• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے ماں! تو عود میں، عنبر میں، تو گلاب میں ماں ...

تحریر: نرجس ملک

عکّاسی و اہتمام: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

؎ ’’تمام لفظوں میں روشن، ہر ایک باب میں ماں…جُنوں کے شیلف میں ہے، عشق کی کتاب میں ماں…اے ماں! تُو خُوشبو کا نایاب استعارہ ہے…اے ماں! تُو عُود میں، عنبر میں، تُو گلاب میں ماں…خُود اپنی ممتا میں ہی نُور کا سمندر ہے…نہیں ہے اور کسی روشنی کی تاب میں ماں۔‘‘ سارے رشتے، ناتے، تعلق، واسطے ایک طرف اور ماں، اولاد کا بندھن ایک طرف۔ ایسا نہ ہوتا تو کیا خالقِ کائنات، مالکِ کون و مکان، مخلوق سے اپنی الفت و محبّت، مودت و رحمت کے اظہارکی تمثیل کے لیے ماں ہی کے رشتے کا انتخاب کرتا کہ ’’وہ70 مائوں سے زیادہ شفیق و مہربان ہے۔‘‘ 

اِس ایک لفظ ’’ماں‘‘ میں ایسی مِٹھاس، حلاوت و شیرینی گُھلی ہے کہ اکثر گود لینے، دیکھ ریکھ کرنے، پالنے، سنبھالنے والی ہی نہیں، بعض اوقات سوتیلی بھی گُڑ کی ڈلی بن جاتی ہے، تو پھر نو ماہ کوکھ میں اُٹھائے اُٹھائے پِھرنے، اپنے وجود کو چچوڑ، نچوڑ کر اِک خُون کےلوتھڑے سےایک پورا وجود تخلیق کرنے اور پھر دنیا کی سب سے بڑی تکلیف ’’دردِ زہ‘‘ سہہ کر ایک ننّھے سے وجود کو دنیا میں لانے والی ماں کی ممتا کا کیا عالم ہوگا، الفاظ میں اظہار ممکن ہی نہیں۔ وہ کسی نےکہا ہے ناں کہ ’’دنیا میں ہزار طرح کی محبّتیں ہیں، لیکن یہ جو’’ماں کی محبّت‘‘ہے، یہ سب محبّتوں کی ماں ہے۔‘‘ مطلب، ممتا کی تعریف و تشریح بھی بس ممتا ہی سے ممکن ہے۔

آج دنیا بَھر میں ’’مائوں کا عالمی یوم‘‘ منایا جا رہا ہے اور اس خُوب صورت دن کے لیے ہم نے جس بہت پیاری سی ماں کا انتخاب کیا ہے، وہ اپنے وجود سے جنمے چار بچّوں کی ماں تو ہیں ہی، لیکن ساتھ ہی اُنہیں ’’100بچّوں کی ماں‘‘ کہلانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ گرچہ اب اُن 100بچّوں کی تعداد بھی بڑھتے بڑھتے175 تک پہنچ چُکی ہے، لیکن ابتداً صوفیہ وڑائچ نے ’’100بچّوں کی ماں‘‘ کے نام ہی سے مُلک گیر بلکہ عالم گیر شہرت حاصل کی۔ اس شہرت کا تفصیلی احوال تو آپ ہماری6 اگست2023ء کی اشاعت میں یقیناً ملاحظہ فرما چُکے ہوں گے۔ 

مگر آج ہم نے اُن کے اپنے نورِ نظر، لختِ جگر، جگر گوشوں، آنکھ کے تاروں (اُن کی سب سے بڑی19 سالہ بیٹی فجر، 18 سالہ ماہ نُور، 14 سالہ امیر حمزہ اور سب سے چھوٹے6 سالہ محمّدعلی) کے ساتھ یہ ’’مدرز ڈے اسپیشل بزم‘‘ سجائی ہے اور ساتھ ہی صوفیہ وڑائچ سے گھر کے ماحول، اولاد کی تعلیم و تربیت، کل کی اور آج کی ماں کے چیلنجز اور بچّوں کے ساتھ اُن کے اور ان کے ساتھ بچّوں کے تعلق کے حوالے سے کچھ ہلکی پُھلکی سی بات چیت بھی کی۔ یاد رہے، صوفیہ کی زندگی کا ایک بڑا حصّہ فلاحی و رفاہی سرگرمیوں کے لیے وقف ہے۔ ایک گھر اور5 بچّوں سے شروع ہونے والا اُن کا سفر اب8 گھروں اور 175بچّوں تک دراز ہوچُکا ہے۔ 

