مرزا اپنا فرض بخوبی نبھاتے ہوئے میدان مار گئے اور خطرناک معاشی بحران سے خبردار کرنے کے مشن پر رہے۔ اب بات آئی ہے سب کے پیارے، چہیتے صفحے کی، تو رنگ برنگے خطوط نے کبھی شاد کیا، تو کبھی ناشاد۔ (ایمن علی منصور، کراچی)

سب ہی بہترین

شفق رفیع کی تحریر’’ بے روح روزہ‘‘، راؤ محمد شاہد اقبال کا مضمون ’’ماہِ صیام اور روزہ کشائی‘‘ روبینہ فرید کی تحریر’’ رمضان المبارک کا پیغام لاالہ الااللہ‘‘ ڈاکٹر عزیزہ انجم کا مضمون’’ ماہِ صیام کا احترام یقینی بنائیں‘‘ ڈاکٹر زاہد ثقلین، رومیصا ظفر،مولانا ڈاکٹر قاسم محمود سمیت ماہِ رمضان سے متعلق سب ہی مضامین بہترین اور ایمان افروز تھے۔ ( حمیدہ گل، حمیرا گل، کوئٹہ)

غم ناک انجام

20مارچ کے شمارے کے سرورق پر ماڈل نے سبز رنگ کا لباس زیب تن کررکھا تھا، جو 23مارچ کی مناسبت سے بھلا لگا۔ حالات واقعات میں منور مرزا منقسم دنیا میں آزاد خارجہ پالیسی کے چیلنجز کے خطرات سے آگاہ کررہے تھے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹر اقبال پیرزادہ تپِ دق کے عالمی یوم پر اس کے خطرات اور احتیاط پر خصوصی مضمون لائے، تو روحی معروف ڈائون سینڈروم جیسی مہلک بیماری کے خطرات سے آگاہ کررہی تھیں۔ سروے میں شفق رفیع دانش ورانِ قوم کے تاثرات بیان کررہی تھیں۔ سینٹرل اسپریڈ میں عالیہ کاشف عظیمی پھول جیسے کِھلتے ملبوسات متعارف کروا رہی تھیں۔ آدمی میں عرفان جاوید نے علم و ادب پر دنیا سے داد سمیٹنے والے، فرخی صاحب کے آخری ایّام کی غم ناک کہانی پر اختتام کیا۔ انسان کس بات پر نازوفخر کرے کہ اس کے ساتھ آئندہ کیا عبرت ناک واقعہ ہونے والا ہے۔ اِک رشتہ، اِک کہانی میں محمّد زبیر حسن اپنے استاد و بزرگ کے اوصاف و اخلاقیات بیان کررہے تھے۔ کہی اَن کہی میں بانیٔ پاکستان کے دستِ راست اور مُلک کے پہلے وزیرِاعظم، لیاقت علی خان کے پڑپوتے معظّم علی خان سے عالیہ کاشف عظیمی اُن کے زندگی سے متعلق بات چیت کررہی تھیں۔پڑھ کر خیال آیا کہ اُنھیں شوبز کی بجائے مُلکی خدمت کے لیے کسی اور فیلڈ میں ہونا چاہیے تھا۔ پیارا گھر میں شازیہ عُمر چکن پاستا اور پین کیک کے ساتھ حاضر تھیں، فرخندہ سبزیوں کو تازہ رکھنے کے ٹوٹکے بتا رہی تھیں۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا یومِ پاکستان کی مناسبت سے اچھا افسانہ لائے، جس میں استاد، شاگرد کی محبّت و عقیدت کا ذکر تھا۔ ناقابلِ فراموش کی دونوں آپ بیتیاں بھی تحریکِ پاکستان کے جوش و خروش اور ہجرت کی خونچکاں واقعات پر مشتمل تھیں۔ اختر سعیدی نے حسبِ معمول نئی کتابوں پر ماہرانہ تبصرہ کیا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ابھی کنفرم نہیں

آپ کا جریدہ نہ صرف مُلک کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے، بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لکھاری اور قاری بھی دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔ صبور فاطمہ نے اپنے مضمون ’’اسلام میں تحفّظِ ماحولیات کی افادیت‘‘ میں جس طرح معلومات دیں، مَیں تو کہتی ہوں قومی اور عالمی سیمینارز میں اِس طرح بحث ہوتی، تو آج ہم سرسبز و شاداب دنیا میں رہ رہے ہوتے۔ ’’جمع اور تفریق‘‘ کا ٹائٹل ’’تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست‘‘ تو اتنا زبردست لگا کہ پوچھیں مت۔ ویسے تمام ٹائٹل انتہائی زبردست تھے۔ ٹائٹل بنانے والے کو بھی مبارک باد ،لیکن مٹھائی کا ڈبہ نہیں،کیوں کہ خط شائع نہ ہونے کی وجہ سے ہم بائیکاٹ پر ہیں (ویسے کنفرم نہیں کہ ناراضی آپ سے بنتی ہے یا ڈاکیا بھائی سے، ویسے اگر یہ خط پہنچ گیا تو پھر یقیناً آپ سے)۔ویسے کلر آف دی 2022ء نے میگزین کو چارچاند لگا دیے۔ (نادیہ کاکڑ، بلوچستان)

