• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی میں 2002ء میں پہلی بار اقتدار میں آنے والے ایردوان کی آق پارٹی گزشتہ بیس سال سے مسلسل اقتدار میں ہے۔

2003ء سے 2013ء تک کے پہلے مسلسل سات سال تک ترکی میں ریکارڈ حد تک فی کس قومی آمدنی میں اضافہ ہوتا رہا اور 2003ء میں فی کس قومی آمدنی 4٫739ڈالر سے 2013ء میں 12٫582 ڈالر تک پہنچ گئی لیکن پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اس کی فی کس قومی آمدنی سات سال بعد یعنی 2014ء سے 2021ء تک مسلسل کم ہوتی چلی گئی اور 2021ء میں 7ہزار ڈالر سے بھی کم رہ گئی ، حالانکہ ترکی نے پیداوار، برآمدات، دفاعی صنعت اور سیاحت کے شعبوں میں ریکارڈ ترقی کی ہے لیکن ترکی کی برآمدات کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہونے کی وجہ سے تجارتی خسارے میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ترک لیرے کی قدرو قیمت میں کمی آتی جا رہی ہے اور ڈالر بڑی سرعت سے اونچی پرواز پر گامزن ہے۔ان اقتصادی مشکلات کی ایک وجہ صدر ایردوان کی شرح سود کو کم کرنے کی پالیسی پر اصرار کرنا بھی ہے۔ صدر ایردوان کی یہ پالیسی دراصل بین الاقوامی اقتصادی قوانین کے بالکل متضاد ہے جس کی وجہ سے سرکاری ملازمین اور غریب عوام بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔ تازہ ترین سروے کے مطابق اگر ملک میں آج انتخابات ہوتے ہیں توصدر ایردوان کو 32 فیصد ووٹ ملنے کی توقع ہے جو صدر ایردوان کی کم ترین مقبولیت کی عکاسی کرتی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اپوزیشن رہنما صدر ایردوان کی کم ہونے والی مقبولیت کو کیشن کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس وقت ترکی کی چھ سیاسی جماعتیں صدر ایردوان کے خلاف متحدہ محاذ بنا چکی ہیں اور ان کے خلاف ایک مشترکہ صدارتی امیدوار سامنے لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ان چھ سیاسی جماعتوں کو ایک ایسا لیڈر منتخب کرنے کی ضرورت ہے جو ماہر اقتصادیات ہو ۔

ترکی کی سیاسی جماعتوں کا مشترکہ اتحاد پہلے مرحلے میں اپنے اپنے صدارتی امیدوار کو کھڑا کرنے کا فیصلہ کرچکاہےلیکن ان کا یہ فیصلہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس اتحاد کے ووٹ تقسیم ہونے کی صورت میں صدر ایردوان پہلے مرحلے ہی میں اپوزیشن کا کام تمام کرسکتے ہیں۔ اس لیے اپوزیشن کوایک ایسا امیدوار سامنے لانا چاہیے جو آق پارٹی اور دائیں بازو کی دیگر جماعتوں کے ووٹروں سے بھی ووٹ حاصل کرسکے۔اس وقت تک اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی (CHP) کے چیئرمین کمال کلیچدار اولو کو اپوزیشن کا مشترکہ صدارتی امیدواربنائےجانےکی باتیں کی جا رہی ہیں لیکن ایسا کرنے کی صورت میں صدر ایردوان کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہو جائیں گے کیونکہ ترکی میں بائیں بازو کی جماعت کے لیڈر کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہوتے۔ اپوزیشن کو ایک ایسے امیدوار کی ضرورت ہے جو بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دائیں بازو کی جماعتوں کے ووٹروں سے بھی ووٹ حاصل کرسکے ۔ابھی تک اپوزیشن نے اپنے مشترکہ امیدوارکے نام کا اعلان نہیں کیا لیکن اس ضمن میں استنبول کے مئیر اکرم امام اولو ، انقرہ کے مئیر منصور یاوش کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ صدر ایردوان ہی کے دستِ راست علی بابا جان جو ایردوان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں وزیرخارجہ، وزیر خزانہ اور نائب وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں اور جن کے وزیر خزانہ ہونے کے دور میں ملک نے بڑی سرعت سے ترقی کی تھی ،کے علاوہ صدر ایردوان ہی کے ایک دیگر دستِ راست اور ایردوان کے صدر بننے کے دور میں وزارتِ عظمیٰ اور اس سے قبل وزیر خارجہ کے عہدے پر رہنے والے احمد دائود اولو کو آق پارٹی اور دائیں بازو کی جماعتوں سے بھی ووٹ ملنے کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ ابھرتی ہوئی دائیں بازو کی ایک دیگر جماعت’’ گڈ پارٹی‘‘ کی چیئر پرسن میرال آق شینر بھی اس دوڑ میں شامل ہیں جبکہ سعادت پارٹی اور ڈیمو کریٹ پارٹی کے چیئرمین کے نام بھی صدارتی امیدوار کے طور پر لیے جا رہے ہیں ۔ ان چھ جماعتوں کے اتحاد کو صدر ایردوان کا مقابلہ کرنےکیلئے پہلے ہی مرحلے میں اپنے مضبوط امیدوار کو سامنے لانے کی ضرورت ہے ورنہ یہ موقع ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

تازہ ترین