گرچہ المرا فائونڈیشن (اپنا گھر) کے تحت ایک یک سرجداگانہ تصوّر کے ساتھ 200 کے لگ بھگ بچّوں کو انتہائی معیاری تعلیم و تربیت اور بالکل گھر کا سا ماحول فراہم کرنا ہرگز کوئی آسان امر نہ تھا، لیکن صوفیہ پہلے اپنے والد کے ساتھ خدمتِ خلق میں سرگرمِ عمل رہیں اوراب اُن کے انتقال کےبعد اپنے حد درجہ کو آپریٹو شوہر(کمانڈنٹ پولیس ٹریننگ کالج،چونگ، ڈی آئی جی پنجاب) محبوب اسلم للہ کے تعاون سے اپنے عزمِ صمیم (بے سہارا، لاوارث بچّوں کی بہترین پرورش و نگہداشت اوراعلیٰ تعلیم و تربیت) پر مستقل ڈٹی ہوئی ہیں بلکہ اب تو اُن کے بچّے بھی اِسی رہ گزر کے مسافر ہیں۔

’’آج کے دَور میں جب کہ ’’بچّے، دوہی اچھے‘‘ کلیہ بھی کچھ خاص کارگر نہیں رہ گیا۔ اپنے چار بچّوں اور پھر ’’اپنا گھر‘‘ کے پونے دو سو بچّوں کو سنبھالنا کس قدر مشکل ٹاسک ہے اور کیا اس ضمن میں آپ کے اپنے بچّوں کو نظر انداز کیےجانےکی شکایت تو نہیں ہوتی؟‘‘ ہمارا صوفیہ سے پہلا سوال تھا، جس کا اُنھوں نے بہت مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’الحمدللہ، اب نہیں ہوتی، ہاں، شروع میں بڑی بیٹی فجر کو یہ شکایت ہوگئی تھی اور وہ اِس لیے کہ جب ہم اپنے ’’فیملی ٹائم‘‘ (شام کو جو چند گھنٹے ہم سب لازماً اکٹھے گزارتے ہیں۔) میں بھی بس فاؤنڈیشن کے بچّوں، سرگرمیوں ہی کی باتیں کرتے رہتے، تو اس نے برملا شکوہ کیا کہ ’’ماما… بابا…!! لگتا ہے، آپ لوگ بھول ہی گئے ہیں کہ آپ کے اپنے بھی چار بچّے ہیں۔‘‘ اور پھر سب سے چھوٹے، علی کے رویّے میں بھی کسی حد تک جارحانہ پن آنے لگا کہ ’’مَیں تو ماما، بابا کا سب سے چھوٹا، لاڈلا بیٹا تھا، یہ اتنے سارے ’’ماما، پاپا‘‘ کہنے والے بچّے کہاں سے آگئے؟ تو پھر چوں کہ مَیں خُود سائیکلوجسٹ، فیلن تھراپسٹ بھی ہوں، تو مَیں نے اِس معاملے کو بڑی مہارت و سمجھ داری سے ہینڈل کیا اور آج، الحمدُللہ، ثم الحمدُللہ، ہمارے بچّے، ہمارے مِشن میں ہمارے ہم قدم ہیں، انہوں نے’’اپنا گھر‘‘ تمام بچّوں کو نہ صرف دل سے قبول کرلیا ہے بلکہ سب کو اپنےحقیقی بھائی،بہن سمجھتے ہیں۔ خصوصاً ماہ نور تو عملی طور پر بھی ہمارا بہت ساتھ دے رہی ہے۔‘‘

اپنے دن بھر کے شیڈول سے متعلق صوفیہ نے بتایا کہ ’’صبح شوہر، بچّوں کو دفتر، اسکول، کالج کے لیےسی آف کرنےکے بعد میری ساری توجّہ گھریلو امور، ملازمین، کھانے کے مینیو، مہمانوں کی آمدورفت جیسےمعاملات پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ اُس کے بعد قریباً12بجے آفس جاتی ہوں۔ وہاں سےفاؤنڈیشن کےکسی گھرچلی جاتی ہوں۔ کسی گھر کے بچّوں کی اسکول سے واپسی پر اُنہیں ویلکم کرلیتی ہوں۔ اُن کےساتھ کچھ وقت گزار کے دو ڈھائی بجے تک چھوٹے بیٹےعلی کے اسکول سے واپس آنے تک گھر آجاتی ہوں۔ اُس کے ساتھ لنچ کرتی ہوں، کچھ وقت گزارتی ہوں۔ پھر دوبارہ فاؤنڈیشن کا کوئی دوسرا گھر وزٹ کرلیتی ہوں۔ 