ج: دیکھیں ،آپ کا خط ملا اور چھپ بھی گیا، تو ناراضی ڈاکیا بھائی سے کنفرم کرلیں۔

چوڑی دار پاجاما

میگزین کا نام’’ سنڈے میگزین‘‘ کیوں رکھا ہے، اِس کا نام بدلیں۔ جب ای میل کارنر کا نام گوشہ برقی خطوط اور لیٹر آف دی ویک کا نام’’ اِس ہفتے کی چِٹھی‘‘ ہوسکتا ہے، تو میگزین کا نام بھی بدلا جاسکتا ہے۔میگزین میں 1998ء سے خواتین ہی کی ماڈلنگ کیوں شائع ہوتی ہے۔ہمیں بھی موقع دیں، چوڑی دار پاجامے، کُھسے، رام پوری ٹوپی اور منہ میں پان کی گلوری کے ساتھ۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد کراچی)

ج: اب اِتنا بھی بُرا وقت نہیں آیا، جو تم سے ماڈلنگ کروانی پڑے۔

گھنٹی کون باندھے؟

سنڈے میگزین اپنی تمام تر رعنائیوں اور خوش بوئوں کے ساتھ قدرے تاخیر سے ملا کہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے مطالعے کی عادت درہم برہم ہوچکی تھی، اِس لیے بے دلی سے ورق گردانی کرتےخطوط کی محفل میں اپنا خط پاکر پپڑی جمے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ کھل گئی اور لبوں سے نکلا کہ اب بیماری میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ محمّد احمد غزالی کے مضمون میں حضرت بہاءالدّین نقش بندؒ کے حالاتِ زندگی پڑھ کر ایمان کو تازگی ملی۔ انٹرویو میں ماہرِ معاشیات محمّد منیر احمد درست فرما رہے تھے، مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے، عجائباتِ لاہور پڑھ کر دل پھر سے لاہور دیکھنے کے لیے مچلنے لگا۔ کہی اَن کہی میں عالیہ کاشف عظیمی کا کیا ہوا انٹرویو ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔ ڈاکٹر عاطف سماعت پر معلوماتی مضمون لائے۔ڈاکٹر عزیزہ انجم کا مضمون پڑھ کر ہم نے عہد کیا کہ اپنے اخلاق کو مزید بہتر بنائیں گے۔ راول پنڈی سے روبینہ صاحبہ کا مضمون’’ کچھ روز عمان میں‘‘ پڑھتے ہوئے لگا، جیسے ہم بھی اُن کے ساتھ محوِسفر تھے۔ منور راجپوت معیاری اور دل چسپ کتابوں کے ساتھ حاضر ہوئے اور تمام ہی کتابوں پر جان دار تبصرہ کیا۔ (محمّد منیر گریوال چک نمبر 725ب گ، تحصیل کمالیہ، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ)

جندر

’’ آدمی‘‘ سلسلے کی چھٹی قسط کی، جو 13مارچ کو سنڈے میگزین میں شائع ہوئی، آخری سطروں میں لکھا گیا کہ ایک دفعہ آصف اسلم فرخی نے اختر رضا سلیمی کے ناول’’ جندر‘‘ کے معنی پوچھے، جو مضمون نگار کے علم میں نہیں تھے، تاہم اُنھوں نے بتایا کہ پنچابی میں’’ جندرا‘‘ لفظ استعمال ہوتا ہے، جس کے معنی تالے کے ہیں۔تو عرفان صاحب، پہلے تو آپ تلفّظ درست کریں، یہ لفظ جندر ہے یعنی جیم کے نیچے زیر اور اس کا مطلب ہے’’خراس‘‘۔ خراش ایک دیسی ساختہ دیہاتوں میں گندم پیسنے والی مشین کو کہتے ہیں، جو بیل یا دو بیلوں کی مدد سے چلتی ہے۔ پنجاب میں اسے خراس اور کشمیر پوٹھوہار سائٹ میں جندر کہتے ہیں۔ پہلی قسط میں آپ نے آصف کے معنی اکٹھا کرنے والا، جمع کرنے والا لکھا تھا جوکہ میرے خیال میں درست نہیں۔ آصف کے معنی زیرک، دانا، بزرگ کے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ایک اوسط درجے کے ادیب، لکھاری دانش ور کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ (محمّد اشفاق بیگ، ننکانہ صاحب)

