• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایسا ہونے کا امکان تب زیادہ ہوتا تھا، جب انھوں نے بےدلی سے مروتاً حساب کتاب کیا ہوتا۔ ویسے بھی علمِ نجوم علمِ کیمیا یا علمِ طبعیات کی طرح ایسادرست علم بھی نہیں کہ ایک عمل کا ہر مرتبہ مطلوبہ طور پر مستند نتیجہ ہی نکلے۔ بہرحال، اسحاق نُور ایک متلوّن مزاج آدمی تھے، پَل میں ماشا پَل میں تولا۔ ایسا بھی ہوتا کہ سخت ترین بات پر مُسکرا دیتے اور بعض اوقات اعلیٰ مراتب کے لوگوں کو ڈانٹ بھی دیتے۔ 

کسی عوامی سواری پر طویل سفر کے بعد بھی تازہ دَم، زندگی سے بھرپور، چھوٹے معاملات میں بھی دل چسپی لیتے ہوئے، اہم لوگوں سے اپنے تعلقات بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہوئے، بیش تر وقت بظاہر مسکراتے ہوئے مگر دل میں نجی نوعیت کے دو اندوہ ناک صدموں کا کرب چھپائے ہوئے، ہرمذہب کی سچائی پر یقین رکھنے کے ساتھ خوب مزے سے قصّوں، یادوں کی پٹاری کھولتے ہوئے۔ اُن کی خواہش تھی کہ مَیں اُن کا خاکہ لکھوں، میرے ساتھ طویل نشستیں ہوئیں اور اُن کی تحریر کردہ یادداشتوں کے درجنوں صفحات بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ اسحاق نُور شام کو کراچی میرے ہاں آئے، رات بھر گفت گو جاری رہی، یہاں تک کہ صبح کی پاکیزہ، تازہ روشنی نمودار ہوگئی۔ سو، ٹکڑیوں میں سُنی اُن کی زندگی کی کہانی کو مَیں نے ایک رنگ بہ رنگ چادر کا روپ دیا ہے ۔

گجرات کےایک گاؤں میں ایک کمہار کے گھر پیدا ہونے والے اسحاق نے 2001ء میں اپنی زندگی کی نصف صدی مکمل کی۔1951 ء میں گجرات شہر کی آبادی اتنی تھی کہ اسے شہرکے بجائے قصبہ کہا جاسکتا تھا۔ اُس کے نواحی علاقے میں پرورش پانے والا اسحاق اپنے گاؤں کے کچّے مکانوں کے بیچ لیٹی کچّی گلیوں میں سارا دن بھاگتا، کھیلتارہتا۔ تیز دھوپ میں دریائے چناب کی بالائی سطح پر پانی بخارات کی شکل اختیار کررہا ہوتا تو اسحاق کسی چھتناور درخت کی چھاؤں میں یار بیلیوں کے ساتھ بیٹھا کبھی سرسبز کھیت دیکھتا تو کبھی خاک اڑاتی راہ پر چلے آتے شناسا چہروں کو۔ 

گجرات کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ خال خال ہی اس میں اُگتے سبزے کی گھناوٹ میں خاک کے پیوند نظر آتے۔ دُور سرسبز کھیتوں کے بیچ اینٹوں کے بھٹّے یوں زمین سے بلند ہوتے، جیسے اس سے اُگے ہوں۔ ’’میرے بچپن میں کوئی ایسی خاص بات نہ تھی جسے رومان کے ساتھ بیان کروں۔ میرے ماں باپ اپنے کئی بچّوں، روزگار اور گھریلو ذمّے داریوں میں دن رات یوں مصروف رہتے کہ اُن کے پاس میرے لیے وقت نہ ہوتاتھا۔ مَیں خودرو پودے کی طرح بڑا ہوتا گیا۔ پانچ برس کی عُمر میں مجھے کچّی جماعت میں داخل کروا دیا گیا۔ وہاں ایک نرم ونازک بچّہ میرا دوست بن گیا۔ بہت بعد میں وہ بچّہ کام یاب سرکاری ملازم اور معروف کالم نگار بنا، جسے لوگ اوریا مقبول جان کے نام سے جانتے ہیں۔ 