دراصل فائونڈیشن کے آٹھوں گھر، میرے گھر سے دو سے5منٹ کی ڈرائیو پرہیں،تومیرے لیےسب گھروں میں تھوڑا تھوڑا وقت گزارنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ کسی مہمان وغیرہ نے آنا ہو یا گھر کے کچھ اور معاملات ہوں تو گھر آتی جاتی رہتی ہوں۔ ویسے میری غیرموجودگی میں میری والدہ (گرچہ اب اُن کی صحت کچھ زیادہ ٹھیک نہیں رہتی) گھر کے تمام معاملات بُحسن و خوبی دیکھتی ہیں۔ اور رات آٹھ سے ساڑھے آٹھ چوں کہ فاؤنڈیشن کے گھروں میں بیڈ ٹائم ہوتا ہے، تو پھر عموماً مَیں، محبوب اور ہمارےبچّے، اپنے گھر میں رات آٹھ سے گیارہ تک کا وقت سب ایک ساتھ گزارتے ہیں اور اِس دوران ہم اپنے دن بھر کی تمام ایکٹیوٹیزایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں۔ تو بس، یہی روٹین ہے اور اللہ کا شُکر ہے کہ بڑی مصروف، بہت بامقصد زندگی گزر رہی ہے۔‘‘

’’اپنی والدہ اور ساس سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟‘‘ صوفیہ کی زبانی اپنی والدہ کا ذکر بڑی محبت و عقیدت سے سُن کر ہم نے پوچھا۔ تو صوفیہ جیسے شہد آگیں لہجے میں گویا ہوئیں۔ ’’میری والدہ بہت ہی سادہ طبیعت، بڑی نیک طینت، بہت محبّت کرنے، خیال رکھنے والی اللہ لوک خاتون ہیں۔ انہوں نے نہ صرف مجھے اِس طور پروان چڑھایاکہ مَیں آج دنیا کو اپنے بارے میں کچھ بتانے کے قابل ہوں بلکہ میرے بڑے تینوں بچّوں کو بھی اُنہوں نے ہی پالا پوسا ہے۔ خصوصاً فجر تو گویا اُن ہی کی اولاد ہے۔ 

دراصل مَیں چوں کہ والدین کی اکلوتی اولاد تھی، تو جب میری پہلی بیٹی فجر پیدا ہوئی، تو اُس کاخاندان بھر میں بڑا شایانِ شان استقبال ہوا۔ میرے والدین نے اُسے ہتھیلی کا چھالا بنالیا۔ اُس کے بعد ماہ نُور اور امیر حمزہ کے بھی بڑے لاڈ اُٹھائے گئے۔ مَیں چوں کہ اپنے سوشل ورک کے سلسلے میں خاصی مصروف رہتی تھی، تو میرا گھر، بچّے زیادہ تر میری والدہ ہی نے سنبھالے۔ جہاں تک ساس کی بات ہے، تو اُن کا2011ء میں انتقال ہوگیا تھا۔

ویسے وہ جب تک حیات رہیں، ہمارا بہت آئیڈیل تعلق تھا، مگر چوں کہ محبوب کی پوسٹنگز بدلتی رہتی تھیں، تو مجھے اُن کے ساتھ کچھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہیں مل سکا، لیکن جتنا بھی وقت گزرا، بہت خُوب صُورت گزرا۔ جب کہ میری امّی تو اب بھی میرے ساتھ ہیں اوریقین مانیں، میرا سب سے بڑا سپورٹ سسٹم ہی وہ ہیں کہ اگر وہ اِس طرح ہم قدم نہ ہوتیں تو مَیں یہ جو سب کچھ کر رہی ہوں، ہرگز نہ کرپاتی۔‘‘

