امریکا میں ٹِک ٹاک پر پابندی کی خبروں سے ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے قومی اور معاشرتی کردار پر بحث کا آغاز ہوگیا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پہلے سے جاری بحث میں مزید شدّت آ گئی ہے۔ امریکا میں ٹِک ٹاک پر پابندی اچانک ہے اور نہ ہی کسی مُلک میں ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ امریکا میں میں ٹِک ٹاک پر پابندی سے متعلق آوازیں سابق صدر ٹرمپ کے زمانے سے شروع ہوئیں، بلکہ اُس وقت وہی اِس سوشل میڈیا فورم کے سب سے اہم ناقد تھے۔
اُن کا دعویٰ تھا کہ اِس ایپ کے ذریعے چین، امریکی معاملات میں مداخلت کرتا ہے، تاہم اب وہ اپنے موقف میں لچک پیدا کر چُکے ہیں، البتہ یوٹیوب اور فیس بُک جیسی ایپس پر اب بھی تنقید کرتے رہتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ایپ، ایکس(ٹوئٹر) نے اُن پر عاید پابندی اُٹھا لی ہے، اِس کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک تو یہ پلیٹ فارم اُن کے دوست ایلون مسک نے خرید لیا ہے اور پھر یہ کہ اُن کا مزاج بھی کچھ اعتدال پر آگیا ہے۔امریکی کانگریس میں ٹِک ٹاک پر پابندی کے بِل کی منظوری نے دنیا بَھر کے کروڑوں سوشل میڈیا صارفین میں ہل چل مچا دی ہے۔
اِن میں سے بہت سے تو ایسے ہیں، جو تفریحی مواد نہ ملنے پر افسردہ ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد اُن صارفین کی بھی ہے، جو اِس فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اُن کی پریشانی یہ ہے کہ اُن کی آواز لوگوں تک مفت میں نہیں پہنچ پا رہی۔ اِن دونوں طرح کے صارفین کا معاملہ اپنی جگہ، مگر دنیا اس معاملے کو ایک اور نظر سے بھی دیکھ رہی ہے اور وہ ہے، اظہارِ رائے کی آزادی۔انسانی حقوق کے عَلم بردار حیران ہیں کہ امریکا جیسے مُلک میں، جو آزادیٔ رائے کا سب سے بڑا دعوے دار ہے، اِس طرح کی پابندیاں کیوں کر عاید کی جاسکتی ہیں؟
اُن کا خیال ہے کہ امریکی اقدام سے باقی ممالک کو بھی شہہ یا ترغیب ملے گی اور وہ بھی سوشل میڈیا فورمز پر پابندیاں عاید کردیں گے کہ بہت سے ممالک پہلے ہی اِس طرح کے اقدامات کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ کہا جاتا رہا ہے کہ جن ممالک میں آزادیٔ رائے پر قدغن ہے، وہاں انسانی حقوق کی پامالی کے لیے عموماً قومی سلامتی کی آڑ لی جاتی ہے، اگر امریکا میں بھی، جس کے آئین کا پہلا آرٹیکل آزادیٔ رائے کو انسانی حقوق کی بنیادی اساس قرار دیتا ہے، جس کے لیڈر اور اہلِ دانش دنیا بَھر کو اس کا درس بھی دیتے رہتے ہیں، نیشنل سیکیوریٹی کو آڑ بنا کر ٹِک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی کے لیے عوامی نمائندے اور حکومت متفّق ہو سکتے ہیں، تو پھر آزادیٔ رائے کا کیا حشر ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ امریکا نے پابندی کا فیصلہ کیوں کیا، اِس اقدام کے سوشل میڈیا اور وسیع تر تناظر میں آزادیٔ رائے پر اندرونِ مُلک اور باقی دینا پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے۔ پھر یہ سوال بھی جواب کا متلاشی ہے کہ قومی سلامتی اہم ہے یا آزادیٔ رائے؟ اور یہ کہ کیا اظہارِ رائے کی آزادی کسی ضابطے کی پابند ہے؟