مَیں آج جب اُس گلی سے گزرتا ہوں، تو اُس احاطے کو غور سے دیکھتا ہوں، جہاں مَیں نے ابتدائی جماعتیں پڑھیں۔ اُسے پنجابی میں بیٹھکی کہاجاتا تھا۔ وہ میونسپل کمیٹی کا اسکول تھا۔ صبح سویرے جماعت شروع ہونے سے پہلے ہم بچّوں سے صفائی کروائی جاتی اور پٹ سَن سے بنے ٹاٹ جھڑوائے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ چَھٹی جماعت میں کٹائی کے موسم میں استاد نے ہمیں گندم کی کٹائی کے لیے گاؤں اور کھیتوں میں بھی بھیج دیا تھا۔ اوریا شروع سے پڑھائی میں لائق اور تابع فرمان شاگرد تھا، اُسے جماعت کا مانیٹر بنادیا گیا تھا۔ ہم اسکول میں ڈرامے بھی رچاتے تھے، باقاعدہ تیاری کی جاتی تھی، پورا اسکول یہ ڈرامے بڑے اہتمام سے دیکھتا تھا۔ 

مَیں اور اوریا میٹرک تک اکٹھے رہے، پھر جدا ہوگئے۔ پچیس برس بعد میری اُس سے ملاقات حادثاتی طورپر ایک دل چسپ اتفاق کے نتیجے میں ہوئی۔‘‘ مَیں بہت انہماک سے اسحاق کی گفت گو سن رہا تھا۔ گو، اُن کی گفت گو اوریا مقبول جان ہی کے گرد گھوم رہی تھی، مگر اُس میں اُن کی اپنی زندگی کی جھلکیاں بھی تھیں۔ ’’مَیں ایک مرتبہ کوئٹہ میں ٹھیرا ہوا تھا۔ مَیں ایک تندور سے روٹی لینے گیا تو تندور والے نے روٹی اخبار میں لپیٹ کردی۔ اُس اخبار میں اوریاکے حوالے سے خبر تھی۔ مَیں نے سوچا کہ ہونہ ہو، یہ وہی میرا بچپن کا دوست اوریا ہے۔ 

مَیں نے اخبار کے دفترفون کر کے اُس کا نمبر لیا اور اُسے فون کیا تو وہ میری آواز سن کرہی مجھے پہچان گیا۔ بہت تپاک سے بات کی اور مجھ سے ملنے ہوٹل چلا آیا۔ اُس کے بعد ہمارا رابطہ بحال ہوگیا۔ تب تک میں آسٹرولوجر بن چُکا تھا اور وہ سرکاری افسر۔ اُسی دَور میں مَیں نے ٹنڈوآدم میں اگربتّی کا کارخانہ لگا لیا تھا اور اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لیے خود ہی ملک کے طُول وعرض میں گھومتا رہتا۔ مارکیٹنگ میں بھی مجھے بہت دل چسپ تجربات ہوئے۔ جب اوریا ڈی سی، سبّی تعینات ہوا تو مَیں، جو اس سے پہلے تحصیل جھٹ پَٹ اور اوستا محمد تک جاتا رہتا تھا، سبّی جانا شروع ہوگیا۔ وہاں مَیں ڈی سی کے بنگلے کی انیکسی میں قیام کرتا۔

یہ بنگلا کئی ایکڑ رقبے پرپھیلا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ڈی سی کے لیے ریلوے کا ایک سیلون ہروقت سبّی اسٹیشن پر تیار ہوتا جو اُسے لے کر پرنائی شاہ تک جاتا تھا۔ وہاں مجھے ایک خاصا منفرد تجربہ ہوا۔ مَیں ایک مرتبہ پسنجر ٹرین پر بیٹھ کر پرنائی گیا۔ اس ٹرین کو لوگ لوکل بس کی طرح ہاتھ دے کر کھڑا بھی کرلیتے تھے۔ مَیں جب سفر کررہاتھا تو ایک گاؤں سے ذرا نکل کر ایک دیہاتی نے ہاتھ کے اشارے سے ٹرین رکوائی، وہ میرے ڈبّے میں چڑھ آیا اور اس کے ساتھ دس بارہ بکریاں بھی چڑھ آئیں۔ سبّی کے بیل خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مَیں مطالعے کے باعث تین تین دن تک انیکسی سے باہر نہیں نکلتا تھا۔ مَیں نے مکمل وِل ڈیوراں اسی انیکسی میں پڑھا۔‘‘ 