’’بچّوں کی پرورش و آموزش میں زیادہ کردار کس کا ہے، کیا دونوں نے اپنی ذمّے داریاں بانٹ رکھی ہیں اور آپ کے خیال میں آج کی ماں کو زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے یا پہلے کی مائوں کے لیے اولاد کی تعلیم و تربیت نسبتاً دشوار گزار امر تھا؟‘‘ ہمارا اگلا سوال تھا۔ جس کا جواب صوفیہ نے بڑی دانش مندی سے دیا کہ ’’عموماً اولاد کی تعلیم و تربیت میں زیادہ کردار ماں ہی کا ہوتا ہے، کیوں کہ پیدائش سے لے کر بچّے کے ہوش سنبھالنے تک جیسی بانڈنگ اولاد کی ماں کے ساتھ ہوتی ہے، کسی کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ لیکن ظاہر ہے، ہر اچھا باپ بھی اپنا کردار اور فرائض بخوبی نبھاتا ہے۔ چوں کہ میرے شوہر کی ملازمت کی نوعیت ایسی ہے کہ اُن کی ذمّے داریاں، مصروفیات بہت زیادہ ہیں، لیکن اِس کے باوجود اپنے بچّوں کےمعاملے میں ہم کوئی کمپرومائز نہیں کرتے۔

اُن کا ہر معاملہ، مسئلہ ہماری اوّلین ترجیح ہوتا ہےاور مَیں تو اپنے بچّوں کے لیے ہر لمحہ موجود، حاضر ہوتی ہی ہوں۔ جہاں تک آج اور کل کی مائوں کے چیلنجز کا سوال ہے، تو میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ اِس حوالے سے آج کی ماں کی مشکلات کہیں زیادہ ہیں۔ ہماری مائوں نے اولاد کو بڑی اقدار و روایات کے ساتھ پروان چڑھایااور تب ایک اکیلی ماں نہیں، پورا خاندان مل کر بچّے کی تربیت کرتا تھا، مگراب وقت و حالات نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ 

آج کا بچّہ جس دَور میں پروان چڑھ رہاہے، وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، آرٹیفیشل اینٹلی جینس کا دَورہے۔ ایک چھوٹے سے بچّے کی دسترس میں کیا نہیں۔ یوں سمجھیں، پوری دنیا اس کی انگلیوں کی پوروں میں سمائی ہے، جب کہ ہماری مائوں کو یہ مسائل درپیش نہیں تھے۔ ہمارے دَور میں تو صرف لینڈ لائن فون ہوا کرتے تھے، اوراُن تک بھی ہماری رسائی نہیں تھی۔ والدین اورگھر کے بڑوں، بزرگوں نے جو کہہ دیا، آنکھیں بند کرکے مان لیاجاتا تھا۔ مَیں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی، لیکن میرے لیے والدین کی ہر بات حرفِ آخر ہوتی تھی، جب کہ آج کا بچّہ صرف سوال ہی نہیں کرتا، بحث مباحثہ اورانکار بھی کرتا ہے۔ کلاس فیلوز، دوستوں کی مثالیں دیتا ہے، اُن کی تقلید کی کوشش کرتا ہے۔

پھر یہ جو اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا ہے، بذاتِ خود بہت بڑا چیلنج بلکہ عذاب ہے۔ آج کی ماں، خواہ کتنی ہی تعلیم یافتہ اور اسمارٹ کیوں نہ ہو، اُس کے لیے اِن سارے محاذوں پر لڑناآسان نہیں۔ بچّوں کی اچھی تربیت کےلیےاگر کچھ روک ٹوک، سختی کی جاتی ہے، تو پھر دوسری نوعیت کے مسائل سامنے آجاتے ہیں۔ کبھی بچّہ کسی کمپلیکس میں آجاتا ہے، تو کبھی Retaliate کرتا ہے۔ یوں سمجھیں، آج کا مشینی دور، اولاد کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک مشکل ترین دَور ہے۔ پہلے ادوار کے صرف والدین ہی سیدھے، سچّے، کھرے نہیں تھے، اولاد بھی بہت حد تک کمپرومائزنگ تھی۔‘‘