’’ ٹِک ٹاک‘‘ ایک سوشل میڈیا ایپ ہے، جس کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس ہے۔اس کے سی ای او، شوزی چی، چینی شہری ہیں، تاہم وہ ہارورڈ اسکول کے گریجویٹ ہیں۔ یہ امریکا کا مقبول ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے اور امریکی حکومت کے مطابق وہاں اِس کے صارفین کی تعداد17کروڑ ہے، جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ کمپنی کے مطابق، نوجوانوں کی رغبت کی وجہ وہ تفریحی مواد ہے، جو اِس ایپ پر اُنھیں میسّر ہے۔تفریحی مواد میں زبردست تنوّع ملتا ہے۔
صارفین چھوٹے چھوٹے ویڈیو اور آڈیو کلپس وغیرہ کے ذریعے اپنے خیالات سامنے لاتے ہیں، جن سے اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ویڈیوز اَپ لوڈ کرنے کے لیے اُنھیں کوئی معاوضہ دینا پڑتا ہے اور نہ ہی رجسٹریشن کی کڑی شرائط سے گزرنا ہوتا ہے۔ اِسی لیے عام افراد بھی، خواہ وہ اَن پڑھ ہی کیوں نہ ہوں، اِس پر اپنے جوہر دِکھا سکتے ہیں، بلکہ اگر اُن کا شئیر کردہ مواد وائرل ہوجائے، تو وہ عام ٹک ٹاکر سے راتوں رات سیلیبریٹی بھی بن جاتے ہیں اور اُنھیں آمدنی بھی ہونے لگتی ہے۔
امریکا میں ٹک ٹاک کو بین کرنے کا بِل کیسے پاس ہوا، یہ بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔چوں کہ یہ ایک چینی ایپ ہے اور اس کے سی ای او بھی چینی ہیں، تو ظاہر ہے کہ یہ چین کے زیرِ اثر ہے، تاہم اس کی مالک کمپنی کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ امریکا میں ٹِک ٹاک کے خلاف مہم اُس وقت شروع ہوئی، جب سابق صدر ٹرمپ نے چین پر اِس ایپ کے ذریعے وہاں کے سیاسی، معاشی اور ثقافتی معاملات میں دخل اندازی کے نہ صرف الزامات لگائے، بلکہ اس کے خلاف اقدامات بھی کیے، جن سے متعلق کہا گیا کہ یہ چین اور امریکا کے درمیان معاشی جنگ ہوسکتی ہے، گو کہ ایسا نہیں ہوا۔ٹِک ٹاک کے خلاف امریکی ایوانوں میں جو بِل پیش کیا گیا، اُس میں دو باتیں بہت اہم ہیں۔ایک تو یہ مطالبہ کہ یہ ایپ کسی ایسے شخص یا ادارے کو فروخت کردی جائے، جو امریکی حکومت کا منظور شدہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ اگر ملکیت تبدیل نہیں ہوتی، تو اسے بین کردیا جائے۔
مطالبات کی تکمیل اور پابندی کی تیاریوں کے لیے اِس بِل میں9 ماہ کی مدّت دی گئی ہے، جس میں امریکی صدر کی خصوصی منظوری سے3 ماہ کا گریس پیریڈ بھی دیا جاسکتا ہے۔ یعنی ٹک ٹاک کے خلاف کارروائی مکمل ہونے میں ایک سال لگے گا، جب کہ اِس عرصے میں وائٹ ہاؤس کا مکین بھی بدل چُکا ہوگا۔ یہ بِل جس طرح منظور ہوا، اس سے امریکی ریاست کی اِس ایپ کے خلاف سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
پہلے ٹِک ٹاک بل کانگریس میں پیش ہوا، جہاں یہ بھاری اکثریت سے منظور ہوا، ڈیمو کریٹس اور ری پبلکن ارکان نے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر بِل کے حق میں ووٹ دیا۔سینیٹ میں ٹک ٹاک پر پابندی کے بل کی حمایت میں 79 ووٹ پڑے، جب کہ محض 18 ارکان نے بِل کی مخالفت کی۔ دوسرے الفاظ میں یہ طے ہے کہ امریکی عوامی نمائندوں نے ٹِک ٹاک کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ تسلیم کیا ہے۔
صدر جوبائیڈن پہلے ہی کہہ چُکے تھے کہ اگر یہ بِل پاس ہوا، تو وہ اس پر فوراً دستخط کردیں گے اور 24 اپریل کو بِل کی منظوری کے ساتھ ہی اُنہوں نے اس پر دستخط کر بھی دیئے۔ اب ٹِک ٹاک کی مالک کمپنی کے پاس ایک سال ہے کہ وہ قانونی جنگ لڑے یا پھر امریکی مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے شیئرز امریکا کے منظور شدہ شخص یا ادارے کو فروخت کردے، بصورتِ دیگر پابندی کے لیے تیار رہے۔
بِل میں نیشنل سیکیوریٹی کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ٹِک ٹاک کے پاس17 کروڑ امریکیوں کا ڈیٹا ہے اور خطرہ ہے کہ وہ اِسے چینی حکومت کے حوالے نہ کردے۔ واضح رہے، امریکا کی کُل آبادی 32 کروڑ ہے۔امریکی کلچر میں مادر پدر آزادی کی تو قید نہیں کہ وہاں ہم جنس پرستوں کی شادی تک کو قانونی تحفّظ حاصل ہے، حکومت کو اصل تشویش سیاست اور معیشت سے متعلق لاحق ہے۔
امریکا میں ایک عرصے سے یہ بحث چل رہی ہے، بلکہ اب تو یورپ اور برطانیہ میں یہی بات ہو رہی ہے کہ چین اور روس اُن کے انتخابات میں دخل اندازی کرتے ہیں، اُنھوں نے اِسے’’سائبر وار فیئر‘‘ کا نام دیا ہے۔ ٹرمپ کے پہلے الیکشن میں تو اِس بحث نے خاصی اہمیت حاصل کر لی تھی، جب روسی ہیکرز کا بہت ذکر ہوتا رہا، صدر پیوٹن پر الزام لگا کہ اُنہوں نے خود امریکی انتخابات میں دخل اندازی کا حکم دیا تھا۔ تاہم، روس اِس طرح کے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
ٹِک ٹاک کی مالک کمپنی، بائٹ ڈانس کا موقف ہے کہ اس نے آج تک کسی صارف کا ڈیٹا چینی حکومت کو فراہم نہیں کیا اور نہ وہ مستقبل میں ایسا کرے گی۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے پاس تو کُل بیس فی صد شیئرز ہیں، باقی تو گلوبل سرمایہ کار ہیں۔ سی ای او، شوزی چی کا کہنا ہے کہ کمپنی پابندیوں کو قبول نہیں کرے گی اور قانونی جنگ لڑے گی۔اس طرح کے اقدامات کا نقصان امریکی صارفین اور خود امریکا کو ہوگا، کیوں کہ صارف تفریحی مواد سے محروم ہوجائیں گے اور ٹک ٹاک حکومت کو سالانہ24 ارب ڈالر ٹیکس دیتی ہے، جو اُسے نہیں مل پائے گا۔ اِس ضمن میں چینی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ امریکی مطالبات کی ہرگز منظوری نہیں دے گی اور پابندی کا نقصان امریکا ہی کو ہوگا۔
ٹِک ٹاک کی تین فیڈز ہیں، جو مواد صارف کے سامنے لاتی ہیں۔فالو، فرینڈز اور فار یُو۔پہلی دو یعنی فالو اور فرینڈز، چوائس پر ہیں، یعنی وہی نظر آتا ہے، جو ویور چاہتا ہے۔ ایک طرح سے یہ ذاتی نوعیت کا مواد ہے۔ فار یُو سب کے لیے عام ہے اور اسی کے ذریعے ٹِک ٹاک ہر قسم کا مواد اپنے صارف کے سامنے پیش کرتا ہے۔اِس ضمن میں اُس کا الگورتھم صارف کی سرچ یا ویوز ہسٹری بھی پیشِ نظر رکھتا ہے۔فاریُو میں صارف کو ہر لمحے نئی نئی چیزیں دیکھنے، سُننے کو ملتی ہیں، جس سے اُس کی توجّہ ہٹنے نہیں پاتی اور دل و دماغ اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اِسی لیے ناقدین ٹک ٹاک کو’’ ایک جادو‘‘ یا’’ نشہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔
بھارت نے، جس کی آبادی ایک ارب بیس کروڑ سے زاید ہے اور وہاں ٹِک ٹاک صارفین کی تعداد لگ بھگ بیس کروڑ تھی،2020 ء میں سیاسی اور ثقافتی الزامات کے تحت اس پر پابندی عاید کردی تھی۔ایران اور نیپال نے اسے بین کیا، تو پاکستان میں بھی ایک موقعے پر اس پر پابندی رہی۔برطانیہ نے طویل پارلیمانی بحث اور سوالات کے بعد ٹک ٹاک کو مخصوص شرائط کے ساتھ کام کی اجازت دی ہے۔ یہی حال یورپی یونین کا ہے کہ وہاں بھی ٹک ٹاک کمپنی کو پارلیمان کے سامنے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اس پر جزوی پابندی عاید کردی گئی۔
اب یہ وہاں انڈر آبزر ویشن ہے۔ پاکستان میں بھی اِن دنوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگیولیٹ کرنے کی خبریں عام ہیں۔ہمارے ہاں ففتھ اور سکستھ جنریشن وار کے نام پر ایسے ایسے گُل کِھلائے گئے کہ اب پوری قوم سر پکڑے بیٹھی ہے۔جو اس کے بہت دل دادہ تھے، وہی آج اس سے پناہ مانگ رہے ہیں کہ پرائیوٹ اور پبلک لائف کو الگ الگ رکھا جائے۔سوشل میڈیا کے بے مہار استعمال نے زندگی عذاب بنا دی ہے کہ کسی کی عزّت اور پرائیویسی محفوظ نہیں رہی۔
اوورسیز پاکستانیوں نے تو اسے کیچڑ اُچھالنے کا گڑھ بنالیا، وہ جس مقصد کے لیے بیرونِ مُلک گئے تھے، اُسے بُھلا کر سوشل میڈیا ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ گزشتہ سات، آٹھ سالوں سے حکومتوں کا کہنا ہے کہ ایڈیٹوریل نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا مادر پدر آزاد ہوچُکا ہے، جب کہ اس کے حامیوں کا استدلال ہے کہ یہ عام آدمی کی آواز ہے۔’’ عرب بہار‘‘ کے دَوران سوشل میڈیا کا سیاسی استعمال عروج پر رہا اور اس کی طاقت نے مشرقِ وسطیٰ کو ہلا ڈالا۔ طویل عرصے سے برسرِ اقتدار آمریتیں زمیں بوس ہوئیں۔یہ تو اس کا ایک مثبت پہلو تھا، مگر اِس مہم کا آخری نتیجہ مسلم ممالک کی تباہی کی صُورت سامنے آیا، لیکن جن ممالک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز لانچ کیے تھے، اُنھوں نے اس سے اربوں ڈالرز کمائے اور وہ محفوظ بھی رہے۔ ان میں امریکا، چین، روس، بھارت اور یورپی ممالک شامل ہیں۔
دراصل، سوشل میڈیا عوام کے جذبات بھڑکا کر ہجوم تو اکھٹا کرسکتا ہے، لیکن اُن پر سیاسی ڈسپلن لاگو نہیں کرسکتا، کیوں کہ اس کی لیڈر شپ ہر ایک کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور کسی کو مرکزی کنٹرول حاصل نہیں ہوتا۔ یہ سوشل میڈیا ہی کی دَین ہے کہ اب خواتین اور شادی شدہ مرد بارڈر کراس کر کے محبّت کی شادیاں کر رہے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کے نتائج کس قدر گمبھیر ہوسکتے ہیں۔
مسئلہ تفریح نہیں اور کوئی مثبت سرگرمیوں سے روک بھی نہیں رہا، اصل مسئلہ سوشل میڈیا کے کسی ضابطے کے بغیر استعمال کا ہے۔اگر اس کے ذریعے دوسروں کی تحقیر کی جائے، مَن گھڑت باتیں پھیلائی جائیں اور انسانی اخلاقی اقدار پیروں تلے روند دی جائیں، تو پھر ایسے معاشرے کا اللہ ہی حافظ ہے۔سوشل میڈیا پر ایسے افراد کی بھی کمی نہیں، جو بے دھیانی میں یا پھر کسی ایجنڈے کے تحت مسلسل ایسا مواد شئیر کرتے ہیں، جس سے معاشرہ انتشار اور تقسیم کا شکار ہو رہا ہے، جب کہ مُلک بھی عدم استحکام سے دوچار ہے، جس کے نتیجے میں سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
دراصل، یہ سب امور قومی سلامتی سے تعلق رکھتے ہیں، جنھیں کسی صُورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں، تو اِسے اِس وقت مالیاتی، سیاسی اور سماجی ڈسپلن کی ضرورت ہے، مگر سوشل میڈیا کا بے مہار استعمال اس راہ میں حائل ہے۔اِس پس منظر میں کہا جاسکتا ہے کہ اب سوشل میڈیا کو ضابطے میں لانے میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں رہی کہ قومی سلامتی بہرکیف ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے۔