اسحاق نُور ہمیشہ میرے کتب خانے میں بیٹھتے تھے، بارہا اُٹھ کر کتابیں دیکھتے، چند ایک کی ورق گردانی کرتے اور اگر کسی مصنّف کی کتب پڑھ رکھی ہوتیں، تو اس کی دیگر کتب کی بابت دریافت کرتے۔ مثلاً ایک مرتبہ غلام جیلانی برق کی کتاب ’’مَن کی دنیا‘‘ شیلف میں رکھی دیکھی تو مجھے پرُزور مشورہ دیا کہ میں اُن کی کتاب ’’دو اسلام‘‘ بھی ضرور پڑھوں۔ اِسی طرح خوش وَنت سنگھ کی خود نوشت دیکھ کر اُس کی سِکھوں کی تاریخ پر کتب پڑھنے پر اصرار کیا۔ برٹرینڈرسل کی خودنوشت دیکھ کر اس کی مغرب کے فلسفے کی تاریخ پر کتاب کی خاصی تعریف کی۔ اسحاق کا مقصد اپنے مطالعے سے مرعوب کرنا نہیں ہوتاتھابلکہ وہ حقیقتاً علم وکتب کے عاشقِ صادق تھے۔ وہ کتابوں کی اور اس طرح لپکتے،جیسے بھوکی بکری جنگلی جھاڑیوں پر منہ مارتی ہے۔

مطالعے کا شوق پیدایشی طور پر اُن کے خون میں شامل کردیا گیا تھا۔ وہ لڑکپن ہی میں راول پنڈی چلے آئے۔ تب پنڈی پر فوجی چھاپ بہت نمایاں تھی، یہ فوج کا ہیڈکوارٹر ہے اور پورے شہر پر ایک چھاؤنی کا عسکری رنگ روغن نظر آتا تھا۔ شہر بھر میں فوجی اردلی صبح سویرے فوجی افسران کے انگیٹھی والی استریوں سے استری شدہ یونی فارم تھامے تیز تیز سائیکلیں چلاتے نظر آتے تھے۔ وہاں جابجا چیڑکے درخت اور نیم پہاڑی علاقوں میں اُگنے والے پودے بوٹے تھے، پوٹھوہاری دکان داروں کو باقی مُلک کے برعکس جلد دکانیں کھولنے کی عادت تھی، ایک ڈسپلن اور عسکری زندگی کا جماجمایا ماحول صدر سے سول لائنز تک نظر آتا تھا۔ 

اسلام آباد تازہ آباد ہو رہا تھا۔ وہاں گزشتہ دارالخلافہ،کراچی سےسگارپیتے تھری پیس سُوٹس میں ملبوس بیوروکریٹ، اُن کی ساڑیاں پہنتی نفیس بیگمات، دُھلے دُھلے نِک سک سرکاری ملازم اور بابو اور اُن کے شائستہ اہلِ خانہ، مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سِول افسران، ملازمین اوردیگر متعلقہ لوگوں کی کھیپ پنڈی میں شام کو ٹینس اور گالف کھیلنے آتی۔ وہ لوگ میس میں شامیں مناتے،انگریزی ادب پڑھتے، فوجی افسران اور جوانوں میں یوں گُھل مٍل جاتے، جیسے ذرا ہی فاصلے پر اٹک پار دریائے کابل، دریائے سندھ میں رَل مِل کر ایک دریا بن جاتا ہے۔ 

پنڈی میں آریا محلہ اور دیگر محلّوں میں ہندوؤں کی دیدہ زیب حویلیاں اور وسیع رقبے پرپھیلےمکانات تھے۔ مکانات پر کندہ نقوش، جھروکے اور بالکونیاں، لکڑی کی نفیس جالیاں، عبادت کےکمرے،کمروں میں مورتیاں، مورتیوں کے ساتھ دیوار میں محرابیں اور پتھر کی سِلیں اور اُن پردھرے دیے اور چراغ، اندر کے ماحول میں پُراسراریت پیدا کرتے تو باہر نکھری نتھری روشنی میں پہاڑوں میں بہتے قدرتی چشموں اور چیڑ، دیودار کے درختوں کو چُھوکر آتی تازہ ہوا اک عجب سرشاری اور آسودگی سی طاری کردیتی۔ اُس دَور میں ایک بڑی عیاشی سینما میں فلم دیکھنا ہوتی تھی۔ لوگ خوب تیار شیار ہوکر، سینما دیکھنےجاتے تھے، جیسے کسی دعوت پر جارہے ہوں۔

