• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وعدوں، دعووں، منصوبوں، دھمکیوں، الزامات، نسلی تعصّب، مذہبی منافرت اور شدّت پسندی سے بھرپور مہم کے ساتھ ایک اعشاریہ بیالیس ارب آبادی پر مشتمل، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار، بھارت میں لوک سبھا کے اٹھارہویں انتخابات ہو رہے ہیں۔بھارتی الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 97کروڑ ووٹرز، جن میں 47 کروڑ خواتین شامل ہیں، اگلی پانچ سالہ مدّت کے لیے نئی قیادت کا انتخاب کر رہے ہیں۔ایوانِ زیریں (لوک سبھا) کی کُل نشستوں کی تعداد 543 ہے، جس میں سے272 نشستیں جیتنے والی جماعت حکومت بنائے گی۔

دنیا بَھر میں اِن انتخابات کو بہت توجّہ سے دیکھا جا رہا ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق، حالیہ الیکشن منہگا ترین ہوگا، ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر20لاکھ کروڑ روپے خرچ ہوں گے،اِس سے پہلے2019 ء کے انتخابات میں60ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔یاد رہے، بھارت کے پہلے پارلیمانی انتخابات پر صرف دس کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔بھارتی الیکشن کمیشن نے اِس مرتبہ امیدوار کا خرچ 70لاکھ کردیا ہے، جس میں پارٹی فنڈ کا خرچ الگ ہے۔

دوسری طرف، پانچ سے دس کروڑ روپے خرچ کرنے کے بعد کام یاب ہونے والے بھارتی رُکنِ پارلیمان کی آمدنی کا جائزہ لیں، تو اُسے سرکار سے ماہانہ ایک لاکھ روپے تن خواہ، 60ہزار روپے ماہانہ دفتر کے خرچ اور 70ہزار روپے انتخابی حلقے کے لیے ملتا ہے، اِس طرح کسی رُکنِ پارلیمان کی سالانہ آمدنی 2760000 ہوتی ہے، جو پانچ برسوں میں ایک کروڑ 38لاکھ روپے بنتی ہے۔سرمایہ کاری اور آمدنی میں اِتنے بڑے فرق کے ساتھ الیکشن لڑنا بظاہر ایک منہگا سودا ہے، جب کہ اِس ضمن میں طرح طرح کے سوالات بھی سامنے آتے ہیں۔ بہرحال، اخراجات میں اضافے کے سبب عام شہریوں کے لیے انتخابات میں حصّہ لینا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔نیز، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتہاپسندی اور مذہبی منافرت میں اضافے کے بعد سے ووٹرز کی2014ء اور2019 ء کے مقابلے میں حالیہ انتخابات میں دل چسپی خاصی کم نظر آرہی ہے۔

2019ء کی طرح حالیہ انتخابات بھی سات مراحل میں ہو رہے ہیں۔ الیکشن کا آغاز19 اپریل سے ہوا اور ووٹنگ کا یہ سلسلہ یکم جون کو اختتام کو پہنچے گا، جب کہ نتائج کا حتمی اعلان 4جون کو کیا جائے گا۔سکم، اڑیسہ، اروناچل پردیش اور آندھرا پردیش اسمبلیوں کی 26نشستوں کے لیے انتخابات بھی لوک سبھا ہی کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ پولنگ کے لیے 19اپریل،26 اپریل، 7 مئی، 13مئی، 20مئی،25مئی اور یکم جون کی تاریخوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔پہلے مرحلے میں21ریاستوں کے102حلقوں میں پولنگ ہوئی، جس میں اتر پردیش، تامل ناڈو، اتراکھنڈ، منی پور، میگھالیہ، آسام، مہاراشٹر، راجستھان، مغربی بنگال اور جمّوں و کشمیر کے حلقے شامل تھے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیرِ اعظم، نریندر مودی، 20حلیف جماعتوں کے اتحاد’’ نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس‘‘ کی مدد سے مسلسل تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے لیے کوشاں ہیں، تو دوسری طرف، چالیس جماعتوں پر مشتمل اتحاد، جس میں کانگریس شامل ہے، انڈین نیشنل ڈویلپمنٹل انکلوسیو الائنس اُن کے مقابلے پر ہے۔2019 ء کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے لوک سبھا کی 303 نشستوں پر کام یابی حاصل کی تھی، جب کہ کانگریس صرف 52 نشستوں پر کام یاب ہو سکی تھی۔ 

بھارتی قیادت نے آزادی کے بعد جنوری 1950ء میں مُلک میں آئین نافذ کردیا اور اس کے اگلے برس1951 ء سے الیکشن کی روایت کا آغاز کر دیا گیا۔بھارت میں پہلے عام انتخابات اکتوبر 1951ء سے فروری52ء کے درمیان ہوئے اور پھر یہ سلسلہ بغیر تعطّل کے اب تک جاری ہے۔ 73 سالہ انتخابی تاریخ میں بھارتی عوام نے دس مرتبہ کانگریس اور پانچ مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا انتخاب کیا، جب کہ جنتا دل اور جنتا پارٹی بھی حکومت بنانے میں کام یاب رہیں۔

لوک سبھا کے پہلے عام انتخابات میں(اکتوبر1951ء) 489نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوئی، جن میں سے انڈین نیشنل کانگریس364نشستوں پر کام یاب رہی، جب کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا 16نشستوں کے ساتھ دوسری اور سوشلسٹ پارٹی 12نشستوں کے ساتھ تیسری پوزیشن پر رہی۔ ہندو نیشلسٹ پارٹی بھارتیہ جن سنگھ نے تین نشستیں حاصل کیں۔جواہر لال نہرو وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔

دوسرے عام انتخابات فروری سے مارچ1957ء کے درمیان عمل میں آئے۔ لوک سبھا کی494نشستوں میں سے جواہر لال نہرو کی قیادت میں کانگریس371 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی۔27نشستیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو ملیں۔ حسبِ سابق کانگریس نے حکومت بنائی اور وزارتِ عظمیٰ جواہر لال نہرو کے حصّے میں آئی۔فروری1962ء میں تیسرے انتخابات ہوئے۔520 نشستوں میں سے کانگریس نے 361نشستیں جیتیں،29 سیٹس پر برتری کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا دوسرے اور سونترا پارٹی 18نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھی۔

کانگریس اور جواہر لال نہرو مسلسل تیسری مرتبہ حکومت بنانے میں کام یاب ہوگئے،تاہم 27مئی 1964ء کواچانک انتقال کے سبب نہرو اپنی مدّت پوری نہ کرسکے۔پہلے گلزاری لال نندہ کو قائم مقام وزیرِ اعظم بنایا گیا، بقیہ مدّت کے لیے لال بہادر شاستری وزیرِ اعظم بنے، تاہم وہ بھی نئے الیکشن سے قبل گیارہ جنوری1966ء کو وفات پا گئے۔لوک سبھا کے چوتھے انتخابات فروری1967ء میں ہوئے۔520 میں سے283 نشستیں کانگریس کو ملیں اور یوں وہ مسلسل چوتھی مرتبہ حکومت بنانے میں کام یاب رہی۔اِس کام یابی کے نتیجے میں بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم جواہرلال نہرو کی بیٹی، اندر اگاندھی بھارت کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم منتخب ہوئیں۔ 

ان انتخابات میں سونترا پارٹی نے44، بھارتیہ جن سنگھ نے35اور دو سوشلسٹ گروپس نے46نشستیں حاصل کی تھیں۔مارچ1971 ء میں پانچویں الیکشن وقت سے پہلے ہوئے۔اس الیکشن میں کانگریس دو دھڑوں میں تقسیم تھی، ایک دھڑے کی قیادت اندرا گاندھی کے پاس تھی، جب کہ’’ بنیادی گروپ‘‘ کی قیادت کانگریس کے صدر نجلنگایا کر رہے تھے۔ اندرا گاندھی کے زیرِ قیادت کانگریس نے518میں سے352نشتوں پر کام یابی حاصل کرکے حکومت بنائی، دیگر جماعتوں میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، جن سنگھ سونترا پارٹی سمیت 26قابلِ ذکرسیاسی جماعتیں میدان میں تھیں۔فروری سے مارچ1977 ء تک چھٹے عام انتخابات ہوئے اور بھارتی تاریخ میں پہلی مرتبہ کانگریس کی بجائے جنتا دل542 میں سے295نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔

کانگریس نے154سیٹوں پر کام یابی حاصل کی تھی۔اِس بار مرار جی ڈیسائی کے زیرِ قیادت بھارت میں پہلی مرتبہ مخلوط حکومت کا تجربہ ہوا، تاہم، مضبوط جمہوری روایت کے باوجود مرار جی ڈیسائی صرف دو سال، چار ماہ ہی حکومت چلاسکے اور پھر کانگریس کی حمایت سے اگلے وزیرِ اعظم چرن سنگھ بنے، تاہم پارلیمنٹ میں حمایت کھونے کے سبب اُن کی حکومت اور اسمبلی مدّت پوری نہ کرسکی تھی۔ یوں مخلوط حکومت کا یہ تجربہ ناکام ثابت ہوا۔بھارت کے ساتویں انتخابات جنوری 1980ء کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوئے،جس میں اندرا گاندھی کے زیرِ قیادت کانگریس 529 میں سے353 نشستوں پر کام یابی حاصل کرکے دوبارہ حکومت بنانے میں کام یاب ہوگئی۔31 اکتوبر1984 ء کو اندرا گاندھی کے قتل پر اُن کے بیٹے، راجیو گاندھی وزیرِ اعظم بن گئے۔

دسمبر1984ء میں آٹھویں عام انتخابات ہوئے، جس میں راجیو گاندھی کے زیرِ قیادت کانگریس نے516 نشستوں میں سے397 پر کام یابی حاصل کی۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے دو، کمیونسٹ پارٹی نے22 ، تلگودیشم پارٹی نے 30 اور جنتا پارٹی نے دس نشستوں پر کام یابی حاصل کی۔ نومبر1989 ء میں نویں انتخابات ہوئے۔ کانگریس اس الیکشن میں صرف197 نشستیں جیتنے میں کام یاب ہوئی، جب کہ مدّ ِمقابل جماعتوں میں سے جنتا دل نے143 ، بھارتیہ جنتا پارٹی نے85 اور کمیونسٹ پارٹی نے 33 نشستیں جیتیں۔ جنتا دل کی زیرِ قیادت اتحاد نے ایک بار پھر مخلوط حکومت قائم کی، پہلے وی پی سنگھ اور پھر چندر شیکھر وزیرِ اعظم بنے۔

تاہم، اِس مرتبہ بھی مخلوط حکومت پانچ سال پورے نہ کرسکی اور وسط مدّتی الیکشن کی راہ ہم وار ہوگئی۔مئی اور جون1991ء میں ہونے والے دسویں الیکشن کے دوران کانگریس کے وزیرِ اعظم کے امیدوار، راجیو گاندھی ایک خودکُش حملے میں ہلاک ہوگئے۔ اس الیکشن میں543 میں سے 511 نشستوں پر انتخابات ہوئے۔ سونیا گاندھی کی زیرِ قیادت کانگریس232 نشستوں پر کام یابی کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کرسامنے آئی، جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے120، جنتا دل نے59، کمیونسٹ پارٹی نے35 نشستیں جیتیں۔کانگریس کی جانب سے نرسہما راؤ کو وزیرِ اعظم بنایا گیا۔ گیارہویں انتخابات اپریل27 سے7 مئی 1996ء کے دوران منعقد ہوئے۔

اس الیکشن کے نتائج منقسم تھے۔ لوک سبھا کی 543نشستوں پر انتخاب ہوئے اور بھارت کی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندو شدّت پسندی نمایاں طور پر نظر آئی کہ ہندو انتہا پسند جماعت، بی جے پی 161نشستوں پر کام یابی کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ کانگریس نے140 ، جنتادل نے 46 ، کمیونسٹ پارٹی نے32 نشستوں پر کام یابی حاصل کی۔ بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی نئے وزیرِ اعظم بنے، تاہم وہ پارلیمنٹ میں اکثریت ثابت نہ کرسکے اور صرف16دن اس عُہدے پر رہے، جس کے بعد15جماعتی اتحاد، متحدہ محاذ کے ایچ ڈی دیوگوڈا نئے وزیرِ اعظم بن گئے۔ 

چوں کہ مخلوط حکومت کے اپنے مسائل ہوتے ہیں، لہٰذا وہ قریباً ایک سال بعد ہی مستعفی ہوگئے اور اگلے وزیرِ اعظم، متحدہ محاذ کے آئی کے گجرال بنے، لیکن یہ مخلوط حکومت بھی اپنی مدّت پوری نہ کرسکی، جس کے بعد ایک بار پھر وسط مدّتی انتخابات ہوئے۔ فروری1998 ء میں بھارت میں بارہویں انتخابات ہوئے،جس میں بی جے پی اور اس کے اتحادی بڑے گروپ کے طور پر سامنے آئے۔تاہم، مجموعی طور پر یہ بھی معلّق پارلیمنٹ تھی۔ بی جے پی 182،کانگریس 141،سماج وادی پارٹی20، کمیونسٹ پارٹی32 اور جنتا دل چھے نشستوں پر براجمان تھی۔بی جے پی 13جماعتوں کے اتحاد کی بدولت مخلوط حکومت بنانے میں کام یاب ہوگئی۔ 

اٹل بہاری واجپائی ایک بار پھر وزیرِ اعظم بنے، تاہم یہ مخلوط حکومت بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔پارلیمنٹ میں اکثریت قائم نہ رہنے کے باعث پھر وسط مدّتی انتخابات ہوئے۔ستمبر سے اکتوبر1999ء کے درمیان لوک سبھا کے تیرہویں انتخابات ہوئے،جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ شامل 24 جماعتوں کے اتحاد’’ ڈیمو کریٹ الائنس‘‘ نے 543 میں سے298 نشستیں اپنے نام کرلیں۔

کانگریس135 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھی۔بی جے پی نے ایک بار پھر اٹل بہاری واجپائی کو وزیرِ اعظم کا منصب عطا کیا۔مُلک کے 14ویں انتخابات چار مراحل میں20اپریل سے 10مئی2004ء کے دَوران ہوئے۔13مئی2004 ء کو جاری کردہ نتائج کے مطابق سونیا گاندھی کی زیرِ قیادت کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں نے219 نشستوں پر کام یابی حاصل کرکے حکومت بنانے کی راہ ہم وار کرلی، بی جے پی اتحاد’’ این ڈی اے‘‘ نے188 اور دیگر جماعتوں نے132 نشستوں پر کام یابی حاصل کی تھی۔

کانگریس کے مَن موہن سنگھ مُلک کے نئے وزیرِ اعظم بنے۔پندرہویں عام انتخابات پانچ مراحل میں16اپریل سے13مئی 2009ء کے درمیان ہوئے، جس میں کانگریس اور اُس کی اتحادی جماعتیں ایک بار پھر 282نشستوں پر کام یابی حاصل کرکے اگلی مدّت کے لیے حکومت بنانے میں کام یاب رہیں۔بی جے پی اور اس کے اتحادی165 کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے، جب کہ تھرڈ فرنٹ 72 نشستیں جیتنے میں کام یاب رہا۔کانگریس کی جانب سے اگلے پانچ سال کے لیے دوبارہ مَن موہن سنگھ وزیرِ اعظم منتخب کیے گئے۔ لوک سبھا کے سولہویں انتخابات سات اپریل سے 12مئی 2014 ء تک نو مراحل میں ہوئے۔

16مئی 2014ء کو جاری کردہ انتخابی نتائج کے مطابق،543 نشستوں میں سے انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی نے282نشستوں پر کام یابی حاصل کرکے اکثریت حاصل کرلی۔ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے مجموعی طور پر337 نشستیں جیتیں۔ سابق حُکم ران جماعت، کانگریس کی کارکردگی انتہائی خراب رہی اور وہ صرف 44نشستیں جیت پائی۔اس کام یابی کے بعد بھارتی صوبے گجرات کے سابق وزیرِ اعلیٰ، نریندر مودی نئے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔لوک سبھا کے سترہویں انتخابات گیارہ اپریل سے23 مئی2019 ء کے درمیان سات مراحل میں ہوئے۔ 

انتخابی نتائج کے مطابق بی جے پی کے نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس نے 346 نشستوں پر کام یابی حاصل کی، جب کہ کانگریس کے یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس کو 96 نشستیں ملیں۔ واضح رہے، اس الیکشن میں بی جے پی نے تنہا 300نشستیں جیت لی تھیں۔ انفرادی طور پر کانگریس کو52 ، شیوسینا کو 18، ڈی ایم کے کو23 اور دیگر جماعتوں نے 102 نشستیں حاصل کی تھیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ عام انتخابات ایک ایسے ماحول میں ہو رہے ہیں، جب بھارت 205لاکھ کروڑ روپے کا مقروض ہے، جو فی صد کے لحاظ سے بھارت کی جی ڈی پی کا تقریباً80فی صد بنتا ہے۔ بھارت اپنی پوری تاریخ میں کبھی بھی اِس قدر مقروض نہیں رہا۔ تاہم، مودی حکومت کے حامیوں کی رائے میں اِس مجموعی قرض میں سےصرف18فی صد بیرونی قرض ہے، باقی اندرونی ہے، جو کہ زیادہ تشویش کی بات نہیں۔ قرض میں یہ ہمالیائی اضافہ مودی سرکار کے دس برسوں میں ہوا ہے۔ 2014ء میں پہلی مرتبہ مودی حکومت قائم ہوئی، تو اُس وقت قرض جی ڈی پی کا 39فی صد تھا، جو ہندسوں میں 49لاکھ کروڑ بنتا ہے۔

یہ قرض اب بڑھ کر 205کروڑ ہوگیا ہے۔بھارت کے سنجیدہ حلقے سمجھتے ہیں کہ قرض جیسا بھی ہو، اُسے ادا عوام ہی نے کرنا ہے۔ زیادہ قرض کا مطلب زیادہ ٹیکس اور زیادہ ٹیکس کا مطلب، زیادہ منہگائی ہے۔ تاہم، اس سب کچھ کے باوجود، انتہا پسندی سے بھرپور انتخابی مہم اور کنٹرولڈ میڈیا کی مدد سے موجودہ چناؤ کے نتائج پچھلے دو الیکشنز کا’’ نشرِ مکرّر‘‘ ہی محسوس ہو رہے ہیں۔