ج: فرخی صاحب نے مضمون نگار سے کسی لفظ کا مطلب پوچھا، جو اُن کے علم میں نہیں تھا، البتہ اُنھوں نے اُس سے ملتے جُلتے ایک دوسرے لفظ کے بارے میں اُنھیں بتایا، تو اِس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟پھر یہ کہ آپ نے لفظ جندر کی جو تفصیل بتائی ہے، وہ وکی پیڈیا پر بھی موجود ہے، یہ تو لکھاری کی دیانت داری ہے کہ جو واقعہ جیسے ہوا، کسی ایڈیٹنگ کے بغیر بیان کردیا، حالاں کہ وہ بھی جندر کا مطلب تلاش کر ہی لیتے۔ آصف کے معنی زیرک اور دانا کے ساتھ منتظم اور جمع کرنے والے کے بھی ہیں۔باقی، آصف فرخی کی علمی وادبی حیثیت کی ایک دنیا معترف ہے، کسی کے اعتراض سے وہ بونے تو ہونے سے رہے۔

                                فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سلامِ اُلفت، نرجس جی! لیجیے، ہم ایک بار پھر آگئے، آپ کی محفل میں شرکت کرنے۔ چاہے تو خوش آمدید کہیے، نہ بھی کہیں، تو ہم کون سا بُرا ماننے والے ہیں۔ ہاہاہا… میگزین کے سرِورق پر ایک تو ماڈل صاحبہ کا وزن، اوپر سے عجیب و غریب انداز اور مزید یہ کہ ساتھ مصرع موزوں کیا گیا؎ ’’کہ پھول جیسے کِھلے ہوں رنگارنگ…‘‘ سچ کہوں، مجھے تو ماڈل گوبھی کا پھول ہی لگی۔ ہاہاہا… ’’سروے‘‘ میں شفق رفیع پوچھ رہی تھی ’’ہم متحد کیوں نہیں؟‘‘ اگر ہم سے پوچھا ہوتا، تو پتا ہے ہمارا جواب کیا ہوتا، ویسے آپ کو اچھی طرح معلوم ہے لیکن خیر، وہ ہم سے نہیں، معززینِ شہر سے پوچھ رہی تھی، سو ہمارا جواب رہنے ہی دیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں پڑھا ’’منقسم دینا میں آزاد خارجہ پالیسی کےچیلنجز‘‘…پاکستان جیسے ممالک کو غیر جانب داری کی بھی سزا بھگتنی پڑ سکتی ہے۔ خدا کا خوف کریں، منور صاحب۔ اب ہمیں غیر جانب داری پر بھی سزا ہوگی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں تین تین ڈاکٹرز سے ملاقات ہوئی اور ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں محمد زبیر حسن کی ’’میاں جی‘‘ بہت ہی زبردست کہانی تھی۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں لیاقت علی خان کے پڑپوتے، معظم علی خان سے ملاقات دل چسپ رہی۔ محترم فرما رہے تھے، دھیمے مزاج کا سیدھا سادہ، محبّتیں نچھاور کرنے والا انسان ہوں۔ ہاہاہا…تو بھلا کون ظالم اپنے منہ سے کہتا ہے کہ ’’مَیں خوں خوار مزاج کا گُھنّا، میسنا اور چیرپھاڑ کرنے والا انسان ہوں۔‘‘ ہاہاہا…ویسے اِسے ہی کہتے ہیں، اپنے منہ میاں مٹّھو بننا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں فرخندہ جی نے واقعی کھانے پینے کی اشیاء محفوظ رکھنے کے کارآمد گُر بتائے، لیکن وہ کیا ہے کہ گھر والے کہتے ہیں کہ اسماء کوئی کھانے کی چیز چھوڑے تو ہم اُسے محفوظ کریں، یہ تو کچھ چھوڑتی ہی نہیں۔ بقول امّاں، یہ تو کچّی سبزیاں بھی کھا جاتی ہے۔ (بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی، ہاہاہا…) ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹر رانجھا کا ’’چراغ‘‘ بھی بہت پسند آیا اور اسی صفحے کے آخر میں مہر منظور فرما رہے تھے کہ راہ چلتی عورتوں اور لڑکیوں کو دیکھنے والا مرد جب اپنی ماں، بہن، بیوی کے ساتھ باہر نکلتا ہے، تو ہر مرد کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ واہ، بھئی واہ! اگر یہی بات ہماری کسی بہنا نے کہی ہوتی توہمیں اتنی خوشی نہیں ہوتی۔منظور بھائی نے کہی ہے، تو بہت ہی خوشی ہوئی۔ صنفِ کرخت سے تعلق ہوتے ہوئے ایسی بات کہنا دل، گردے کا کام ہے کہ یار لوگوں سے مار بھی پڑسکتی ہے، ہاہاہا… اس بار نئی کتابوں کی تعداد کچھ زیادہ ہی تھی میرے خیال میں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں پرانی یادوں اورزخموں سے سجی دونوں تحریریں بہت اچھی لگیں۔ ہمارا صفحہ بھی اچھا ہی تھا، لیکن اس بارا ہمارا کسی نے ذکر ہی نہیں کیا تھا۔ اور اب یہ کہہ کر میرا دل مت توڑ دیجیے گا کہ ’’ارے! تم کہاں کی منسٹر لگی ہو، جو ہم تمہارا ذکر کرتے پھریں۔‘‘ ہاہاہا…!! (اسماء خان دمڑ، سنجاوی، بلوچستان)