آغاجی اے گُل کا راول پنڈی میں واقع شبستان سینما، شہر کی اشرافیہ کامرکز تھا۔ کلنٹ ایسٹ وُوڈ، انتھونی کوئین اور عمر شریف پردئہ سیمیں پر راج کرتے تھے اور اُس سینما کے گیٹ کیپر تک گریجویٹ اور سوٹڈ بوٹڈ ہوتے تھے۔ اسلام آباد میں میلوڈی سینما نے بھی اپنے دروازے شائقین کے لیے کھول دیے تھے۔ سی ڈی اے کی لال مسجد ایک کُھلے میدان میں بنائی گئی تھی۔ اُس کے گرد ابھی چار دیواری تعمیرنہیں ہوئی تھی۔ اُس میں بیٹھے نمازیوں کو ایک جانب شکرپڑیاں تک جاتا جنگل نظر آتا تو دوسری جانب مارگلہ کی پہاڑیاں سبزے میں ملبوس نظر آتیں۔ بارشیں اکثرہوتی تھیں۔ وفاقی سیکرٹریٹ زیرِتعمیرتھا اور اس تک پگڈنڈیاں جاتی تھیں۔ 

اُس دَور میں فلموں کے مقامی زبانوں میں نام رکھنے کا رواج عام تھا، جو آج ملٹی پلیکسز کی آمد سے گھٹ گیا ہے۔ لڑکپن کے سرکش، منہ زور گھوڑے پرسوار اسحاق نُور پنڈی جاپہنچا۔ اس کے پاس کوئی ہُنر تو تھا نہیں، کمیٹی چوک میں ایک موٹر میکینک کے پاس ہیلپر کا کام شروع کر دیا۔ کچھ عرصے بعد اسے موٹر میکینکی سے ترقی کرنے کا شوق مورس کمپنی کے دفتر لے گیا، جہاں وہ ملازم ہوگیا۔ مزید ترقی کے شوق نے پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ میں آٹو موبائل ڈپلومے کی راہ دکھائی۔ ’’اُس وقت ٹیوٹا کرولا کارنئی نئی متعارف ہوئی تھی۔ یہ گاڑی اٹھارہ ہزار روپے میں مل جاتی تھی۔ ٹیوٹا کی ایجینسی منو موٹرز کے پاس تھی۔ 

پولی ٹیکنیک میں داخلہ خاصا مشکل تھا اوراس کے لیے میٹرک میں فرسٹ ڈویژن ہونا لازمی تھا۔ مَیں نے میٹرک سائنس کے ساتھ کرنے کا ارادہ کیا اور کالج روڈ پر تعلیمات ِعالیہ کالج میں میٹرک کی تیاری کے لیے داخلہ لے لیا۔ یہ جماعت ِ اسلامی کے مشہور لیڈر، پروفیسر فتح محمّد کا کالج تھا۔ مگر مَیں نے میٹرک کی تیاری اپنے گاؤں آ کر کی۔‘‘ اسحاق نُور اورمَیں پشاور کے قصّہ خوانی بازار میں نان، چپلی کباب اور چٹنی کھا کر ہوٹل کے قالین پر بنی نشست پر بیٹھے الائچی مِلا قہوہ پی رہے تھے، جب اسحاق نُور نے مجھے اپنے لڑکپن کی یہ روداد سُنائی۔

عموماً ہماری گفت گو مختلف موضوعات پر یوں چلتی چلی جاتی تھی، جیسے ایک پتّا بہتی ندی کی سطح پر قدرتی بہاؤ کے ساتھ بہتا، کنارے کی جھاڑیوں میں اٹکتا، پانی بیچ بنتے چھوٹے چھوٹے گردابوں میں گھمّن گھیریاں کھاتا چلا جاتاہو۔ اسحاق نُور نے اپنی عادت کے مطابق موضوع بدلا۔ ’’یار! یہ چپلی کباب مزے دار تو ہیں، مگر اِن میں خالص دیسی غذا والا ذائقہ نہیں۔ آج ہر شہر میں دیسی مرغیاں اور دیسی انڈے ملتے ہیں، یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ مُرغیاں مصرعی ہوتی ہیں، جنھیں ولایتی غذا دے کر ڈیڑھ دو مہینے میں تیار کیا جاتا ہے، جب کہ دیسی مرغ ڈیڑھ دوسال میں قدرتی غذا پر تیار ہوتا ہے۔ 

