ایک دھان پان سی خاتون نے ایک کم سِن بچّے کو بڑی چاہت و محبّت، احتیاط اور گرم جوشی کے ساتھ اپنے وجود میں سمیٹ رکھا ہے۔ اگر بات یہیں تک محدود ہوتی، تو اس تصویر میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی، کیوں کہ ہر عورت میں فطری طور پر ممتا کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ لیکن اس مانوس عمل کا برعکس اور ہول ناک پہلو یہ ہے کہ جس بچّے کو اُس خاتون نے خود سے لپٹا رکھا ہے، وہ دراصل چھوٹے سے سفید کفن میں سمویا اُس کی پانچ سالہ بھتیجی، سیلی کا لاشہ ہے۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ اور ناقابلِ بیان حد تک اذیت ناک منظر ہے۔
تصویر میں نظر آنے والی خاتون نے اپنا سَر، عمومی فلسطینی خواتین کی طرح اسکارف سے ڈھانپ رکھا ہے۔ شدّتِ غم سے سَر جُھکا ہوا ہے اور وہ گویا غم و حزن و ملال کی ایک جیتی جاگتی مجسّم تصویر ہے۔ خاتون، لاشے کو ساتھ چمٹائے اپنے چہار اطراف سے یک سر بے خبر، بے نیاز سی ہے۔ اُس کا پورا وجود بس ایک لفظ میں ڈھل گیا ہے ، اور وہ ہے’’قیامت‘‘۔
یہ ننّھا مُنا لاشہ، اُن ہزاروں بچّوں کی لاشوں میں سے ایک ہے کہ جو گزشتہ 7 ماہ سے فلسطینی آبادیوں پرجاری اسرائیل کی وحشیانہ بم باری میں اپنی زندگیوں کی بازی ہار چُکے ہیں۔ ان میں سے بیش تر بچّوں کے ہم نام تک نہیں جانتے، لیکن اُن کی موت اُن کی مائوں اور خاندان کے دیگر افراد کو زندگی بَھر کے لیے ایک ایسے اندوہ ناک غم میں مبتلا کر گئی ہے،جس کا کم از کم اس دُنیا اور زندگی میں تو کوئی مداوا، اندماں کی کوئی صُورت نہیں۔
زیرِ نظر درد ناک تصویر کا قصّہ کچھ یوں ہے کہ 17اکتوبر2023ء کو معروف برطانوی خبر رساں ادارے، رائٹرز کے فوٹو گرافر، محمد سالم غزہ کی پٹّی کے جنوبی علاقے، خان یونس میں واقع نصر اسپتال کے مُردہ خانے میں موجود تھے، جہاں مقامی شہری اپنے پیاروں کی لاشوں کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہے تھے۔ اس دوران سالم کی نظر مُردہ خانے کے فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھی ایک خاتون پر پڑی، جس نے ایک بچّے کے لاشے کو کَس کر اپنے سینے سے لگا رکھا تھا اور بے طرح آنسوبہار ہی تھی، سسکیاں لے رہی تھی۔
یہ منظر فوٹو گرفر کے لیے نہایت دِل خراش تھا، کیوں کہ اُس کی اپنی بیوی نے چند روز قبل ایک بچّے کو جنم دیا تھا اور اُس کی نگاہوں کے سامنے اپنی شریکِ حیات اور نومولود کاچہرہ گھوم گیا۔ محمد سالم کا کہنا ہے کہ ’ ’وہ ایک دل دہلا دینے والا لمحہ تھا ۔ مُجھے محسوس ہوا کہ میری یہ تصاویر غزہ کی پٹّی میں رُونما ہونے والے درد ناک واقعات اور انسانی المیوں کا کچھ وسیع پیرائے میں اظہار کر سکیں گی۔
مُردہ خانے میں اپنے رشتے داروں کو ڈھونڈنے کے لیے آئے لوگ سخت گھبراہٹ کا شکار تھے۔ وہ اپنے پیاروں کا حال احوال جاننے کے لیے خاصے مضطرب تھے اور ایک سے دوسری جگہ بھاگ رہے تھے۔ اس دوران مجھے وہ خاتون سب سے الگ تھلگ دکھائی دے رہی تھی۔ اُس نے ایک کم سِن بچّی کا لاشہ اُٹھا رکھا تھا اور کسی طور اُسے چھوڑنے پر آمادہ نہ تھی۔‘‘
یہ تصویر کھینچنے کے دو ہفتے بعد غزہ جیسے علاقے میں، جہاں ذرایع مواصلات کی بندش کے باعث مطلوبہ افراد کی کھوج لگانا نہایت کٹھن عمل بن چُکا ہے، ’’رائٹرز‘‘ کا عملہ تصویر میں موجود خاتون کا سراغ لگانے اور خان یونس میں واقع اُس کے گھر میں اُس کا انٹرویو کرنے میں کام یاب ہو گیا۔ اس خاتون کا نام اِینس ابو معمار ہے۔ اس کی عُمر 36 سال ہے اور تصویر میں اُس نے جس بچّی کے لاشے کو اُٹھا رکھا ہے، وہ اُس کی 5سالہ بھتیجی، سیلی ہے۔
انٹرویو کے دوران اِینس نے ’’رائٹرز‘‘ کو بتایا کہ جب اُسے اسرائیلی حملے کا پتا چلا، تو وہ دیوانہ وار اپنے چچا کے گھر کی طرف بھاگی اور پھر وہاں سے سیدھے نصر اسپتال کے مُردہ خانے کا رُخ کیا۔اِینس نے نہایت دل گیر لہجے میں بتایا کہ ’’جب مَیں نے سیلی کو کفن میں لپٹے دیکھا، تو مَیں عقل و خرد سے بیگانہ ہو گئی۔ مَیں نے فوراً اُسے اپنی بانہوں میں بَھرلیا۔ ڈاکٹرز نے مُجھے اُسے چھوڑنے کا کہا، تو مَیں نے جواب دیا کہ نہیں، قطعاً نہیں، اسے میرے پاس ہی رہنے دو۔‘‘
اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بم باری کے نتیجے میں اِینس کے چچا اور چچی کے علاوہ سیلی کی ماں اور بہن بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اِینس، سیلی کو بہت زیادہ چاہتی تھی۔ وہ اسکول جاتے ہوئے سیلی سے ملنے اُس کی دادی کے گھر ضرور جاتی اور اپنے موبائل فون سے اُس کی ڈھیروں تصاویر اور ویڈیوز بناتی۔ اِینس نے بتایا کہ ’’سیلی کی بے شمار ویڈیوز اور تصاویر ابھی بھی میرے موبائل فون میں محفوظ ہیں۔ ‘‘ اسرائیلی حملے کے وقت سیلی کا 4 سالہ بھائی، احمد گھر سے باہر تھااور اسی لیے محفوظ رہا۔ اب وہ اِینس کے ساتھ ہی رہتا ہے اور شدید صدمے کے باعث اپنی بہن، سیلی کے بارے میں پوچھنے کے علاوہ شاذو نادر ہی کوئی بات کرتا ہے۔
رواں برس اپریل میں اسرائیلی حملے میں جاں بحق ہونے والی 5سالہ سیلی کی میّت کو سینے سے لگائے اِینس معمار کی اس تصویر کو ’’سال کی عالمی اخباری تصویر‘‘ قرار دیا گیا ہے اور36سالہ فلسطینی خاتون کی یہ تصویر، رائٹرز کے فوٹو گرافر ، محمد سالم نے 17اکتوبر کو جنوبی غزہ کے شہر، خان یونس کے نصراسپتال کے مُردہ خانے میں لی تھی۔ اس ضمن میں ایمسٹرڈیم میں واقع ’’ورلڈ پریس فوٹو فاؤنڈیشن‘‘ کی جیوری کا کہنا ہے کہ’’ یہ تصویر بہت خیال اور احترام کے ساتھ بنائی گئی ہے، جس میں بہ یک وقت ناقابلِ تصوّر نقصان کی ایک استعاراتی اور لفظی جھلک پیش کی گئی ہے۔‘‘
اسی تصویر پر نسلِ نو کے مقبول ترین شاعر، رحمان فارس نے ایک انتہائی دل خراش نظم بھی لکھی ہے، جو اس طرح ہے؎بچّہ ہے، اس کو یُوں نہ اکیلے کفن میں ڈال…ایک آدھ گُڑیا، چند کھلونے کفن میں ڈال…نازک ہے کونپلوں کی طرح میرا شِیرخوار…سردی بڑی شدید ہے، دُہرے کفن میں ڈال…کپڑے اِسے پسند نہیں ہیں کُھلے کُھلے…چھوٹی سی لاش ہے، اِسے چھوٹے کفن میں ڈال…ننّھا سا ہے یہ پاؤں، وہ چھوٹا سا ہاتھ ہے…میرے جگر کے ٹکڑوں کے ٹکڑے کفن میں ڈال…مُجھ کو بھی گاڑ دے مرے لختِ جگر کے ساتھ…سینے پہ میرے رکھ اِسے، میرے کفن میں ڈال…ڈرتا بہت ہے کیڑے مکوڑوں سے اِس کا دل…کاغذ پہ لکھ یہ بات اور اِس کے کفن میں ڈال…مٹی میں کھیلنے سے لُتھڑ جائے گا سفید…نیلا سجے گا اِس پہ سو نیلے کفن میں ڈال…عیسٰیؑ کی طرح آج کوئی معجزہ دکھا…یہ پھر سے جی اُٹھے، اِسے ایسے کفن میں ڈال…سوتا نہیں ہے یہ مری آغوش کے بغیر…فارس ! مُجھے بھی کاٹ کے اِس کے کفن میں ڈال۔
……٭٭……
’’ماؤں کے عالمی دن‘‘ پر غزہ کی اُن ہزاروں دُکھیار ی اور سسکتی بلکتی مائوں کے احساسات بیان کرنا ناممکن ہے، جو اپنے بچّوں کی جُدائی کا بوجھ اُٹھائے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اُن ہی میں 33سالہ علا القطروی بھی شامل ہیں۔ علا، معلّمہ ہونے کے علاوہ ایک شاعرہ بھی ہیں ۔ وہ جنگ شروع ہونے سے قبل اپنے بچّوں کے ساتھ دُبئی منتقل ہونے کا پروگرام بنا رہی تھیں اور کچھ عرصہ قبل ہی متّحدہ عرب امارات سے غزہ واپس آئی تھیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے مشہور خبررساں ادارے، الجزیرہ کے نمائندے نے جب علا القطروی کا انٹرویو لیا، تو وہ سوجی ہوئی آنکھوں سے خلا میں گھور رہی تھیں اور اُن کی زبان ’’آٹھ سالہ یامین، چھے سالہ جڑواں بچّوں آرچڈ اور کنعان اور تین سالہ کارمل کا وِرد کررہی تھی۔ چند ماہ قبل اُن کے چاروں بچّوں ایک اسرائیلی فوجیوں نے قتل کر دیا تھا، لیکن وہ یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور آج بھی اپنی بچّوں کی راہ تک رہی ہیں۔
اسلامیات میں پی ایچ ڈی کرنے والی علا القطروی کی دو برس قبل اپنے شوہر، موسیٰ قندیل سے علیحدگی ہو گئی تھی۔ دسمبر کے آغاز میں، جب ان کے چاروں بچّے اپنے والد کے پاس تھے، جنہیں وہ ان کی حفاظت کی خاطر خان یونس لے گیا تھا، تو ایک روز اسرائیلی فوج نے علا کے سابق شوہر کے گھر پر حملہ کر دیا۔ اسرائیلی سپاہیوں نے نہ صرف اُس کے سابق شوہر اور اُس کے بھائیوں پر تشدّد کیا بلکہ اُن سے رقم، موبائل فون اور طلائی زیورات بھی چھین لیے اور انہیں قید کردیا۔ اس موقعے پر بچّوں کے ایک کزن نے اپنا موبائل فون چُھپا لیا اورپھر 13دسمبر کو بچّوں نے اپنی ماں سے رابطہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ہمارے چاروں طرف لڑائی جاری ہے۔ ہم بہت خوف زدہ ہیں۔ پلیز ماما!آپ ہمیں یہاں سے نکال کر لے جائیں۔ ‘‘ اس کے بعد علا کا اپنے بچّوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
بعد ازاں، علا نے ’’الجزیرہ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’تب مَیں نے سوچا کہ کاش مَیں کوئی غیر مرئی مخلوق ہوتی، جو کسی بھی طرح اپنے بچّوں کو وہاں سے نکال لاتی۔ وہ مُجھے مدد کے لیے پکار رہے تھے اور مَیں بے بس تھی۔ اب بھی جب مُجھے اُن کی فریاد یاد آتی ہے، تو میرادل کٹ کر رہ جاتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ زمین پھٹ جائے اور مَیں اس میں دھنس جاؤں یا پھر یہ ایک ڈرائونا خواب ہو۔‘‘ بچّوں کی کال کے ایک ماہ بعد علا کا ایک سابق دیور گھر سے نکلنے میں کام یاب ہوا، تو گھر تباہ ہو چُکا تھا اور اُس میں سے لاشوں کی بُو آرہی تھی۔ علا نے اپنے بچّوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرا بڑا بیٹا جب پہلی کلاس میں تھا، تو اُس نے مُجھے ایک خُوب صُورت خط لکھا، جس کے آغاز میں ’’میری پیاری ماں‘‘ لکھا تھا۔ وہ اب بھی میرے پاس ہے۔ یامین ابھی آٹھ سال کا ہوا ہے۔
اُس کی پیدائش پر ہم دونوں ماں، بیٹا بمشکل زندہ بچے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال اُس کی سال گرہ کے موقعے پر مَیں اُس کے لیے ایک تہنیتی کارڈ لکھتی ہوں اور اُسے اُس کی کراماتی پیدائش سے متعلق بتاتی ہوں۔ وہ بہت خُوب صُورت ہے۔ اُس کی رنگت سرخ و سفید، بال سُنہرے اور آنکھیں نیلی ہیں۔ وہ بالکل میرے چھوٹے بھائی جیسا لگتا ہے اور اپنے تینوں بہن بھائیوں سے بہت پیار کرتا ہے۔ جنگ شروع ہونے سے ایک ماہ پہلے ہی کنعان اور آرچڈ نے اسکول میں داخلہ لیا۔
وہ دونوں بھی بے حد ذہین اور ہنس مُکھ ہیں۔ کنعان کو پھل بہت پسند ہیں اور بعض اوقات جب وہ سو رہا ہوتا ہے، تو مَیں اُس کے سامنے پھل رکھ دیتی ہوں، تاکہ وہ نیند سے اُٹھے، تو دیکھتے ہی خوش ہو جائے۔ وہ دونوں بھی بہت خُوب صُورت ہیں۔ کنعان، آرچڈ سے کچھ لمبا ہے، جب کہ میری آرچڈ کی سنہری رنگت اور سیاہ گھنی زُلفیں ہیں ۔ ‘‘
علا نے پچھلے مدرز ڈے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ ایک سال پہلے کنعان اور آرچڈ کِنڈر گارٹن میں تھے، تو ماؤں کے عالمی دن پر میرے لیے پھول لے کر آئے۔ آرچڈ نے مُجھے چاکلیٹ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ مما! مَیں نے آپ کے لیے چاکلیٹ خریدی ہے، کیوں کہ مُجھے معلوم ہے کہ آپ اِسے کافی کے ساتھ کھانا پسند کرتی ہیں۔‘‘ چُوں کہ مَیں شاعری بھی کرتی ہوں، اس لیے مَیں نے اپنی بڑی بیٹی نام بھی بہت مختلف اور شاعرانہ سا رکھا ہے۔ مُجھے یقین ہے کہ وہ محفوظ ہوگی اور بڑی ہو کر ڈاکٹر بنے گی۔ اور میری چھوٹی بیٹی کارمل تو حُوروں کی مانند دکھائی دیتی ہے۔
اُسے بھی میری طرح تسبیحاں بہت پسند ہیں۔ ایک مرتبہ مَیں اُسے لے کر اپنی سہیلی کے گھر گئی، تو کارمل نے اُس کی تسبیح اٹھالی، جو بالکل میری تسبیح جیسی تھی۔‘‘علا اپنے بچّوں کی باتیں کرتے خاموش ہوتی ہیں نہ تھکتی ہیں۔ لگتا ہے، زندگی ختم ہو جائے گی، مگر بچّوں کی پیاری پیاری باتیں نہیں۔لیکن… اُن کی آنکھیں، اُن کی باتوں کا ساتھ نہیں دیتیں، کیوں کہ وہ مسلسل بہتے رہنے کے سبب اب خُشک سوتوں کی مانند ہو چُکی ہیں۔