ج:تمہیں تو ’’وزارتِ قلب‘‘، دل کی منسٹری ملی ہوئی ہے۔ تمہیں کسی اور منسٹری کی کیا ضرورت۔ قسم سےمُوڈ سخت آف بھی ہو،تو تمہارا خط پڑھ کے ہنسی چُھوٹ جاتی ہے، خصوصاً تمہاری صاف گوئی اور بےساختگی تو اپنی مثال آپ ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* ایک طویل عرصے سے اپنی ایک چھوٹی سی ای میل کی اشاعت کی منتظر ہوں، مگر باری ہے کہ آکے ہی نہیں دے رہی۔ کیا مجھے بتایا جائے گا کہ اتنا ظلم مجھ نازک، پھول سی لڑکی پر آخر کیوں؟ آپ کا صفحہ تو اب ایک سُونی، ویران سی سڑک کا منظر پیش کرنے لگا ہے، آپ کےجوابات کا کرارا پن بھی بہت حد تک کم ہوگیا ہے، ایسا کیوں؟ (فیری خان)

ج: لڑکی! تمہاری یہی ایک ای میل موصول ہوئی ہے۔ وہ جس کی اشاعت کی تم مدّتوں سے منتظر ہو، وہ تو کہیں ہوا بُرد ہی ہوگئی۔ تم جیسی نٹ کھٹ لڑکیوں نے آنا چھوڑدیاہے، تو بزم بھی سُونی، ویران سڑک سی لگنے لگی ہے۔ رہا جوابات کا کرارا پن، تو بھئی، لوگ بُرا مان جاتے ہیں، اِسی لیے تھوڑا سنبھل کے جوابات دینےشروع کردیئے ہیں کہ ناحق کسی کی دل آزاری ہو، اچھا نہیں۔

* خلائی سائنس دان، ڈاکٹر عاقب معین کے انٹرویو کی اشاعت پر میں آپ کا بےحد ممنون ہوں۔ واقعی، جنگ، جنگ ہے، اتنا شان دار انٹرویو اِسی ادارے کے تحت ہوسکتا تھا، مَیں تو بس اب اگلی پکنک خلا میں منانے کی تیاری کر رہا ہوں۔ (وقاص علی قریشی،حیدر آباد)

ج: مگر بھیّا، دھیان رہے، اس خواہش کی تکمیل کے لیے آپ کو زمین نامی سیارے پر موجود اپنا گھر بار بھی بیچنا پڑ سکتا ہے کہ خلا کی سیر کوئی گڈے گڑیا کا کھیل نہیں۔

* کیا ضروری ہے کہ’’اسٹائل‘‘ کی سُرخی کسی مصرعے ہی کی صُورت ہو، ایک عام سی سُرخی بھی تو نکالی جا سکتی ہے۔ (عیشا چوہدری)

ج: اب اگر قارئین کی اکثریت اِسی شاعرانہ سُرخی کی مدّاح ہے، تو ہم کیا کریں، حالاں کہ ہر ہفتے ماڈلنگ سے ہم آہنگ، موزوں مصرعے کی تلاش، کسی عام سی سُرخی کے انتخاب سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔

* سنڈے میگزین ہر طبقۂ فکر کے افراد کا مَن پسند شمارہ ہے۔ میری درخواست ہے کہ اسپیس سائنس کو مستقلاً جریدے کا حصّہ بنایا جائے۔ (سہیل عباس)

ج: مستقلاً تو کسی بھی موضوع کو جریدے کا حصّہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ہاں، کبھی کبھار اسپیس ٹیکنالوجی پر بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk