• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے بڑے بھائی، ممتاز محقّق، ماہر ماحولیات ڈاکٹر سمیع الزماں انتہائی لائق فائق، ذہین، اصول پرست اور ہم درد انسان تھے۔ انہوں نے انتہائی محنت و جدوجہد سےعلم وادب اور سائنس کی دنیا میں مقام بنایا۔ کیمسٹری ریسرچ سے عشق کی حد تک لگائو رکھتے تھے، ان کا زیادہ تر وقت لیبارٹری میں تجربات کرتے گزرتا، جس کی وجہ سے ہم لیب کو ان کا دوسرا گھر کہتے۔پھرگھر میں بھی ایک لیب قائم کرلی،جہاں ہمہ وقت تجربات میں مشغول رہتے۔ بعدازاں وہ ایک بڑی ریسرچ لیبارٹری میں تبدیل ہوگئی۔ 

ہر قسم کے قیمتی آلات سے مزّین یہ لیب ان کی وفات کے بعد جامعہ کراچی کے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کو عطیہ کردی گئی۔ میرے بھائی ڈاکٹر سمیع الزماں بڑوں کے ساتھ بڑے اور چھوٹوں کے ساتھ چھوٹے بن کرمحفل کو گل وگل زار بنادیتے تھے۔ وہ جہاں جاتے، لوگ جوق درجوق جمع ہوجاتے اور بڑے ذوق وشوق سے ان کی باتیں سنتے۔ خود خوش رہنا، دوسروں کو بھی خوش رکھنا اور ہرحال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ان کی صفات تھیں۔ ان کا حافظہ بلا کا تھا، جب کہ طرزِ بیان اس قدر دل نشیں تھا کہ وہ کہا کریں اور ہم سنا کریں۔ گفتگو کے دوران ایسی منظرکشی کرتے کہ لطف آجاتا۔ 

میری ہر کام یابی پر بہت خوش ہوتے، اخبارات میں شایع ہونے والے میرے مضامین کو ہمیشہ سراہتے، معمولی سی غلطی کی بھی اس خوبی سے نشان دہی کرتے کہ لگتا جرنلزم میں ماسٹرز تو میں نے کیا، لیکن ایک اچھا قلم کار ان میں چھپا ہے۔ بے شک میں ان کے آگے بالشت بھرتھی اور وہ اتنے قد آور کہ مجھے وجود ان کی علمیت و قابلیت کے آگے چھوٹا لگنے لگتا۔ خواہ سائنس کا میدان ہو، شعرو سخن کی محفل یا کوئی اور سرگرمی، وہ ہرفن مولا تھے۔ ایک خاص ترتیب سے چیزوں کو آرگنائز کرنا ان کے مزاج کا حصّہ تھا۔ بے ترتیبی بالکل پسند نہ تھی، تحریر اتنی خوب صورت، جیسے موتی پرودیئے ہوں۔

غرض یہ کہ بے شمار خوبیوں کے ساتھ طبیعت میں حد درجہ انکساری اور مروّت ان کی شخصیت کا جزو تھی۔اگرچہ بڑے خاموش طبع تھے، لیکن لبوں پر دھیمی، دل موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ جب ملتے تو ہر شخص کو گرویدہ کرلیتے۔ اپنی قابلیت اور ذہانت کے بل بوتے پر ’’پاکستان کائونسل آف سائنٹیفک انڈسٹریل ریسرچ‘‘ (PCSIR) سے منسلک ہونے کے بعد مختلف یونی ورسٹیز میں لیکچرز کے لیے مدعو کیے جانے لگے، لاتعداد مقالے لکھے اور غیرمعمولی کارکردگی کے باعث متعدد ایوارڈز سے بھی نوازے گئے۔ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کی کئی کانفرنسز کے انعقاد کے دوران کسی نہ کسی شکل میں مالی مدد بھی کرتے رہے۔ 

عالمی جرائد میں شایع ہونے والے جامع موضوعات پر ان کے مقالے ان کی علمیت کے گواہ ہیں۔شہرکے صنعتی اور تجارتی حلقوں میں بھی خاص مقبولیت حاصل تھی۔ عام گفتگو کے دوران لطیفوں، اشعار اور شگفتہ جملوں سے سب کو محظوظ کرتے، جب کہ سنجیدہ گفتگو کے دوران یوں محسوس ہوتا، جیسے علم کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہوکرنکات کے گوہر نکال کر سامنے رکھ رہے ہوں۔ بچپن میں اردو ادب میں ہماری دل چسپی دیکھتے ہوئے ہرماہ ’’تعلیم وتربیت، نونہال اور بچّوں کی دنیا‘‘ بطور خاص منگوا کردیتے، جسے ہم سب بہن بھائی ایک دوسرے سے چھین چھین کر پڑھتے۔

خوب صورت ماضی میں جھانکتے ہوئے آج احساس ہوتا ہے کہ میرے پیارے بھائی ڈاکٹر سمیع الزماں نے بحیثیت سعادت مند بیٹے، پیار نچھاور کرنے والے بھائی، پرخلوص شوہر اور پرشفقت باپ سمیت ہر رشتہ بہ خوبی نبھایا۔ آخری وقت بقول ان کے اللہ میاں کی طرف سے بلاوے کے سگنل آرہے ہیں، تو جس چیز نے انھیں فکرمند کیا وہ یہ کہ کسی کا کوئی قرض تو باقی نہیں۔ ملک کے عظیم سائنس دان، محقّق، ماہرِماحولیات اور سب سے بڑھ کر ایک اچھے انسان سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر اگرچہ دنیا سے رخصت ہوگئے، مگرجو دِیے روشن کرگئے اِن شاء اللہ یوں ہی روشنی دیتے رہیں گے اور چراغ سے چراغ جلنے کا عمل جاری رہے گا۔ (رعنا کہکشاں انصاری، کراچی)