’’آج کے دَور میں بیٹوں کی تربیت زیادہ مشکل ہے یا بیٹیوں کی، آپ کا تجربہ کیسا ہے، کیا اِن میں کبھی کوئی امتیاز برتا اور کیا آپ کے بچّے اپنا ہر مسئلہ، پریشانی آپ سے بآسانی شیئر کر لیتے ہیں؟‘‘ ہم نے گزشتہ سوال سےمشروط ایک اورسوال کیا، تو صوفیہ نے بات آگے بڑھائی۔ ’’بیٹیوں کی تعلیم و تربیت نہ صرف آج، بلکہ ہر دَور ہی میں آسان رہی ہے اور اِس کی بڑی وجہ یہ ہےکہ بیٹیاں فطرتاً نرم مزاج، مصالحت پسند، مخلص، والدین کی ہم درد، خیال رکھنے، بات ماننے والی ہوتی ہیں اور اُن کی خاطر کئی سمجھوتے بھی کرلیتی ہیں، پھر چوں کہ اُن کی آئوٹ ڈور ایکٹیویٹیز، بیٹوں کی نسبت کم ہوتی ہیں، تو اُن کا بیش تروقت والدین کی نگرانی ہی میں گزرتا ہے۔ اُنہیں کچھ کہنا سمجھانا، اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنا آسان ہوتا ہے۔ 

وہ زیادہ حجّت کرتی ہیں اور نہ ہی مایوس۔ جب کہ بیٹے عموماً اُن کے برعکس ہوتے ہیں۔ مَن مانی تو کرتے ہی ہیں، ساتھ بہت ڈیمانڈنگ بھی ہوتے ہیں۔ اورامتیازی سلوک کی جہاں تک بات ہے، تو فطری امرہےکہ نرم خُو،صلح جُو، مطیع، فرماں بردار اولاد زیادہ پیاری لگتی ہے، خواہ وہ بیٹی ہو یا بیٹا اور عموماً بیٹیاں ہی اِن خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں، تو وہ والدین کو زیادہ پیاری لگتی ہیں۔ دوم یہ کہ اُنہوں نے چوں کہ ایک روزبہرحال رخصت ہوکے سسرال چلے جانا ہوتا ہے، تو والدین اِس لیے بھی اُن کا کچھ زیادہ ہی خیال، مان رکھتے ہیں۔ لیکن اِس کا یہ مطلب بھی ہرگزنہیں کہ بیٹے، والدین کو پیارے نہیں ہوتے، بہت پیارے ہوتے ہیں، خصوصاً مائوں کی تواُن میں جان بسی ہوتی ہے۔ اور میرے بھی چاروں بچّےمیری آنکھ کےتارے،دل کے ٹکڑے ہیں، بلکہ سچ پوچھیں، تو میرا دل تو ’’اپنا گھر‘‘ کے پونے دو سو بچّوں کے لیے بھی اِسی طرح دھڑکتاہے۔

رہا سوال، بچّوں کے مسائل، پریشانیاں شیئر کرنے کا، تو مَیں آپ کو بتاؤں کہ اِس جنریشن کی سب سے اچھی بات ہی یہ ہے کہ یہ بہت صاف گو بلکہ کسی حد تک منہ پَھٹ ہے۔ جو اِس کے دل میں ہے، وہی زبان پر ہے۔ ہم تو اپنے والدین سے کوئی بھی بات کرنے سے پہلے سو بار سوچتے تھے۔ ہمارا والدین کے ساتھ بڑا جھجک، رکھ رکھاؤ والا تعلق تھا اور اُس کے اگر کچھ ثمرات تھے، توکئی نقصانات بھی تھے، جب کہ آج کا بچّہ، والدین سے کوئی بھی بات بڑی آسانی سے، بلا تکلف کہہ ڈالتا ہے، جھوٹ نہیں بولتا اور اُس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ والدین کو پتا ہوتا ہےکہ اُس کے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ 

بلکہ مَیں تو تمام والدین کو مشورہ دوں گی کہ وہ اپنی اولادسےاتنا دوستانہ رویّہ ضرور رکھیں کہ بچّوں کو اپنے دل کی بات کرنے میں کبھی کوئی مشکل نہ ہو، کیوں کہ پھر وہ اپنے کسی مسئلے، پریشانی کےحل کےلیےاِدھراُدھر نہیں بھٹکیں گے۔ یاد رکھیں، جن بچّوں کو گھروں میں نہیں سُنا جاتا، پھر وہ اپنے دل باہر ہلکے کرتے ہیں اور کون جانے کہ جنہیں وہ اپنا مخلص جان کر،اُن پراپنا آپ کھول رہےہیں،وہ اُن کے دوست ہیں یا دشمن۔ جب کہ یہ توطے ہے کہ پوری دنیا میں والدین سے زیادہ اولاد کا کوئی مخلص و خیرخواہ نہیں ہوسکتا۔ توبس، اِسی لیے ہم اپنی اولاد کے بیسٹ فرینڈز ہیں اور وہ ہمارے۔‘‘

’’کیا آپ نےاولاد کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لیےکچھ رہنما اصول بھی وضع کر رکھے ہیں؟‘‘ ہمارے اس سوال پر صوفیہ نے بڑی قطعیت سے جواب دیا۔ ’’میری نظر میں صرف ایک رہنما اصول ہے کہ والدین کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ آپ اپنی اولاد کےلیےصرف زبانی کلامی نہیں،عملاً رول ماڈل ہوں۔ جیسا کہ میرے والدین میرے رول ماڈلزہیں۔ مَیں نے اپنے والد کو ساری زندگی بڑی بےغرضی سے خدمتِ خلق کرتے دیکھا، تو مجھ میں یہ جذبہ آٹومیٹکلی پروان چڑھا۔ اپنی والدہ کو بڑی محبّت و خلوص سے اپنے گھر، اہلِ خانہ پہ نچھاور ہوتے دیکھتی رہی، تو اب مجھے لگتا ہے کہ مَیں خود، اُن کا پَرتو، پرچھائیں بنتی جارہی ہوں۔ مطلب، والدین اپنی اولاد کو جیسا دیکھناچاہتے ہیں، اُنہیں اُن کے سامنے ویسا ہی بن کے دکھانا ہوگا، تب ہی وہ معاشرے کو ایک اچھا انسان دینے کے قابل ہوسکیں گے اور یہ ایک مسلسل عمل ہے، جو بڑی ریاضت مانگتا ہے۔ اولاد کی بہترین، مثالی تعلیم و تربیت ہرگز کوئی آسان کام نہیں۔‘‘

ہمارا اگلا سوال ’’مدرز ڈے‘‘ اور کچھ دیگر اہم ایونٹس عید تیوہار، سال گرہ وغیرہ سے متعلق تھاکہ بچّے کیسے سیلیبریٹ کرتے ہیں اورخُود صوفیہ کا اپنی والدین سے اظہارِ محبّت کاکیا انداز ہوتا ہے۔ وہ اُنہیں تحفے تحائف دیتی ہیں، اُن کی عُمربھر کی محنت و ریاضت، اَن مول چاہت و الفت کوکیسےخراجِ تحسین پیش کرتی ہیں، تو جواباً صوفیہ وڑائچ نے بتایا کہ’’میرے بچّے اِس معاملے میں بڑےایکٹیو ہیں۔ وہ اپنے بابا کے ساتھ مِل کر میرے ہر ایونٹ کوبہت سرپرائزنگ اور بہت یادگار بنادیتے ہیں اور مَیں سمجھتی ہوں کہ مَیں اس معاملے میں حد درجہ خُوش قسمت بھی ہوں کہ میرے بچّے اپنے والدین سے پیار و محبّت کے اظہار میں ہرگز کوئی کنجوسی نہیں کرتے۔ 

وہ بہت ایکسپریسیو ہیں، حالاں کہ عموماً والدین کو شکایت ہوتی ہے کہ وہ اولاد سے جس طرح کُھل کر اپنی چاہت و محبّت کا اظہار کرتے ہیں، جواباً اُنہیں ویسا ریسپانس نہیں ملتا، لیکن الحمد للہ، ہم اس حوالے سے بہت خوش قسمت والدین ہیں۔ آپ میرے بچّوں سے بات کریں گی، تو وہ اپنے جذبات واحساسات کےاظہار میں قطعاً کوئی تامل نہیں برتیں گے۔ ہاں البتہ، مَیں خُود اس حوالے سے کافی Guilt کا شکار رہتی ہوں کو مَیں اپنی ماں کی بےلوث، اٹوٹ محبتوں، خدمتوں، قربانیوں کا بالکل حق ادا نہیں کرسکی۔ حق تو شاید کوئی بھی ادا نہیں کرسکتا، لیکن میرا توخاص طور پر رواں رواں اُن کی بیش بہا مہربانیوں کے قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ 

آج بھی وہ میری غیرموجودگی میں، میرا سارا گھر بار، بچّے سنبھال رہی ہوتی ہیں۔ اور تو اور، میری بھی فکر میں گُھلتی رہتی ہیں کہ تمہیں آرام کا موقع نہیں ملتا۔ تم نے کھانا صحیح سے نہیں کھایا، تم اپنا خیال نہیں رکھ رہی، تمہاری نیند پوری نہیں ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ تحفے تحائف بھی آج تک امّی ہی مجھے دیتی ہیں۔ دراصل میری ماں اتنی سادہ طبیعت ہیں کہ اُن کی پوری زندگی کا محور و مرکز بس ’’گھر‘‘ ہی ہے۔ پہلے مجھے انتہائی ناز و نعم سے پالا پوسا، میری چھوٹی چھوٹی باتوں، ضرورتوں، خواہشوں کا خیال رکھا، پھر میرے بچّوں کوبھی اُسی محبت و چاہت سے پروان چڑھایا بلکہ شاید مجھ سے بھی کہیں زیادہ پیار دیا۔ اور اب بھی اُن کی پوری ہستی ہمارے ہی لیے وقف ہے۔ 

اُن کی اپنی تو کوئی دنیا، کوئی تمنّا ہی نہیں ہے۔ مَیں تو آج تک اُن سے لے ہی رہی ہوں، کچھ دینے کا توانہوں نے کبھی موقع ہی نہیں دیا۔ ہاں، مگر جب بھی کبھی تنہائی میں خیال آتا ہے، تو جی بھر آتا ہے کہ واقعی ؎ اِس توں ٹھنڈی چھاں نیئں لبدی… دُوجی واری ماں نیئں لبدی۔ اللہ تعالیٰ میری ماں کوصحت و تن درستی کےساتھ لمبی حیاتی دے۔ اُن کا سایا ہمارے سَروں پرتادیر قائم رہے۔ مَیں تواُن کے ایک دن کا بھی قرض اُتارنے کے قابل نہیں۔ لیکن، اِس ’’مدرز ڈے‘‘ کے موقعے پر، آپ کےتوسّط سےایک بار تہہ دل سے اُنہیں ’’تھیک یُو امّی جی‘‘ ضرور کہنا چاہوں گی کہ اِس کے سوا ہم اپنی ماؤں کو دے بھی کیا سکتے ہیں۔ وہ لینےکی روادار ہی کہاں ہوتی ہیں۔ مرتے دَم تک بس اولاد پرنچھاور ہی ہوئے جاتی ہیں اور میری ماں تو بس مجسم ’’ماں‘‘ ہی ہے۔‘‘

آخر میں ہم نے چاروں بچّوں سے بھی’’ مائوں کے عالمی یوم‘‘ کی مناسبت سے کچھ اظہارِ خیال کرنے کو کہا، تو بیٹوں نے تو’’ وی لَو یُو سو مچ ماما‘‘ اور ’’ماما! یو آر دی بیسٹ‘‘ کہہ کر اپنے احساسات کو زبان دی۔ جب کہ فجر کا کہنا تھا کہ ’’ہماری ماما دنیا کی بہترین ماں ہیں۔ اور وہ صرف ایک ماں کے رُوپ میں نہیں، اپنے ہر ہر رشتے، انداز میں پرفیکٹ، آئیڈیل ہیں۔ خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار، ہمہ وقت مصروف، سرگرم، لیکن اولاد کے لیے ہمیشہ میسّر۔ سچ تو یہ ہےکہ ہماری ماں جیسا دنیا میں کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ 

پہلے مَیں اپنی نانو کو آئیڈیلائز کرتی تھی، لیکن اب لگتا ہے کہ ماما، نانو ہی کا عکس بنتی جا رہی ہیں۔‘‘ اور ماہ نور نے، اپنی ماما کو اِن الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا کہ ’’میری نظر میں تو ماما، دنیا کی خُوب صُورت ترین عورت ہیں۔ جیسے وہ خُود کو کیری کرتی ہیں، کم ہی خواتین کر پاتی ہیں۔ ہمارے لیے ہماری ماں رول ماڈل تو ہیں ہی، لیکن یہ بھی حقیقت ہےکہ ہم سب اُن کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ ہماری زندگی کا ہر پَل، اِک اِک رنگ اُن ہی کے دَم قدم سے ہے۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید