رب کائنات کا قرآن پاک میں حضرت ابراہیمؑ کے حوالے سے ارشاد ہے کہ ’’جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے ‘‘ اس سلسلہ روز وشب میں نہ زندگی کوئی معجزہ ہے نہ موت کوئی انہونی، جو دنیا میں آیا ہے اس نے واپس اس طرف جانا ہے یہ نظام قدرت ہے ۔ بیماری اور شفا اللہ کی جانب سے ہے اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ شفا رب کائنات ہی دیتا ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ جب انسان بیمار ہو تو اپنے رب سے شفا کی دعا مانگے ۔ صوفیاء کا کہنا ہے کہ صدقہ اور خیرات بیماری سے نجات دلانے کا ایک اہم وسیلہ ہے ۔ کہتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں صدقہ دو اور خیرات کرو، اللہ مشکل آسان کرے گا اور دعا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ مشکل میں مجھے پکارو میں تمہاری پکار سنوں گا۔ روایت یہ ہے کہ دعا جو بھی کی جائے قبول ہوتی ہے تاہم اس کے وقت کا تعین اللہ ہی نے کرنا ہوتا ہے ۔ حدیث مقدسہ ہے کہ سب سے افضل ماں کی دعا ہوتی ہے اور مشرقی و اسلامی روایات اور اقدار یہ ہے کہ اگر دشمن بھی بیمار ہو تو اسکی نہ صرف عیادت کی جائے بلکہ اسکی صحت یابی کے لئے دعا کی جائے ۔یہ کسی طور ’’اچھی روایت ‘‘ نہیں کہ بیماری پر تنقید کی جائے یا اس کے حوالے سے نازیبا کلمات کا اظہار کیا جائے ۔ پنجابی کے شاعر میاں محمد بخش ؒ کا شہرہ آفاق شعر ہے ؎
دشمن مرے تے خوشی نا کریےسجنا وی مر جانا
دیگر تے دن ہویامحمدؔ تے اوڑک نو ڈُب جانا
اور یہ شعر ہماری مشرقی روایات کا عکاس ہے اور مہذب معاشرہ میں ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے ۔ آزادی اظہارکا مطلب یہ نہیں ہے کہ مشرقی روایات کو اس طرح روند دیا جائے اور اس سے کسی کی دل آزاری ہو ۔یہ درست ہے کہ ایک شخص سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اسکی پالیسی کی مخالفت کی جا سکتی ہے لیکن مشکل اور مصیبت کے وقت خوشی کا اظہار کیا جائے اسکی تائید نہیں کی جا سکتی ۔
میاں محمد نواز شریف ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ ہیں اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہیں ملک کا تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے ان سے ہزار مخالفت کے باوجود اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ عوام کے ووٹ سے جمہوری طور پر وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں حزب اختلاف کی جماعتوں کو ان سے اختلاف کرنے کا جمہوری حق حاصل ہے اور ان پر تنقید بھی کی جا سکتی بلکہ کی بھی جا رہی ہے یہ جمہوریت کے خوبصورت مکھڑے کا جھومر ہے ۔
اس تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ میاں نواز شریف علیل ہیں اور کل لندن کے ایک بڑے مشہور اسپتال میں ان کی اوپن ہارٹ سرجری ہونی ہے یہ ’’دل کا روگ‘‘ انہیں ایک مدت سے لگا ہوا ہے کہ جب سے انہوں نے اپنے عوام سے دل لگایا ہے جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو جہاں تک مجھے یاد ہے کہ 1986ء میں ایک رات ان کے دل پر دبائو محسوس ہوا تھا اور اتفاق اسپتال میں ڈاکٹر معظم نے ان کا معائنہ کیا ۔اگرچہ اسے ہارٹ اٹیک قرار نہیں دیا گیا لیکن انہیں ’’دن رات ‘‘ کام کرنے سے یہ کہہ کر منع کر دیا گیا کہ ’’کچھ آرام بھی کرلیا کریں ‘‘ لیکن اس طبی ہدایت کو میاں صاحب نے کبھی اہمیت نہیں دی اور’’کام،کام اور کام ‘‘ کو اپنا ماٹو اور مشن بنائے رکھا۔زندگی کے سفر میں انہوں نے بڑے ہی کٹھن دن بھی دیکھے ،جلا وطن ہوئے، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اٹک قلعہ میں قید تنہائی سے بھی گزرے۔ یہ اس قدر سنگین اور مشکل قید ہے کہ جس پر عظیم رہنما نیلسن منڈیلا نے بھی اپنی سوانح عمری میں اعتراف کیا ہے کہ ’’قید تنہائی بڑی ہی کٹھن سزا تھی ‘‘ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف ایک نہیں تین بار وزیر اعظم بنے ان کے اس اعزاز سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انتہائی مشکل حالات میں ’’ایٹمی دھماکہ‘‘ کرکے انہوں نے پاکستان میں نہیں عالم اسلام کا سربلند کر دیا تھا اور خطہ میں توازن قائم کیا تھا اور دنیا میں پاکستان کو نئی پہچان دی تھی ۔ مجھے یاد ہے کہ ایٹمی دھماکہ کے بعد پاکستان ڈے کی تقریب میں شرکت کرنے ٹوکیو گیا یہ تقریب جاپان مسلم لیگ کے صدر قیصر محمود نے منعقد کی تھی ان دنوں جناب طارق فاطمی جاپان میں پاکستان کے سفیر تھے ۔قیصر محمود، میاں صاحب کے جانثاروں میں شامل تھے اور بڑے کام کے کارکن تھے کیوں فراموش کئے گئے اس کا مجھے علم نہیں ۔ہوا یہ کہ میں اور نادر چوہدری ٹوکیو کی معروف اور خوبصورت گینز اسٹریٹ پر ایک شام چہل قدمی کر رہے تھے کہ سامنے سے چند حبشی آ رہے تھے میں نے کرتہ شلوار اور واسکٹ پہن رکھی تھی مجھے دیکھ کر ایک نیگرو نے انگریزی میں مخاطب کرکے پوچھا کہ’’کس ملک سے تعلق ہے ’’میرا جواب تھا ’’پاکستان ‘‘ یہ سن کر وہ سب خوشی سے اچھل پڑے اور یہ کہا The Great Atomic Country یہ اچھی بات ہے کہ ملک میں حزب اختلاف کی قیادت نے میاں صاحب کی صحت یابی کے لئے دعا کی ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن سوشل میڈیا پر چند افراد کی جانب سے میاں صاحب کی بیماری کے حوالے سے جن تاثرات کا اظہار کیا گیا ہے وہ کسی صورت مناسب نہیں ہے انہیں اپنے رویہ پر نظرثانی کرنی چاہئے سب کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت پر تنقید کرے، احتجاج کرے ، دھرنا دے لیکن کوئی بیمار ہو تو ’’ تین حرف‘‘بھیجنا ٹھیک نہیں اور ہماری مشرقی روایات اسکی تائیدنہیں کرتیں ہماری سب کی یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا آپریشن کامیاب فرمائے اور وہ صحت یاب ہو کر جلد ہمارے درمیان ہوں اور سیاسی معرکے اسی آب وتاب سے جاری رہی۔