دونوں ہنڈیا میں گلنے میں دیر لگاتے ہیں، اِنھیں پریشر کُکر پر تیار کرنے پر ان کا ذائقہ جاتارہتاہے۔ اصلی دیسی مُرغ کا ذائقہ اوراس میں طاقت، مصرعی سے بہت مختلف اور زیادہ ہوتی ہے۔ اب گاؤں، محلوں میں دیسی پالک کے نام پر نہ جانے کیا گھاس پھونس کِھلا دی جاتی ہے۔ اِس وقت پورے پاکستان میں دیسی پالک سیال کوٹ میں ملتی ہے، جسے وہاں گجرات کا ایک شخص اُگاتا ہے۔ 

دیسی پالک اور دیسی کھانوں کا اصل لُطف کوئلوں پر پکانے میں ہے۔‘‘ مَیں نے گفت گو کی رَو میں، موضوع سے ہٹتے ہوئے، سوال کیا کہ دیسی مرغ کہاں ملتے ہیں تو اسحاق نُور نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا۔’’کندیاں اورخوشاب کے درمیان ایک مقام پرلڑنے والے اصیل مرغوں کی منڈی لگتی ہے، جو مرغ لڑائی ہار جاتا ہے، وہ اپنے مالک کے لیے بدنامی کا باعث بنتا ہے، سو وہ اُسے بیچنے چلا آتا ہے۔ اس طرح کے خالص اصیل کُکڑ ملنا بہت مشکل ہے، مگر اب بھی کراچی کی ایمپریس مارکیٹ اور لاہور کی کُوپرروڈپرنیم دیسی مرغ مل ہی جاتے ہیں۔‘‘میری دل چسپی ہنوز اسحاق نُور کی داستانِ حیات میں برقرار تھی، کیوں کہ وہ ایک شخص کی داستانِ حیات نہ تھی بلکہ پاکستان کا ایک پورا تہذیبی سفر تھا۔ 

’’آپ نے میٹرک کی تیاری کے لیے پنڈی میں داخلہ لیا، تو امتحان آکرگجرات سے کیوں دیا؟‘‘مَیں نے پوچھا، تواسحاق نےکچھ سوچا، کچھ یادکرنےکی کوشش کی اورجھنجھلا کر بولے۔ ’’وہاں بلوے، ہنگامے شروع ہوگئے تھے۔ ایّوب خان کے خلاف پہلا سیاسی جلوس پولی ٹیکنیک کے لڑکوں نے ہی نکالا تھا۔ مَیں نے اس میں پہلی مرتبہ پولیس پر پتھراو ہوتے بھی دیکھا۔ البتہ راول پنڈی میں میرا قیام زندگی کے یادگار واقعات میں سے ہے۔ وہاں مَیں نے بے شمار فلمیں دیکھیں۔ اُس دَور کی واحد بےباک فلم ’’بچّے کی پیدایش‘‘ بھی مَیں نے وہیں دیکھی۔ مَیں سائیکل پر پنڈی سے اسلام آباد نکل جاتا تھا، مَیں چھوٹا تھا، بھاری سائیکل کو سنبھالتا، پیڈل مارتا مارگلہ کی پہاڑیوں تک، سید پورگاؤں، بَری امام اور سیکرٹریٹ کی پگڈنڈیوں تک ہو آتا تھا۔ راول پنڈی ہی میں مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔

اس میں اشرف بُک ڈپو کے جِلدسازمالک تھے، جو کمیٹی کے چوک میں دکان کرتے اور لیاقت باغ میں میونسپل کمیٹی کی لائبریری کا اہم کردار رہے۔ راول پنڈی کینٹ میں پلازا اور اوڈین سینما ساتھ ساتھ ہیں، اُن کے سامنے والی سڑک پر فیروزسنز کا کتابوں کا بڑا شو روم تھا۔ اِسی طرح بینک روڈ پرجی ٹی ایس بس سروس کے اڈّے کے قریب امریکن سینٹر تھا، جو ایک لحاظ سے لائبریری بھی تھی۔ سو، مَیں عموماً امریکن سینٹرچلا جاتا تھا اورمختلف رسائل وجرائد کی ورق گردانی کرتا رہتا تھا۔ (جاری ہے)